شاید آپ روز روز کی سیاسی سرگرمیوں سے اُکتا گئے ہوں گے، اس لیے طبیعت بہلانے کے لیے ایک نیا سا کالم پیشِ خدمت ہے ، اگر پسند آجائے تو بہت خوب ورنہ آپ کا قیمتی وقت ضایع کرنے کے لیے معذرت خواہ ہوں۔آخر ذائقہ بدلنے کے لیے کوئی نہ کوئی اُپائے تو کرنا پڑے گا۔ آئیے! تھوڑا سا وقت لفاظی میں گزاریں لیکن لفاظی ہر ایک کے بس کی بات نہیں کیونکہ اِس کے لیے بھی ہنر چاہیے۔
آپ نے تاریخ میں تو ضرور پڑھا ہوگا کہ بادشاہوں نے اپنی تفریح و طبع کے لیے باقاعدہ مسخرے پال رکھے تھے مثلاً مغل شہنشاہ اکبر نے اِس کام کے لیے مُلا دو پیازہ کی خدمات حاصل کیں جس کا واحد کام شہنشاہ کو خوش کرنے کے لیے لطیفے سنانا تھا تاکہ ریاست کے معاملات سے ہونے والی تھکاوٹ کو اُتارنے کے لیے دلچسپ باتیں کی جائیں۔
دورِ حاضر میں یہ کام ریڈیو اور ٹی وی سے نشر ہونے والے پروگراموں سے لیا جا رہا ہے۔ ماضی میں یہ کام قصہ گوئی سے لیا جاتا تھا۔
ہمیں یاد ہے کہ ہر ہفتہ ایک قصہ گو دہلی کی جامع مسجد جس کا رخ لال قلعہ کی جانب تھا، ایک بڑے سے میدان میں اپنے انوکھے انداز میں قصہ لہک لہک کر سنایا کرتا تھا اور اُس کا اندازِ بیاں اِس قدر پُرکشش تھا کہ لوگوں کو محسوس ہی نہ ہوتا تھا کہ وہ گھنٹوں سے کھڑے ہوئے ہیں۔ جی چاہتا تھا کہ قصہ کبھی ختم ہی نہ ہو۔
ہمارا آج کا موضوع '' نام '' ہے۔ ایک طبقہ وہ ہے جس کا خیال ہے کہ نام جو بھی رکھا جائے وہ اچھے سے اچھا ہو اور با معنی ہو کیونکہ نام کے بھی کچھ اثرات ہوتے ہیں۔
دوسرا طبقہ وہ ہے جس کا خیال یہ ہے کہ نام محض شناخت کے لیے ہوتا ہے اور ضروری نہیں کہ اِس سے کوئی فرق پڑے۔ بعض نام ایسے ہیں کہ جن سے اُن کی شناخت کرنے میں اُن کے مذہب کا پتہ چلتا ہے۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ نام میں کیا رکھا ہے جب کہ بعض نام ایسے بھی ہوتے ہیں جو مذہب سے بالاتر ہیں اور معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کون ہے؟ مثلاً گھسیٹا اور بابو۔
اِن ناموں سے پکارے جانے سے کوئی اندازہ نہیں کرسکتا کہ اِس شخص کا مذہب کیا ہے؟ مثال کے طور پر ایسا ہی ایک نام دہلی سے شائع ہونے والے ایک معروف ادبی شخصیت کا ہے جو خوشتر گرامی کے نام سے مشہور ہوئے۔ عام آدمی کو معلوم ہی نہیں کہ وہ کون تھے، اُن کا اصل نام کیا تھا اور اُن کا تعلق کس مذہب اور مقام سے تھا؟ ایسے بہت سے شعرائے کرام ہیں جن کے تخلص سے اُن کے جائے مقام کا پتہ معلوم ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر جوش ملیح آبادی، بہزاد لکھنوی، اکبر الہ آبادی، گوپی ناتھ امن لکھنوی، محشر بد ایونی، شکیلؔ بد ایونی، ساحر لدھیانوی، فانی بدایونی،اسمعیٰل میرٹھی، حفیظؔ جالندھری، حفیظؔ ہوشیار پوری وغیرہ وغیرہ۔ یہ فہرست اتنی طویل ہے کہ یہ کالم اُس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
ایک صاحب جو اپنے تئیں بقراط بنتے تھے ہم سے بولے یار کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کالم پہ کالم لکھے جا رہے ہیں اور اُنہیں پڑھتا وڑھتا کوئی نہیں۔ خواہ مخواہ لوگوں کا وقت ضایع کر رہے ہیں۔ ہم تاڑ گئے کہ موصوف کا اشارہ ہماری طرف ہے۔ ہم نے ادب سے عرض کیا کہ بھائی آپ کس کی بات کر رہے ہیں لیکن خدا کے واسطہ چلتے چلتے ایک شعر تو سنتے جائیں۔
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر
ہم نے بمشکل تمام اپنی ہنسی ضبط کی اور اپنا راستہ لیا۔ آئیے ! اب کچھ اور باتیں ہوجائیں۔ ہوا یہ کہ ایک روز ہم نے ایک بی لومڑی کو تیزی سے بھاگتے ہوئے دیکھا۔ ہم نے کہا '' بی لومڑی خیر تو ہے'' بولیں '' کیا آپ کو پتہ نہیں گیدڑ پکڑے جارہے ہیں۔'' ہم نے کہا کہ '' لیکن آپ گیدڑ تو نہیں'' لومڑی نے بُری طرح ہانپتے ہوئے کہا '' یہ پُرانا دور نہیں۔ یہ نیا دور ہے، کسی کا کچھ پتہ نہیں کہ کب کیا ہوجائے۔'' آج کل کسی کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
بات بالکل ٹھیک ہے وقت اور حالات کا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ معلوم نہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ اچھے اچھوں کے ہوش اُڑے ہوئے ہیں۔ ہاں تو بات ہورہی تھی نام کی۔ محض نام رکھنے سے کام کوئی کام نہیں بنے گا۔ مثلاً جو حقیقت ہے اُسے فسانہ نہ سمجھا جائے اور نام کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے یہ دلچسپ حقیقت ملاحظہ فرمائیں۔
آنکھوں سے اندھے اور نام نین سُکھ
اور یہ کہ پڑھے نہ لکھے لیکن نام محمد فاضل
ذرا غور فرمائیں تو پتہ چلے گا شکیل، حسین، جمیل، فضیل، عدیل، نبیل، وکیل جیسے ہم قافیہ نام رکھنے سے کوئی ویسا تو نہیں ہوسکتا جیسا اُس کا نام ہے۔ ہمیں خود نہیں معلوم کہ ضروری نہیں کہ ہم جیسے ہیں جیسا کہ ہمارا نام ہے۔ معاف کیجیے ہم ناموں کی اِس طویل فہرست میں شریف، شجاعت اورعمران جیسے نام شامل کرنا بھول گئے۔