لیاری کے اندھیروں میں روشنی کی کرن

لیاری کے لوگ بڑے سخت جان ہیں جو عرصہ دراز سے اتنے مسائل کے باوجود ابھی تک زندہ ہیں

shabbirarman@yahoo.com

یوں تو ملک بھر کے دیگر حصوں کی طرح کراچی میں بھی عوامی مسائل کا انبار ہے۔ قدیمی علاقہ لیاری بھی شہر کراچی کا ایک حصہ ہے لیکن لیاری سیاسی ، سماجی، معاشی اور معاشرتی لحاظ سے ایک علیحدہ مقام رکھتا ہے جو لوگ لیاری سے واقف نہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ شاید لیاری ایک محلے کا نام ہے ، نہیں ایسا نہیں ہے۔


لیاری کی آبادی 20 لاکھ نفوس سے تجاوز کر چکی ہے مگر سرکاری مردم شماری میں اس کی آبادی کو دس لاکھ سے بھی کم دکھایا جاتا رہا ہے جس وجہ سے بھی لیاری کے مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھتے جا رہے ہیں۔ لیاری میں ایک ایم این اے ہے جس کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے ، تین ایم پی ایز ہیں جن میں سے ایک کا تعلق جماعت اسلامی سے ، ایک تحریک لبیک سے اور ایک خصوصی خاتون ایم پی اے کا تعلق پی پی پی سے ہے۔


لیاری میں چار تھانے کلاکوٹ ، چاکیواڑہ ، بغدادی اور کلری ہیں ۔ ایک عرصے سے کراچی ظالمانہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا شکار ہے ۔ لیاری میں روزانہ 18گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے، اس لحاظ سے مہینہ بھر کے 18دنوں میں بجلی نہیں ہوتی باقی بچتے ہیں 12دن۔ ان 12دنوں کا بجلی بل دس ہزار روپے سے چالیس ہزار روپے کے بل آنا معمول ہے۔ لیاری میں سیاسی و سماجی سطح پر احتجاج ہوتے رہتے ہیں۔


اسی تناظر میں گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے لیاری میں لوڈ شیڈنگ کے مسئلے پر کے الیکٹرک کے CEO سمیت اعلیٰ افسران اور پاکستان پیپلز پارٹی کے عہدیداران اور لیاری کی سماجی شخصیات کو وزیر اعلیٰ ہاؤس کراچی میں طلب کیا۔ اس موقع پر صوبائی وزیر بجلی و توانائی امتیاز شیخ ، مشیر قانون بیرسٹر مرتضیٰ وہاب بھی موجود تھے۔


وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے لیاری میں بجلی کی 14 اور 16 گھنٹے لوڈ شیڈنگ کو جلد کم از کم کرتے ہوئے زیرو لوڈ شیڈنگ کرنے کے لیے Ke کو بجلی کی فراہمی اور صارفین کو بلوں کی ادائیگی کو یقینی بنانے کی ہدایت کی اور کے الیکٹرک کو اوور بلنگ و دیگر بلنگ ایشو حل کرنے کے لیے ہر یونین کونسل میں کے الیکٹرک اور صوبائی حکومت کے ایک ایک نمایندے پر مشتمل کمیٹی بنانے کے احکامات جاری کیے جو یو سی آفس میں بیٹھیں گے۔


وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں لیاری کی سیاسی اور سماجی شخصیات نے انتہائی جارحانہ انداز میں کے الیکٹرک کے ظالمانہ لوڈ شیڈنگ کی مذمت کی، جس پر کے الیکٹرک کی انتظامیہ نے ناراضگی کا اظہار کیا حالات کو بھانپتے ہو ئے وزیر اعلیٰ سندھ نے معاملے کو قابو کیا۔ اجلاس کے دوران تجاویز پیش کی گئی کہ 12 سالہ بدامنی کے دوران لیاری کے اکثر مکینوں نے دیگر علاقوں میں نقل مکانی کی اس کے باجود کے الیکٹرک بند گھروں میں بجلی کے بل بھیجتے رہتی ہے۔


اس عرصے کا کے الیکٹرک کا بل سندھ حکومت ادا کرے یا یہ بل معاف کیے جائیں۔ دوسری تجویز یہ دی کہ سنگا پور کی 65 لاکھ کی آبادی میں 13 الیکٹرک کمپنیاں بجلی فراہم کر رہی ہیں، لہذا کے الیکٹرک کو قومی تحویل میں لے کر موبائل کمپنیوں کی طرح مختلف کمپنیوں کے حوالے کیا جائے جس پر وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ سندھ حکومت کے پاس اتنی رقم نہیں کہ وہ کے الیکٹرک کو ادا کرسکے۔



