حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

لڑکی نے ماں کا زیور چرایا، نقدی چرائی اور ایک رات لڑکے کے ساتھ بھاگ نکلی

fatimaqazi7@gmail.com

سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو گردش میں ہے، ویڈیو بنانے والی نے لوگوں سے درخواست کی ہے کہ اس کا پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں کو پہنچایا جائے۔ دراصل یہ ویڈیو والدین اور بچیوں کے نام ہے اور عبرت کا مقام ہے، خاص طور سے ان لڑکیوں اور والدین کے لیے جو ملازموں پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔


ایک امیر کبیر مذہبی گھرانے میں والد اپنے کاروبار میں مصروف، والدہ بھی مذہبی مصروفیات میں مگن، گھر میں پانچ چھ ملازم، ایک نوجوان ملازمہ بچی کے لیے، ماں نے بچی کو دین کی طرف تو راغب کیا، لیکن اس کی بڑھتی ہوئی عمر کو نظرانداز کر دیا، شاید انھیں پتا ہی نہیں تھا کہ ٹین ایج بڑی خطرناک عمر ہوتی ہے، تربیت اور ماحول بہت اثرانداز ہوتے ہیں۔


جب وہ لڑکی کالج جانے لگی تو ماں نے ایک ملازمہ کا اس کے لیے بندوبست کیا جو ان کی بیٹی سے چار پانچ سال ہی بڑی ہوگی، اس طرح دونوں میں دوستی ہوگئی، والدہ نے بیٹی کے تمام کاموں کی ذمے داری ملازمہ پر ڈال دی، مجھے تو یہ سن کر حیرت ہوئی کہ کالج جانے والی لڑکی اپنا کوئی کام خود نہیں کرتی تھی، ہر کام ملازمہ کے ذمے۔ اس طرح دونوں میں دوستی ہوگئی۔


والدہ اکثر کئی کئی دن کے لیے بھی رشتے داروں کے ہاں چلی جاتی تھیں، گھر میں کھلا ماحول تھا، کسی بات پر کوئی پابندی نہیں تھی، گھر میں پیسے کی ریل پیل اور ملازموں کی کثرت، خاتون اپنی مذہبی اور سوشل مصروفیات میں اس حد تک غرق کہ انھوں نے آنکھ بند کرکے جوان بیٹی کو ملازمہ کے سپرد کردیا اور خود اپنی مختلف النوع مصروفیات میں زیادہ تر گھر سے باہر رہنے لگیں۔


اب سنیے! جب لڑکی اور ملازمہ کا زیادہ تر وقت ساتھ گزرنے لگا تو اس ملازمہ نے پَر پُرزے نکالنا شروع کر دیے ا ور اپنی منگنیوں کے قصے لڑکی کو سنانے لگی۔ پہلی منگنی ہوئی، وہ ٹوٹ گئی، پھر دوسری اور تیسری منگنی ہوئی وہ بھی ٹوٹ گئی۔


ان تینوں منگنیوں کے ساتھ گزارا ہوا وقت وہ ملازمہ مزے لے لے کر لڑکی کو سنانے لگی، پہلے تو وہ لڑکی یہ باتیں سن کر ڈری کہ یہ سب کیسے ہوتا ہے، پھر اسے یاد آیا کہ اس کے کالج میں بھی لڑکیاں اپنے اپنے بوائے فرینڈز کے قصے سناتی تھیں تو وہ حیرت اور خوف سے سنا کرتی تھی۔


وہ اپنی فرینڈز کو موبائل پر بڑی بے باکی سے باتیں کرتے دیکھتی تو حیران ہو جاتی کہ یہ لڑکیاں اتنی بے باک کیسے ہیں، کیونکہ اس کے گھر کا ماحول خاصا مذہبی تھا۔ ایک دن جب لڑکی کی والدہ دو تین دن کے لیے کسی رشتے دار کے ہاں گئی ہوئی تھیں، تو ملازمہ لڑکی کو ساتھ لے کر باہر نکلی۔


لڑکی کا خود یہ کہنا ہے کہ آہستہ آہستہ اسے ملازمہ کی باتوں میں دلچسپی محسوس ہونے لگی اور وہ خود کرید کرید کر سوال پوچھنے لگی، جب لڑکی اور ملازمہ گھر سے نکلیں تو ایک جگہ ایک لڑکا کھڑا تھا، اسے دیکھ کر ملازمہ مسکرائی، اس لڑکے نے ایک چٹ کی گولی بنا کر ان کی طرف پھینکی، لڑکی گھبرا کر آگے بڑھ گئی۔


