قومی اسمبلی میں آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی کی مناسبت سے دو روزہ عالمی کنونشن کے افتتاحی سیشن سے خطاب میںاسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے پارلیمان طاقت کا مرکز،آئین کا مصنف اورواحد قانون ساز ادارہ ہے،عوام کی مرضی پارلیمان سے جنم لیتی ہے اور تمام اداروں کو اس کے سامنے جوابدہ ہونا چاہیے، یہی ہمارے آئین کی روح ہے اور یہ ہمہ گیر، باہمی احترام، متنوع اور مکالمے پر مبنی پاکستان کا واحد راستہ ہے۔
قومی اسمبلی کے اسپیکر کے علاوہ وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے بریک آؤٹ سیشن سے خطاب کیا ' اپنے خطاب میںانھوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے انتخابی عمل کو مضبوط اور الیکشن کمیشن کو با اختیار بنایا گیاہے، انتخابات کا انعقاد اور تاریخ کا اعلان اس کا اختیار ہے۔
اس حوالے سے اصلاحات کا معاملہ اب بھی قومی اسمبلی کے پاس ہے۔مختلف ادوار میں اکثر دو ادارے (اسٹیبلشمنٹ ،عدلیہ ) انتخابات پر اثر انداز ہوئے ،انتخابات سے پہلے بھی دھاندلی کرائی جاتی ہے۔ امید ہے ان دو اداروں نے تاریخ سے سبق سیکھاہے،انھوں نے مزید کہا کہ عدالتیں الیکشن کمیشن اور پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت کرتی ہیں جو آئین سے انحراف کے مترادف ہے۔
2018 سے پہلے ان دو اداروں نے اتنی مداخلت الیکشن میں نہیں کی جتنی 2018 کے بعد کی ہے۔ گزشتہ ادوار میں جمہوریتوں کو کافی مشکلات درپیش ہوئیں، جن میں ہائبرڈ جمہوریتوں کاعروج ، قوم پرستی ، بدعنوانی ، ریاست پر قبضہ، سیاست میں اعتماد کی سطح میں کمی، تنازعات اور ہجرتوں میں اضافہ شامل ہے۔ مقبولیت کے زعم میں مبتلا لیڈر عوام کے نام پر اقتدار حاصل کرتے ہیں لیکن ان کا طریقہ لبرل جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے لیے چیلنج بن جاتا ہے۔
ڈیجیٹل میڈیا کا سیاہ پہلو یہ ہے اس سے نہ صرف نجی زندگی اور سکیورٹی کو خطرات لاحق ہوتے ہیں بلکہ آزادانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد میں بھی رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں، اظہار رائے کی آزادی پر بھی حرف آتا ہے اور جعلی خبروں میں دفن ہوجاتا ہے۔ ایسی فعال اور جامع پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے ،جس کی وجہ سے جدید ٹیکنالوجی کو آزادیوں اور سکیورٹی کے لیے موثر طریقے سے استعمال کیا جاسکے۔
سابق چیئر مین سینٹ فاروق ایچ نائیک نے اس موقع پر کہا کہ آئینی جمہوریت میں ادارے بہتر انداز میں کام کرتے ہیں،مقامی اور عالمی بحران سے بچنے کے لیے جمہوریت کا بنیادی ڈھانچہ ضروری ہے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا فائدہ مند بھی ہے اور چیلنج بھی ،اس کے لیے قانون سازی وقت کی ضرورت ہے۔آذربائیجان ریپبلک کی مجلس کے ڈپٹی چیئرمین عادل آبش نے کہا آئین میں سب لوگوں کی رائے شامل ہوتی ہے،اس میں ترامیم بھی کی جاتی ہیں۔
