برطانیہ کے موجودہ بادشاہ چارلس سوم کی والدہ ملکہ الزبتھ 70سال سریر آرائے سلطنت رہیں۔ 2022کے آخری مہینوں میں ملکہ کا انتقال ہوا اور ولی عہد چارلس سات دہائیوں تک انتظار کرنے کے بعد 75سال کی عمر میں سر پر تاج پہننے میں کامیاب ہو گئے۔
6مئی2023کو ویسٹ منسٹر ایبے میں ان کی تاج پوشی کی رسم بہت دھوم دھام و شان و شوکت سے ادا کی گئی۔ بادشاہ تو وہ اپنی والدہ کے انتقال کے ساتھ ہی قرار پائے تھے لیکن تاج پہننے کے لیے انھیں چند مہینے انتظار کرنا پڑا۔چارلس کی تاجپوشی کی رسم چونکہ گرجاگھر کے اندر ادا ہونی تھی اور وہاں تمام افراد سما نہیں سکتے تھے۔
اس لیے صرف مخصوص افراد اور غیر ملکی مہمان ہی شریک ہو سکے۔ شاہی خاندان کے تمام افراد رسم میں موجود تھے۔چارلس نے اپنے چھوٹے بیٹے ہیری کو خصوصی طور پر شرکت کی دعوت دی جو امریکا سے آ کر شریک ہوئے لیکن شاہی اعزازعات سے سبکدوشی کی وجہ سے ان کو تیسری صف میں جگہ ملی۔ہیری کی بیگم میگھن نے تقریب میں شرکت سے گریز کیا۔
سینٹرل لندن کی وہ سڑکیں جہاں سے بادشاہ کی سواری نے گزرنا تھا،وہ لوگوں سے بھری پڑی تھیں۔ یہ رسمِ تاجپوشی دراصل ایک مذہبی رسم ہے، اس لیے اس کو چرچ کے اندر لارڈ بشپ آف کنٹر بری کی سربراہی میں انجام دیا جاتا ہے۔برطانیہ کا بادشاہ چرچ آف انگلینڈ کا سربراہ اور برطانیہ میں Defender of Faithہے۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم جناب شہباز شریف بھی تاجپوشی کی رسم کے معزز مہمان کے طور پر مدعو تھے۔ وزیرِ اعظم اس رسم میں شرکت کے لیے برطانیہ گئے۔جہاں ان کی بادشاہ چارلس،وزیر اعظم برطانیہ رشی سوناک،لندن کے لارڈ میئر جناب محمد صادق کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے رہنماؤں سے ملاقات ہوئی۔
اس قسم کی تقاریب کا یہ ایک مثبت پہلو ہوتا ہے کہ رہنماؤں کو آپس میں ملنے ملانے اور بات چیت کا موقع ملتا ہے۔ان غیر رسمی ملاقاتوں سے بعض اوقات وہ کچھ حاصل ہو جاتا ہے جو لمبی چوڑی سفارتی کوششوں سے حاصل نہیں ہوتا۔ پاکستان کے وزیرِاعظم اسکاٹ لینڈ انتظامیہ کے سربراہ جناب حمزہ یوسف سے بھی ملے۔حمزہ یوسف بہت خوش قسمت ہیں کہ وہ کسی بھی یورپی ریاست کے پہلے پاکستانی نژاد سربراہ بن گئے ہیں۔
امید ہے کہ شہباز شریف کا یہ دورہ پاکستان کے لیے مفید ثابت ہو گا۔برطانیہ اور امریکا بین الاقوامی امور میں بہت قریبی ساتھی ہیں۔ حیرت ہوئی کہ امریکی صدر بائیڈن تاجپوشی کی اس تقریب میں شریک نہیں ہوئے۔یوں دنیا کی تینوں بڑی قوتیں یعنی امریکا، چین اور روس کے سربراہان اس تقریب میں موجود نہیں تھے۔
سینٹرل لندن کی سڑکوں پر جہاں ایک طرف تاجپوشی کا جشن منانے والوں کا اژدہام تھا وہیں ٹریفالگر اسکوائر میں بادشاہت کے خلاف احتجاج کرنے والے بھی کثیر تعداد میں جمع ہوئے۔بی بی سی نے اسکاٹ لینڈ یارڈ پولیس کے حوالے سے بتایا کہ تاجپوشی کی رسم کی ادائیگی کے دوران 52 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ پولیس کو مظاہرین کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نبٹنے پر کافی تنقید کا سامنا ہے۔
