بچپن ہی میں بوڑھا ہوگیا تھا غلام علی وفا
آج کا گیت نگار شناخت سے محروم ہے، غلام علی وفا
اِس کہانی میں کئی رنگ ہیں۔ بنیادی میدان گیت نگاری رہا، البتہ طبلے پر بھی خوب گرفت ہے۔
70 اور 80 کی دہائی کے معروف موسیقاروں کے ساتھ بہ طور اسسٹنٹ میوزک ڈائریکٹر جم کر کام کیا۔ میدان سیاست میں بھی سرگرم رہے۔ نثر کی جانب آئے، تو کالم نگاری کا انتخاب کیا۔ گذشتہ تین عشروں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ کشمیر سے متعلق ایک دل چسپ کتاب لکھ رہے ہیں، جو اِس خطۂ زمین سے متعلق پاکستان کے موقف پر کئی اعتراضات اٹھاتی ہے!
یہ غلام علی وفا کی کہانی ہے۔ 62ء میں میوزک انڈسٹری کا حصہ بنے۔ 64ء میں پہلا گیت لکھا۔ 69ء میں ریڈیو سے وابستگی ہوئی۔ 74ء میں پی ٹی وی سے رشتہ قائم ہوا۔ اور 80ء میں بیرون ملک چلے گئے۔ اِس دوران بھی لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری رہا۔ گیتوں کی تعداد سو کے لگ بھگ۔ ''کجراری انکھیوں میں نندیا نہ آئے'' مقبول ترین ٹھہرا، جو اُن کے مطابق مہ ناز کا گایا ہوا پہلا گانا تھا۔ دیگر گیتوں میں ''سجنا تو ملا، زندگی مل گئی''، ''مار دتا مینوں جیوندا جی'' اور ''میں بھی چلوں گی تیرے ساتھ سجنا'' نمایاں ہیں۔ مہدی حسن کی آواز میں ریکارڈ ہونے والی مشہور غزل ''ہماری یاد ستائے تو پھر چلے آنا'' بھی اُن ہی کے قلم سے نکلی۔ شعری مجموعے ''دھوپ دریا تشنگی''، ''آؤ سورج اگائیں''، ''خواب دیکھتے رہنا'' اور ''یہ گیت مرے'' کے عنوان سے شایع ہوئے۔
غلام علی تقسیم سے چند برس قبل راجستھان میں پیدا ہوئے۔ ہجرت کے بعد کراچی میں ڈیرا ڈالا۔ والد، محمد اقبال ملازمت پیشہ آدمی تھے۔ شعری ذوق رکھتے تھے۔ سات بہن بھائیوں میں وہ پانچویں۔ شرارتی اور جھگڑالو۔ البتہ والد کی سخت مزاجی کے باعث کبھی حد عبور نہیں کی۔ معاشی مسائل کی وجہ سے تعلیمی سلسلہ مڈل پر پہنچ کر تمام ہوگیا۔
شعری ذوق وراثت میں ملا۔ اُسی میں موسیقی کا تڑکا لگا۔ ساز پکارنے لگے۔ ''ایسٹرین اسٹوڈیو'' میں معروف موسیقار، دیبو بھٹاچاریہ سے ملاقات ہوئی۔ اُن کے اسسٹنٹ ہوگئے۔ ''بنجارن''، ''بدنام''، ''بیٹی''، ''میرے بچے میری آنکھیں''، ''جلتے ارمان''، ''انجانے راستے'' اور ''سمندر'' میں دیبو صاحب کی سرپرستی میں کام کیا۔ ''بنجارن'' کے لیے اُنھوں نے پہلی بار فوک ساز ''پچنگ'' بجایا، جو بعد میں پنجابی فلموں کا جُزو بن گیا۔ روبن گھوش، جمال حسین، جاوید سرور، جاوید اللہ دتا اور نذر جمال راٹھور کے ساتھ بھی کام کیا۔
موسیقی کی دنیا اپنی جگہ، مگر روح الفاظ سے نتھی تھی۔ بالآخر قلم تھام لیا۔ ''وے آجا چن ماہی میرے'' پہلا گیت، جو ریڈیو کے لیے عشرت جہاں کی آواز میں ریکارڈ ہوا۔ یہی گیت ریڈیو پاکستان لے گیا۔ وہاں اُن کے گیتوں کو ریشماں، سلامت علی، تاج ملتانی، مہ ناز، غلام عباس اور بلقیس خانم نے اپنی آواز دی۔ پی ٹی وی پر اُن کے گیت مہناز، حمیرا چنا، گل بہار بانو اور اکرام مہدی کی آواز میں ریکارڈ ہوئے۔ چھے فلموں کے لیے اُنھوں نے گیت لکھے۔ فضل رومان کی ہدایت کاری میں بننے والی ''انمول'' سے یہ قصّہ شروع ہوا، جو ''لہو دی ہولی'' تک پہنچا۔