سوشل میڈیاعالمی تعلقات میں مدد دیتا ہے مگرغلط استعمال پر نقصان کا باعث بنتا ہے،انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور نسل کشی لمحہ فکریہ ہے، اس حوالے سے قانون سازی کرنی چاہیے۔ انسانی آزادیوں اور حقوق کا مل کر دفاع کرنا ہوگا ، عالمی سطح پر کئی شعبے ایسے ہیں جنھیں بہتر بنانے کے لیے انکم ٹیکس سے کچھ عرصے کے لیے مستثنیٰ قرار دیا جانا چاہیے۔سابق سینیٹر فرحت اللہ بابرنے کہافیک نیوز جمہوریت اور اداروں کے لیے خطرہ ہے،اس کے ذریعے بیانیے کو فروغ دیا جاتا ہے۔
پیپلز پارٹی کی رکن نفیسہ شاہ نے کہا آئین وفاقیت، ریاستی طرز حکمرانی ،سیاسی نظام میں تنوع اور سیاسی اختلافات دور کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر حل پیش کیا گیا،اس میں پیش کیے گئے بلدیاتی نظام کی اشد ضرورت ہے تاکہ مسائل نچلی سطح پر حل کیے جا سکیں ۔تقریب میں 17 سے زیادہ ممالک کے مندوبین شریک ہوئے،جن میں اسپیکرز ،ڈپٹی اسپیکرز، قانونی ماہرین اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے نمائندے شامل ہیں۔
جمہوری نظام میں پارلیمنٹ کی اہمیت اور مقام مسلمہ ہے۔پاکستان میں چونکہ پارلیمانی جمہوریت رائج ہے ' لہٰذا اس سسٹم میں قومی اسمبلی کی اہمیت اور مقام اس لیے زیادہ کیونکہ اس ایوان میں وہ لوگ بیٹھتے ہیں جنھیں ووٹرز کی اکثریت منتخب کرتی ہے ' صوبائی سطح پر صوبائی اسمبلی بھی ووٹرز کے منتخب کردہ ایم پیز پر مشتمل ہوتی ہے ۔
اس لیے اختیارات کا منبع اس ایوان کے منتخب کردہ وزیراعلیٰ اور کابینہ ہوتی ہے جب کہ وفاق میں وزیراعظم اور اس کی کابینہ کا بھی یہی مقام و مرتبہ ہوتا ہے' ایک اور اہم پارلیمانی ادارہ سینیٹ ہے۔اس کے ارکان براہ راست ووٹ لے کر رکن نہیں بنتے بلکہ انھیں الیکٹرول کالج سسٹم کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان منتخب کرتے ہیں۔
لہٰذا یہ بھی عوامی تائید کا حامل ادارہ ہے 'پارلیمانی نظام کا تیسرا حصہ صدر مملکت کا آفس ہے۔صدر کو بھی عوام کے منتخب نمائندے منتخب کرتے ہیں 'جمہوری نظام بنیادی طور پر ان تین اداروں کے ذریعے عوامی منشا کا اظہار کرتا ہے۔ آئین سازی سے لے کر قانون سازی 'قانون میں ترامیم کرنا 'نیا قانون بنانا 'پہلے سے موجود کسی قانون کو ختم کرنا 'سرکاری اداروں کی کارکردگی پر نظر رکھنا 'اداروں کے سربراہان کو بلانا اور ان سے سوال و جواب کرنا' ملک کا سالانہ بجٹ بنانا 'اس میں ترمیم و اضافہ کرنا 'یہ سب پارلیمنٹ کے آئینی اور بنیادی فرائض اور اختیار میں شامل ہے۔
اگر پارلیمنٹ کو ان فرائض و اختیارات سے محروم کر دیا جائے تو پھر پارلیمانی نظام زمین بوس ہو جائے گا۔ ریاست کے دیگر ادارے اور ان کے دائرہ کار 'اختیارات 'اخراجات کا تعین پارلیمنٹ ہی طے کرتی ہے اور اسے آئین سازی کے ذریعے قانون کا درجہ مل جاتا ہے۔
یوں دیکھا جائے تو آئین 'عدلیہ 'افواج اور بیوروکریسی جیسے ادارے پارلیمنٹ کے بطن سے ہی وجود پاتے ہیں اور پھر اپنے اپنے آئین میں درج دائرہ کار اور حدود میں رہ کر کام کرنے کے پابند کر دیے جاتے ہیں۔