لیکن ملازمہ نے وہ پرچہ اٹھا لیا، گھر آ کر ملازمہ نے چٹ کھولی تو اس پر ایک موبائل نمبر درج تھا، لڑکی نے ملازمہ سے کہا کہ وہ اس چٹ کو پھینک دے، مگر ملازمہ اس سے کہنے لگی کہ ''ہائے! وہ کتنا خوب صورت ہے، تمہارے انتظار میں اتنی دیر سے کھڑا تھا، تم اسے فون تو کرو'' لڑکی نے منع کردیا، بلکہ اس کا کہنا ہے کہ وہ ڈر گئی، لیکن تین دن تک وہ ملازمہ اس کو مسلسل راضی کرتی رہی، تیسرے دن ملازمہ نے کہا کہ وہ لڑکے سے بات کرے گی۔


یہ کہہ کر اس نے لڑکی کے موبائل سے نمبر ملایا اور اٹھلا اٹھلا کر کہنے لگی ''تم نے جس کے لیے اپنا نمبر پھینکا تھا میں اس کی دوست ہوں، دراصل وہ تم سے باتیں کرنے سے شرما رہی ہے'' لڑکی نے جھپٹ کر فون ملازمہ کے ہاتھ سے لے لیا اور بند کردیا، لیکن ملازمہ نے جب اسے احساس دلایا کہ وہ کہہ رہا تھا کہ وہ تین دن سے تمہاری کال کا انتظار کر رہا تھا، تو بقول لڑکی کے اب اسے خود بھی ملازمہ کی باتوں میں مزہ آنے لگا، اب روزانہ فون پر لڑکے سے باتیں ہونے لگیں۔



پھر ایک دن ملازمہ نے لڑکی کی ملاقات بھی اس لڑکے سے کروا دی، دونوں رات کو گھر سے نکلیں، ملازمہ دروازے کے باہر بیٹھ گئی اور لڑکی گھر کے اندر چلی گئی، پتا نہیں وہ لڑکا اکیلا رہتا تھا یا کچھ اور معاملہ تھا، لیکن یہ لڑکی اپنی رضا ورغبت سے لڑکے سے ملنے جانے لگی۔ ایک دفعہ لڑکی کے والد نے لڑکی کا موبائل چیک کیا تو اس پر کال لاک لگا ہوا تھا، باپ نے دیکھا کہ ایک نمبر مسلسل آ رہا ہے، انھوں نے تفتیش کی تو پتا چلا کہ یہ ایک لڑکے کا نمبر ہے۔


انھوں نے بیٹی کا موبائل لے لیا اور اس کی نگرانی شروع کردی۔ اب لڑکی کو ان ملاقاتوں کی عادت ہوگئی تھی، جب باپ نے موبائل لے لیا تو ملازمہ نے کہا کہ '' وہ نہ گھبرائے وہ ملاقاتیں کرواتی رہے گی ''اور رات سب کے سونے کے بعد دونوں گیٹ کھول کر باہر نکل جاتیں، گیٹ کھلا رہتا اور صبح ہونے سے پہلے دونوں واپس آجاتیں۔


ایک رات گیٹ کے پاس باپ نے ایک سائے کو اندر آتے دیکھا تو دوڑ کر گئے، بیٹی اندر آ رہی تھی، خوب ڈانٹ ڈپٹ ہوئی اور اس دن سے گیٹ پر تالا لگنے لگا۔ مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ جب اتنے امیر کبیر لوگ تھے تو گیٹ پر چوکیدار کیوں نہیں تھا؟ ہو سکتا ہے کہ چوکیدار کی رات کی ڈیوٹی نہ ہو، یا ملازمہ نے اسے بھی اپنی لچھے دار باتوں میں پھنسا لیا ہو۔اب جب گیٹ پر تالا ہو تو ملاقاتیں کیسے ہوں؟


