ایک مقولہ ہے '' کاری گر جو جوتا بناتا ہے اس کا نقص صرف پہننے والا ہی بتا سکتا ہے'' ہم دیکھتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے جن پالیسیوں کا نفاذ کیا جاتا ہے اس کا براہ راست اثر عام آدمی پر پڑتا ہے۔
اس لیے دنیا کا بہترین سیاسی نظام وہی تصور کیا جاتا ہے جس میں فیصلہ سازی میں عوام کی شمولیت لازمی اور یقینی ہو۔ اس حوالے سے جمہوریت کو دنیا کا بہترین نظام تصورکیا جاتا ہے۔کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے جمہوری تسلسل اور استحکام بہت ضروری ہے۔
تاریخ کا ریکارڈ ہے کہ جمہوریت شاذ و نادر ہی بغیر عوامی جدوجہد کے قائم ہوئی ہو۔ مغربی جمہوریت کو طویل عرصے تک بادشاہت ، فوجی آمریت اور فاشزم کے ہاتھوں مزاحمت کا سامنا رہا ہے۔ آمریت کے خاتمے کے بعد سے آج تک ایک مستحکم جمہوری نظام اپنے تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔
دراصل جمہوریت کے استحکام کے کچھ تقاضے ہیں جن کو پورا کیے بغیر جمہوریت کو استحکام حاصل نہیں ہو سکتا۔ آئیے ! اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ جمہوری استحکام کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ عوام پر اعتماد کیا جائے عام طور پر یہ بات کی جاتی ہے کہ عوام کی اکثریت جاہل، شعور سے محروم اور تنگ نظر ہے۔
اس لیے عوام صحیح فیصلہ کرنے کی اہل ہی نہیں ہے یہ بات جزوی طور پر درست ہے کلی طور پر درست نہیں، یہ بات سمجھنی چاہیے کہ تمام بالغ اپنی ذاتی زندگیوں میں جب ذمے داریوں کا بوجھ سنبھال سکتے ہیں، تو وہ اپنے معاشرتی زندگی پر اثر انداز ہونے والے فیصلوں میں حصہ لینے کے بعد یقینا اہل ہو سکتے ہیں۔جمہوری نظام کے استحکام میں سیاسی جماعتوں کا وجود ناگزیر ہے۔ ان کے بغیر جمہوری سیاسی نظام استحکام حاصل نہیں کرسکتا ہے۔
ایک انسانی معاشرے میں لوگ انفرادی طور پر عوامی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکتے مگر دوسروں کے ساتھ مل کر ایسا کرنا ممکن ہے۔ سیاسی جماعتیں ملک میں پائے جانے والے مختلف رویوں، افکار اور امنگوں کی نمایندگی کرتی ہیں اور ترجمان ہوتی ہیں۔ وہ رائے عامہ کے ذریعے انھیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرکے یہ عمل ممکن بناتی ہیں۔
اس لیے جمہوری نظام کے استحکام کے لیے مضبوط سیاسی جماعتوں کا وجود ضروری ہے۔ جمہوری نظام کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ ہر سیاسی جماعت کو کام کرنے کی آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ کسی سیاسی جماعت کو سیاسی عمل سے باہر رکھنے کا عمل درست نہیں ہے۔ بشرط یہ کہ یہ واضح ہو جائے کہ کوئی تنظیم غیر آئینی، غیر قانونی اور پرتشدد سرگرمیوں میں ملوث ہو۔جمہوری نظام میں تحریر و تقریر، بحث مباحثہ، مکالمہ اور آزادی فکر کی مکمل آزادی حاصل ہونی چاہیے۔
اس سے عمل کی راہیں متعین ہوتی ہیں اور یہ پالیسی کے نفاذ میں رضا مندی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس ضمن میں ملکی ذرائع ابلاغ بنیادی کردار ادا کرتے ہیں جو جمہوریت کے استحکام کا ذریعہ بنتے ہیں۔جمہوریت اور انسانی حقوق کا باہمی طور پر گہرا تعلق ہے یہ آپس میں ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ انسانی حقوق کی پاسداری جمہوری اصولوں کی پابندی کے ذریعے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔
اس لیے بین الاقوامی قانون کے ذریعے ہر ملک کو اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ ہر شہری کے لیے اس حق اور موقع کی ضمانت دیں کہ اپنے منتخب نمایندوں کے ذریعے عوامی معاملات کو چلانے میں حصہ لے سکے اور اس کے ذریعے اپنے حقوق کا تحفظ کرسکے۔
