دل ودماغ پر یاس اور افسردگی کے بادل چھائے ہُوئے ہیں۔ ملک میں انارکی، دہشت اور خون کے دھبوں کی باس پھیلی ہو تو دل افسردہ اور پژمردہ ہی ہوں گے۔
سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی کے چیئرمین، جناب عمران خان، القادر ٹرسٹ کرپشن کیس میںالجھے ہوئے ہیں۔ توشہ خانہ کیس میں بھی عمران خان پر فردِ جرم لگ گئی ہے ۔ خان صاحب نے تو اِن حالات کا کبھی خواب بھی نہیں دیکھا ہوگا۔
عمران خان کی اچانک گرفتاری پراُن کے عشاق اور پی ٹی آئی کے وابستگان نے پورے ملک میں اپنے شدید (اور قابلِ گرفت) ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔ مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے مشتعل کارکنان نے لاہور میں واقع قائد اعظم ؒ کی محترم و تاریخی ریذیڈنس (اور اب کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ) پر بھی حملہ کر کے اِسے جلا کر راکھ کر دیا۔ تاریخی نوادرات لُوٹ لیے گئے۔ لاہور کا تاریخی جناح ہاؤس اب کھنڈر بن چکا ہے۔
اِس ضمن میں حملہ آوروں کی آڈیوز بھی سامنے آئی ہیں۔ یہ افسوسناک اور دلشکن منظر دیکھ کر ایک عشرہ قبل ( جون 2013 کا) ہمیں وہ دلفگار منظر بھی یاد آ گیا جب زیارت(بلوچستان) میں واقع بانیِ پاکستان کی آخری اور یادگار رہائش گاہ (زیارت ریذیڈنس) پر دہشت گردوں نے رات کے اندھیرے میں حملہ کرکے اسے تباہ کر ڈالا تھا۔ مبینہ طور پر پی ٹی آئی کارکنان نے راولپنڈی جی ایچ کیو پر بھی حملہ کیا ہے(اگرچہ اِس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہُوا ہے) اور یوں پی ٹی آئی نے ہمیں 23سال قبل کے اُس خونی سانحہ کی یاد بھی دلا دی ہے جب اکتوبر2009 میں دہشت گردوں نے جی ایچ کیو پر حملہ کیا تھا۔
اُس حملے میں طرفین کے کئی افراد موت کا لقمہ بن گئے تھے ۔ حالات اس قدر دگرگوں ہیں کہ پی ٹی آئی کے تین مرکزی اور سینئر رہنما( اسد عمر،عمر چیمہ اور فواد چوہدری) حراست میں لیے جا چکے ہیں۔ فواد چوہدری کو جب10مئی کی رات پونے بارہ بجے سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر سے گرفتار کیا گیا تو وہ خاصے پریشان حال نظر آ رہے تھے ۔ گرفتاری سے بچنے کے لیے فواد چوہدری نے سپریم کورٹ کی عمارت میں مسلسل 11گھنٹے گزارے ۔گرفتاری سے مگر وہ بچ نہ سکے۔
پشاور میں بھی مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے وابستگان نے ریڈیو پاکستان کی عمارت کو نذرِ آتش کر دیا ۔ ڈی جی پشاور ریڈیو پاکستان نے اِس امر کی تصدیق کر دی ہے۔ پشاور ہی میں ایدھی ایمبولنس ، ایٹمی دھماکوں کی یادگار اور شہدا کی یادگار کو شر پسندوں نے اُڑا دیا ہے۔پشاور، کوہاٹ اور گوجرانوالہ میں نصف درجن سے زائد افراد کی ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں۔ اسلام آباد میں بھی کئی تھانوں، سرکاری عمارتوں اور میٹرو بس اسٹیشنوں کو آگ لگانے کی خبریں ہیں۔
کراچی و دیگر کئی شہروں کے حالات بھی سنگین ہیں۔ پی ٹی آئی قیادت اِن واقعات و سانحات سے لاتعلقی ظاہر کررہی ہے۔ پنجاب اور کے پی کے میں سول انتظامیہ کا ہاتھ بٹانے کے لیے فوج کو طلب کر لیا گیا ہے ۔اِن سطور کی اشاعت تک ، حکومت کی طرف سے درخواست کیے جانے پر، فوج شائد اسلام آباد میں بھی کچھ سول اختیارات سنبھال چکی ہو۔