البتہ کراچی میں بجلی کی فراہمی کے لیے سنگاپور کے فارمولے پر غور کرینگے۔ اجلاس میں بار بار کے الیکٹرک کے نمایندوں اور لیاری کے نمایندوں میں تلخ جملوں کا تبادلہ ہوتا رہا ، جسے وزیر اعلیٰ کنٹرول کرتے رہے۔ آخر میں طے ہوا کہ لیاری کے تمام 13 یونین کونسلوں کے دفاتر میں کے الیکٹرک کے شکایتی مراکز قائم کیے جائیں گے جس کی نگرانی وزیر توانائی سندھ امتیاز شیخ کریں گے فوری طور پر لیاری میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں بتدریج کمی کی جائے گی اور گزشتہ بل روک کر کرنٹ بل صارفین کو بھیجے جائیں گے۔


بل کی ادائیگی بروقت ہونے پر اگلے تین مہینے میں لوڈ شیڈنگ زیرو کریں گے، جس کا جائزہ لینے کے لیے 15 دن بعد امتیاز شیخ کے ساتھ اجلاس میں غور کیا جائے گا۔ اجلاس کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ لیاری کی سیاسی اور سماجی شخصیات میں گھل مل گئے اور لیاری کی حالات معلوم کرتے رہے۔


بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پانی کی فراہمی میں بھی خلل پیدا ہو رہا ہے ، پانی کی فراہمی کا وقت ہوتا ہے تو بجلی نہیں ہوتی، بجلی ہوتی ہے تو پانی کی فراہمی کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔ پورا رمضان کا مہینہ اسی طرح گزرا اور لوگ وضو کرنے سے قاصر رہے تھے عید کی چاند رات کو بھی لوڈ شیڈنگ رہی صرف عید کا پہلا دن بجلی کے ساتھ گزرا جب کہ عید کے دوسرے دن سے پھر طویل دورانیہ کی بجلی لوڈ شیڈنگ شروع کی گئی، جو ہنوز جاری ہے ، اسی طرح لیاری بھر میں گیس کی بھی لوڈ شیڈنگ عرصے سے جار ی و ساری ہے ۔


بے روزگاری لیاری کا مقدر بنا ہوا ہے تعلیم یافتہ نوجوان ہوں یا کہ ہنر مند نوجوان روزگار کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں، نوجوانوں کا ایک طبقہ تاریک راہوں میں منشیات فروشی، سٹہ بازی اور جوا میں روزگار تلاش کر رہے ہیں۔


دن بہ دن نشئی افراد کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جس وجہ سے خاندان کے خاندان تباہ و برباد ہو رہے ہیں ، لیاری کی واحد شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی تباہی کے دہانے پر ہے جہاں غنڈہ گردی عام سی بات ہے اور وی سی کی سر پرستی میں تفریح کے نام پر طلبا و طالبات کو فحش انڈین گانے دکھائے جاتے ہیں، لیاری جنرل اسپتال کے وسائل کو بے دردی سے لوٹا جا رہا ہے اور غریب بیمار مریض رل گئے ہیں، لیاری میڈیکل کالج کی شکایتیں بھی زد عام ہیں۔


لیاری ڈگری کالج وسائل کی کمی کا شکار ہے ، نادرا دفتر میں بھی لوگوں کو تنگ کیا جا رہا ہے جہاں شناختی کارڈ بنوانا مشکل بنتا جارہا ہے، چاکیواڑہ میں واقع پاکستان جنرل پوسٹ آفس کی حالت قابل رحم ہے۔


شہید ذوالفقار علی بھٹو لاء کالج کی عمارت کو بنے ہوئے کئی سال ہوگئے ہیں مگر اس کا افتتاح نہیں کیا جاسکا ہے ، سرکاری اسکولوں کی حالت بھی مدتوں سے جوں کے توں ہیں جہاں اساتذہ اور سہولیات کی کمی کی وجہ سے لیاری کے بے شمار غریب بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ کھیل کے میدان ترقیاتی کاموں کے منتظر ہیں، لیاری کے باصلاحیت فٹبالرز اور باکسرز کو معاشی سہولت میسر نہیں ہے اور ان کے حقوق پر ڈاکے ڈالے جارہے ہیں، ترقیاتی کاموں کی وجہ سے بھی اور ویسے بھی لیاری کی سڑکیں اور گلیاں کھنڈرات کا نمونہ ہیں۔


لیاری کو پینے کا پانی کی کمی کا سامنا ہے لوگ بورنگ کا پانی پینے پر مجبور ہیں، جو صحت کے لیے مضر ہے، لیاری کو اس کی بڑھتی ہوئی آبادی کے مطابق پینے کا پانی فراہم کیا جائے ۔ سیوریج سسٹم میں مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی لیاری کے چاروں بھرے ہوئے برساتی نالوں کو فائلوں کی حد تک نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں صفائی کی ضرورت ہے ۔ لیاری کے کن کن مسائل پر رویا جائے ؟ لیاری مسائلستان بنا ہوا ہے۔


یہاں کے لوگ بڑے سخت جان ہیں جو عرصہ دراز سے اتنے مسائل کے باوجود ابھی تک زندہ ہیں۔ لیاری کے ان اندھیروں میں روشنی کی کرن کب نمودار ہوگی؟ اسی انتظار میں صدیاں بیت چکی ہیں۔

Load Next Story