اب جو میں آپ کو بتانے جا رہی ہوں اسے سن کر آپ کے بھی رونگھٹے کھڑے ہوجائیں گے۔ جب پابندیاں سخت ہوگئیں تو ملازمہ نے لڑکی کو تسلی دی اور کہا کہ وہ بالکل بھی نہ گھبرائے، وہ کوئی نہ کوئی راستہ نکال لے گی۔ لڑکی کو ان ملاقاتوں میں بے پناہ کشش محسوس ہونے لگی تھی۔ وہ ملازمہ کی محتاج ہوگئی تھی۔ ملازمہ نے وہ کیا جو اس لڑکی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ لڑکی کے کمرے میں تین کھڑکیاں تھیں، ان میں سے ایک کھڑکی باہر کھلتی تھی، کھڑکی ہمیشہ بند رہتی تھی۔


ملازمہ اوزار کا تھیلا لائی اور کمرہ بند کرکے کھڑکی کی گرل کے پیچ کھول کر گرل باہر نکال دی اور لڑکی کو کہا کہ وہ رات کو اس کھڑکی سے باہر نکل جائے۔ واپس آ کر دوبارہ پیچ لگا کر کھڑکی بند کر دے۔ ملازمہ ایک ملازم سے اس کا فون مانگ لائی، لڑکی نے ملازم کے فون سے لڑکے کو فون کیا اور پروگرام بتا دیا، رات ہوئی لڑکی نے اپنے بستر پہ ملازمہ کو سلادیا، دروازہ اندر سے بند تھا، گیٹ پر تالے لگے تھے۔


ماں باپ اور بھائی چین کی نیند سو رہے تھے ا ور ان کی بیٹی عزت کا جنازہ نکال کر کھڑکی سے کود کر لڑکے کے پاس جا پہنچی۔ کچھ وقت گزار کے واپس آئی اور کھڑکی سے اندر آ کر دوبارہ گرل کو صرف دو پیچوں کے ذریعے لگا کر کھڑکی بند کردی۔


سلسلہ اسی طرح چلتا رہا، جب پتا چلا کہ اب بدنامی، رسوائی اور ذلت سامنے کھڑی ہے تو لڑکی نے لڑکے سے کہا کہ '' کہیں بھاگ چلتے ہیں'' کیونکہ جو کچھ سامنے آنے والا ہے اس سے لڑکی بہت خوف زدہ ہوگئی، لڑکے نے بھاگنے سے منع کیا اور کہا کہ '' اس کے پاس تو پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے، نہ کوئی اچھی ملازمت ہے وہ تو صرف ٹائم پاس کر رہا تھا'' لیکن جب لڑکی نے اسے مجبور کیا تو اس نے کہا کہ '' ٹھیک ہے وہ اسے یہاں سے لے جائے گا'' لیکن انتظام سارا لڑکی کو کرنا ہوگا، کیونکہ اس کے پاس تو کچھ بھی نہ تھا، چنانچہ لڑکی نے ماں کا زیور چرایا، نقدی چرائی اور ایک رات لڑکے کے ساتھ بھاگ نکلی۔


لیکن گھر سے نکل کر جو اس کی خواری ہوئی وہ ناقابل بیان ہے۔ وہ جگہ جگہ ماری ماری پھرتی رہی۔ بچے کی پیدائش کا وقت قریب آیا تو لڑکا اسے چھوڑ کر چلا گیا، بچے کو اس نے دارالامان میں دے دیا اور خود اپنی خالہ سے رابطہ کیا، خالہ نے ماں کو بتایا، ماں نے اسے گلے سے لگایا اور گھر واپس بلا لیا۔


ماں باپ دونوں نے معاف کردیا، لیکن اب باپ اور بھائی اس کی شکل نہیں دیکھنا چاہتے، ماں نے اسے ساری آسائشات مہیا کردی ہیں، اس کا رابطہ صرف ماں سے ہے، دن رات روتی رہتی ہے، اللہ سے رو رو کر معافی مانگتی ہے، لیکن جو کچھ ہو چکا ہے وہ اتنا ہولناک تھا کہ بھلائے نہیں بھولتا۔


عام طور پر الٹرا ماڈرن عورتیں بچوں کو نوکروں کے سپرد کرکے اپنی سرگرمیوں اور پارٹیوں میں مصروف رہتی ہیں۔ لیکن یہاں ایک دین دار اور مذہبی گھرانے کی خاتون نے اپنی سرگرمیوں اور سوشل ورک کی وجہ سے بچوں کو، شوہر کو اور پورے گھر کو نوکروں کے سپرد کرنے کا تماشا دیکھ لیا۔ ایسے حادثات ایک دن میں رونما نہیں ہوتے بلکہ:


وقت کرتا ہے پرورش برسوں


حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

Load Next Story