پورا ملک بد امنی کی آتش میں جل رہا ہے۔ جلاؤ گھیراؤ کی حدت اور شدت نے ہر شائستہ و محبِ وطن پاکستانی کی آنکھ اشکبار کررکھی ہے۔ آئی جی پنجاب اعتراف کررہے ہیں کہ لاہور سے1250شر پسند گرفتار کیے گئے ہیں۔ حالات کی سنگینی کے پیشِ نظر آئی ایس پی آر نے بھی اپنے ایک تفصیلی بیان میں ملک بھر میں سامنے آنے والے نقصانات پر اظہارِ افسوس کرتے ہُوئے شرپسندوں کی سخت الفاظ میں مذمت بھی کی ہے اور شر پسندوں کو انتباہ بھی کیا ہے۔
جس وقت پورا وطن حملوں کی زد میں تھا، ملک میں ہمارے وزیر اعظم صاحب موجود تھے نہ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ۔ نیب کے چیئرمین بھی مبینہ طور پر عمران خان کی گرفتاری کے وارنٹ پر دستخط کرنے کے بعد عمرہ کرنے سعودیہ روانہ ہو گئے تھے۔
یوں لگ رہا تھا جیسے عمران خان کی گرفتاری سے پیدا ہونے والے حالات کا سامنا کرنے سے اعراض برتا جا رہا ہے۔ 10مئی کی رات وزیر اعظم جناب شہباز شریف نے قوم سے خطاب تو کیا ، مگر یہ خطاب سامعین و ناظرین کو بے معنی اور لایعنی سا لگا۔
عمران خان گرفتار ہُوئے ہیں تو بھارتی میڈیا اِسے بھی اپنے مفادات کے حق میں اور شر انگیزی کے لیے استعمال کرنے کی ناکام کوشش کررہا ہے ۔
بھارت میں سیاسی انتشار پھیلتا اور انارکی آتش فشاں کی طرح پھٹتی ہے تو پاکستان اور پاکستانی میڈیا اِسے اپنے مفادات کے حق میں اور بھارت میں مزید فسادات کے پھیلاؤ کے لیے استعمال کی دانستہ کم کم کوشش کرتا ہے ۔ مثال کے طور پر پچھلے ماہ (اپریل 2023)کے دوران بھارتی پنجاب میںخالصتان تحریک کے لیڈر ، امرت پال سنگھ، کی گرفتاری کے کارن مشرقی پنجاب ایک جہنم بنا رہا۔ پاکستان اور پاکستانی میڈیا نے مگر اِس جلتی آگ پر پٹرول چھڑکنے کی کوئی کوشش نہ کی۔
ایک اور مثال: بھارتی شمال مشرقی ریاست، منی پور، پچھلے دو ہفتوں سے قبائلی خونی فسادات کے باعث قیامت کا منظر پیش کررہی ہے۔ سیکڑوں قبائلی اب تک قتل کیے جا چکے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں کمزور اور پسماندہ منی پوری شہری اپنے علاقوں اور گھروں سے ہجرت کرکے بھارتی انڈین آرمی کے بنائے گئے عارضی کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ پاکستانی میڈیا نے مگر منی پورریاست کی داخلی دہکتی آگ کو مزید بھڑکانے کی کوئی کوشش نہیں کی ہے۔
بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا میں منی پور ریاست میں بہتی خون کی ندیوں کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔ مگر جب سے عمران خان ایک سنگین الزام کے تحت گرفتار ہُوئے ہیں، بھارتی الیکٹرانک میڈیا پچھلے چار روز سے پاکستان کے اِس واقعہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہا ہے۔ بھارتی رپورٹنگ دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے خان صاحب کی گرفتاری کے بعد سارا پاکستان احتجاج میں اب تک(خدا نخواستہ) جل کر خاکستر ہو چکا ہے۔
بھارتی پرنٹ میڈیا بھی پاکستان کے خلاف تازہ فساد انگیزی سے کسی طرح پیچھے نہیں رہا۔ انڈیا ٹوڈے ، ہندوستان ٹائمز، انڈین ایکسپریس ، دی ہندو ایسے ممتاز اور معروف بھارتی انگریزی اخبارات و جرائد نے مفسدانہ رپورٹنگ میں مبالغہ آرائی کی ہر اخلاقی حد عبور کر لی ہے۔
مجھے ذاتی حیثیت میں مذکورہ تمام اخبارات کی رپورٹنگ، تجزیے اور کالمز پڑھنے کے مواقع ملے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ، عمران خان کی گرفتاری کی خبر کے پردے میں،پاکستان کے خلاف بھارتی میڈیا کا بغض اور کرودھ اِس حد تک بھی جا سکتا ہے!