احتجاج کرنے والوں کی کثیر تعداد اس بات کا اشارہ ہے کہ بادشاہت مخالف تحریک زور پکڑ رہی ہے۔2020میںصرف 35 فیصد برطانوی شہری بادشاہت مخالف تھے جب کہ صرف ڈھائی سال میں یہ تعداد بڑھ کر 45فیصد ہو چکی ہے اور کیوں نہ ہو ایک ایسے وقت میں جب برطانوی عوام کا نچلا اور درمیانی آمدنی والا طبقہ بے روز گاری اور بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے مشکلات کی چکی میں پس رہا ہے ایسے میں دو روزہ رسمِ تاجپوشی پر برطانوی عوام کے250 ملین پونڈ اس فرسودہ رسم کی نذر کر دئے گئے۔
بادشاہت کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی نظر میں اس بادشاہت کا کوئی جواز نہیں اور اس قسم کی فرسودہ رسموں پر خرچ کرنے کے بجائے عوام کی فلاح و بہبود پر یہی رقم خرچ کی جاتی تو بہت بہتر ہوتا۔مظاہرین نے بتایا کہ عام برطانوی شہری بجلی،گیس اور پانی کے ہر روز بڑھتے بل کی ادائیگی کرنے سے قاصر ہے۔
قیمتوں میں اضافے سے عام آدمی کی کمر دہری ہو رہی ہے۔ مظاہرین نے یہ بھی کہا کہ لوگ بے گھر ہو رہے ہیں اور عوام کے پیسوں سے اتنی بڑی فضول تقریب بہت بڑی زیادتی ہے۔ٹریفالگر اسکوائر کے علاوہ دوسرے مقامات اور شہروں میں بھی احتجاج کیا گیا۔
برطانوی بادشاہ انگلینڈ کے علاوہ 13دوسرے ممالک کا بھی آئینی سربراہ ہے۔ان میںکینیڈا اور آسٹریلیا جیسے بڑے اور امیر ممالک بھی شامل ہیں، چند ایک ممالک برطانیوی بادشاہت کی چھتری سے نکلنا چاہتے ہیں لیکن یہ عمل لمبا اور مشکل ہے مثال کے طور پر کینیڈا کی پارلیمنٹ کو متفقہ طور پر مطالبہ کرنا ہو گا اوراس کے تمام صوبوں کو بیک وقت قرارداد منظور کرنی ہو گی۔ پھر بھی کئی ممالک اس عمل سے گزرنے کے لیے تیار ہیں۔
جمیکا اگلے سال ریفرنڈم کے لیے جا رہا ہے۔ملکہ الزبتھ کے دور میں پاکستان اور سری لنکا جیسے 17ممالک برطانوی بادشاہت سے اپنی گردن چھڑا چکے ہیں۔اب دیکھیں چارلس سوئم کی بادشاہت کے دور میں کتنے ممالک اس میں کامیاب ہوتے ہیں۔دولتِ مشترکہ کے12ممالک کے رہنماؤں نے کنگ چارلس کو ایک خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ برطانوی نوآبادی دور میں ڈھائے جانے والے مظالم پر بادشاہ ان ممالک اور ان کے عوام سے معافی مانگی اور نقصانات کا تاجِ برطانیہ کی دولت سے ازالہ کیا جائے، ان ممالک سے لوٹے گئے فن پاروں اور قیمتی زیورات کو واپس کیا جائے۔
دراصل دکھاوے اور فضول خرچی کی وجہ سے بادشاہت کو چیلنجز درپیش ہیں۔ لگتا ہے وہ دن دور نہیں جب بادشاہ کی جگہ عوام کے ووٹوں سے براہِ راست منتخب ہونے والی کوئی شخصیت برطانوی ریاست کی سربراہ ہو گی۔