جمہوریت کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ عہدیدار خواہ منتخب شدہ ہو یا غیر منتخب شدہ اپنے اعمال کے قانون کے مطابق ہونے کے لیے عدالتوں کو جواب دہ ہیں، قانون کے راج کا بنیادی نقطہ یہی ہے کہ جو قانون اور پالیسی بناتے ہیں اور نافذ کرتے ہیں انھیں خود بھی قانون اور اس کے اندر اختیارات کی بنیاد پر کام کرنا چاہیے جس کی قانونی طور پر تشریح اور حد بندی کی گئی ہے۔
قانون کے راج کو جمہوریت کی اساس سمجھاتا ہے، قانون کا راج اسی حد تک پراثر ہوگا جہاں تک اس کو قائم رکھنے کے لیے عدلیہ آزاد ہوگی۔
جمہوری نظام کے استحکام کے لیے منتخب مقامی حکومتوں کا قیام بھی ضروری ہے۔ اس سے عوامی فیصلوں میں عوام کی شرکت کے موقع بڑھ جاتے ہیں جو جمہوری نظام کے استحکام کا باعث بنتے ہیں۔
جمہوریت کے استحکام کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ اعلیٰ اور اونچے درجے کے سول ملازمین کا تقرر سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر باصلاحیت، دیانت دار کی بنیاد پر کیا جائے۔ یہ عمل بھی سیاسی استحکام کے لیے ضروری ہے۔سیاسی جماعتوں کی موجودگی میں ہمارے یہاں سیاسی پریشر گروپ بھی موجود ہیں ان کا ووٹ بینک اور اثر و رسوخ اس قابل نہیں ہوتا کہ وہ ملکی نظام اور حالات پر کوئی اثر ڈال سکیں اس لیے یہ انتخابات میں عمومی طور پر بڑی پارٹی کی چھتری تلے آ کر اپنے مطالبات منوانے اور اس پر عمل درآمد کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
جمہوریت کے استحکام کے لیے متناسب نمایندگی کے طریقہ انتخاب کی حمایت کی جاتی ہے اس کے حامی عناصر یہ دلیل دیتے ہیں کہ موجودہ طریقہ انتخاب میں جو جماعت کامیابی حاصل کرتی ہے، وہ ووٹ کے تناسب کے لحاظ سے اقلیتی ہوتی ہے اکثریتی ووٹ حکومت اقتدار سے باہر ہوتا ہے اس طرح سیاسی استحکام کس طرح حاصل ہو سکتا ہے۔
جمہوریت کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ معاشی عدم مساوات کا خاتمے کو یقینی بنایا جائے۔مذہب جمہوریت کے استحکام کا ذریعہ بن سکتا ہے یا نہیں اس کا جواب ہاں یا نہیں میں آسانی سے نہیں دیا جاسکتا، اس حوالے سے ہمارے یہاں مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ ایک بڑی تعداد جہاں سیاست میں مذہب کی مداخلت کے خلاف ہے وہاں ایک بڑی تعداد سیاست میں مذہب کی شمولیت کی پرزور حامی بھی نظر آتی ہے۔
میری ذاتی رائے میں لوگوں کی اکثریت اپنے سماج کی تشکیل میں مذہب کو ایک بنیادی فیکٹر یعنی عامل کے طور پر قبول کر لیتی ہے تو جمہوریت کا تقاضا ہے کہ ان کے اس حق کو قبول کیا جائے۔ اسی بنیاد پر ہمارے یہاں دینی سیاسی جماعتوں کا وجود ہے۔ ان کو دلی جذبے کے ساتھ قبول کیا جانا چاہیے یہ عمل سیاسی استحکام کا ایک ذریعہ بن سکتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ جمہوریت کا استحکام کیوں ضروری ہے؟ جمہوری نظام کی بنیاد اکثریت کی حکمرانی کے اصولوں پر رکھی گئی ہے اس کے ساتھ ساتھ اقلیتیں جو معاشرے کا ایک مستقل وجود رکھتی ہیں ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ بھی کیا جاتا ہے۔
جمہوری نظام میں قانون سازی کے وقت نہ صرف عوام کی بھلائی کا خیال رکھا جاتا ہے بلکہ سماجی، ثقافتی، روایات عوامی مزاج اور بین الاقوامی تقاضوں کے قابل قبول رویے کا خیال رکھتے ہوئے قانون سازی کی جاتی ہے۔ اس میں عوامی فلاح کو اولین حیثیت حاصل ہوتی ہے۔
انتخاب کے بعد کس حد تک کامیابی حاصل ہوتی ہے اس کا انحصار ملکی حالات کے ساتھ خارجی عوامل پر بھی ہوتا ہے اگر سیاسی عمل تسلسل سے جاری رہے اور اس میں مداخلت نہ کی جائے تو سیاسی استحکام حاصل ہو سکتا ہے۔