پاکستان آج جن سیاسی اور ادارہ جاتی زوال اور بحران کا شکار ہے ' اس کی بنیادی وجہ پارلیمنٹ کا کمزور کردار ہے ۔ پارلیمنٹرینز نے ہمیشہ اپنے گروہی 'سیاسی اور مالی مفادات کو ترجیح دی جب کہ پارلیمنٹ کے آئینی رول پر سمجھوتہ کیا ہے ۔ ایوب خان کے مارشل لاء سے پاکستان میں عوامی نمائندوں کی کم تر حیثیت کا تعین ہوا اور آئین و قانون کو اپنی مرضی کا جامع پہنا کر نافذ کرنے کا آغاز ہوا ہے۔
کبھی بنیادی جمہوریتوں کا نظام شروع کیا جسے بی ڈی ممبر سسٹم کہا جاتا ہے۔ اسمبلی کی حیثیت ایک نمائشی ادارے کے سوا کچھ نہیں تھی اور ارکان اسمبلی نے بھی اپنی اس حیثیت کو بخوبی قبول کیا ہے۔یہ آمرانہ نظام اس وقت تک جاری رہا جب تک پاکستان دولخت نہیں ہو گیا۔
باقی ماندہ پاکستان میں پارلیمانی سسٹم رائج ہوا ' اس وقت کی پارلیمنٹ میں 1973میں متفقہ طور پر آئین منظور کیا ' یوں اچھا برا 'پارلیمانی جمہوری نظام کا آغاز ہو گیا لیکن یہ جمہوریت بھی محض چار برس جاری رہا اور ضیاء الحق نے آپریشن فیئر پلے کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر لیا ' آئین کو معطل کر دیا 'آئین کی معطلی اور منتخب حکومت کا تختہ الٹنے اور اقتدار پر قابض رہنے کو اس وقت کی اعلیٰ عدلیہ نے جائز قرار دے دیا ۔
باقی ماندہ پاکستان میں یہ پہلا کام تھا جو پارلیمنٹ اور آئین سے وجود پانے والے ادارے نے پارلیمانی نظام کا تحفظ کرنے کی بجائے زبردستی اقتدار پر قبضہ کرنے والے کو آئینی تحفظ دیا اور اس کے اقدامات کو جائز قرار دے دیا۔ ضیاء الحق کے بعد بھی ایسے فیصلے آتے رہے جو ملک میں جمہوری اور ماڈریٹ طرز فکر کے خلاف رہے۔
جنرل مشرف کے اقتدار پر قبضے کو بھی اعلیٰ عدلیہ نے آئینی تحفظ فراہم کیا ' یوں عدالتی فیصلے پارلیمانی جمہوریت اور پارلیمنٹ کی کمزوری کا باعث بن گئے۔
یہ تصویر کا ایک رخ ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ پارلیمنٹ خود ہے۔ پارلیمنٹیرینز نے ضیاء الحق کے اقتدار کو جائز تسلیم کیا 'ضیاء الحق عہد میں آئین کے اندر جو تبدیلیاں اور ترامیم کی گئیں ' انھیں آئین کا حصہ بنانے کی منظوری دی ' اسی طرح جنرل پرویز مشرف کے ایل ایف او کو پارلیمنٹ نے ہی آئین کا حصہ بنایا ' اس کے ساتھ ساتھ جمہوری دور میں بھی پارلیمنٹ اور پارلیمنٹیرینز نے انتہا پسندی کو تحفظ دینے والے قوانین کو تبدیل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ آئین میں مزید ایسی ترامیم کی گئیں جو انتہا پسندی اور انتہا پسندوں کوغیرمعمولی طاقت دینے کا باعث بنی ۔ پارلیمنٹیرینز نے اپنے ادارے کے وقار 'اس کی عزت اور مقام کو بحال کرنے کے لیے کوشش ہی نہیں کی۔
بہرحال دیر آید درست آید 'پارلیمنٹیرینز نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ہے' پارلیمنٹ کے اختیارات کو استعمال کرنے کی کوشش کی ہے اور دیگر اداروں کو پارلیمنٹ کے آئینی دائرہ کار میں مداخلت سے روکنے کی کوشش کی ہے۔ پارلیمنٹیرینز کا یہ کردار یقیناً پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کو مضبوط کرے گا اور آئین میں موجود خامیوں 'ابہام اور ذومعنیت کے خاتمے کے لیے ثابت قدمی سے قانون سازی کرے گا۔