میوزک کمپنیوں نے بھی صلاحیتوں سے استفادہ کیا۔ تمام بڑی کمپنیوں کے لیے اُن کے قلم سے گیت نکلے۔ مہدی حسن، ریشماں، غلام علی، تاج ملتانی، مسرت نذیر، منی بیگم اور ارشد محمود نے اُنھیں آواز دی۔ یادیں تازہ کرتے ہوئے کہتے ہیں،''اُس زمانے میں کیسٹ تو تھی نہیں۔ ریکارڈ ہوتا تھا، جسے 'توا' کہا جاتا۔ اُس میں دو ہی گیت ہوتے تھے۔ بعد میں ترقی ہوئی، تو چار گانے اُس میں آنے لگے۔ دھیرے دھیرے تعداد بڑھنے لگی۔''
80ء میں معاشی مسائل کویت لے گئے۔ 2006 تک وہاں رہے۔ پاکستان آنا جانا رہا۔ گیت لکھتے رہے۔ شعری مجموعے شایع ہوئے۔ جب لوٹے، حالات بدل چکے تھے۔ فلم انڈسٹری ختم ہوگئی، البتہ وہ مختلف گلوکاروں اور موسیقاروں کے لیے وقتاً فوقتاً لکھتے رہے۔
گیت نگاری کے میدان میں وہ تنویر نقوی اور قتیل شفائی کو سراہتے ہیں، مگر زیاد پسند مسرور انور ہیں۔ موجودہ گیت نگاری سے مایوس نہیں، البتہ شکایت ہے کہ ماضی کے برعکس آج کا گیت نگار شناخت سے محروم ہے۔
آرٹس کونسل آف پاکستان کے دو انتخابات میں صدر کے عہدے کے لیے قسمت آزمائی۔ کہنا ہے، مقصد کام یابی حاصل کرنا نہیں تھا، انتخابی مہم کے ذریعے فقط اپنا منشور لوگوں تک پہنچانا چاہتے تھے۔ پسند ناپسند کا معاملہ زیر بحث آیا، تو کہنے لگے؛ وہ بچپن ہی میں بوڑھے ہوگئے تھے۔ اوائل عمری میں فیشن ترک کیا، شاعروں والا حلیہ اپنا لیا۔ کھانے کے معاملے میں کوئی خاص پسند نہیں۔ کالم نگاری میں ارشاد احمد حقانی کا نام لیتے ہیں۔ شعرا میں غالب نے متاثر کیا۔ ''غالب کے ہاں فن کے ساتھ غوروفکر ہے۔ اُس کا کوئی شعر ضایع نہیں ہوتا۔'' فکشن بھی جم کر پڑھا۔ ممتاز مفتی، سب میں ممتاز لگے۔ 64ء میں شادی ہوئی۔ تین بیٹے، چار بیٹیاں ہیں۔ زندگی سے مطمئن ہیں۔ مستقبل میں کتابیں لکھنے کا ارادہ ہے۔ بیٹے کی پیدایش سے زندگی کی خوش گوار یادیں وابستہ ہیں۔ بیگم کی جدائی کے سمے گہرے کرب سے گزرے۔
70 اور 80 کی دہائی کے معروف موسیقاروں کے ساتھ بہ طور اسسٹنٹ میوزک ڈائریکٹر جم کر کام کیا۔ میدان سیاست میں بھی سرگرم رہے۔ نثر کی جانب آئے، تو کالم نگاری کا انتخاب کیا۔ گذشتہ تین عشروں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ کشمیر سے متعلق ایک دل چسپ کتاب لکھ رہے ہیں، جو اِس خطۂ زمین سے متعلق پاکستان کے موقف پر کئی اعتراضات اٹھاتی ہے!
یہ غلام علی وفا کی کہانی ہے۔ 62ء میں میوزک انڈسٹری کا حصہ بنے۔ 64ء میں پہلا گیت لکھا۔ 69ء میں ریڈیو سے وابستگی ہوئی۔ 74ء میں پی ٹی وی سے رشتہ قائم ہوا۔ اور 80ء میں بیرون ملک چلے گئے۔ اِس دوران بھی لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری رہا۔ گیتوں کی تعداد سو کے لگ بھگ۔ ''کجراری انکھیوں میں نندیا نہ آئے'' مقبول ترین ٹھہرا، جو اُن کے مطابق مہ ناز کا گایا ہوا پہلا گانا تھا۔ دیگر گیتوں میں ''سجنا تو ملا، زندگی مل گئی''، ''مار دتا مینوں جیوندا جی'' اور ''میں بھی چلوں گی تیرے ساتھ سجنا'' نمایاں ہیں۔ مہدی حسن کی آواز میں ریکارڈ ہونے والی مشہور غزل ''ہماری یاد ستائے تو پھر چلے آنا'' بھی اُن ہی کے قلم سے نکلی۔ شعری مجموعے ''دھوپ دریا تشنگی''، ''آؤ سورج اگائیں''، ''خواب دیکھتے رہنا'' اور ''یہ گیت مرے'' کے عنوان سے شایع ہوئے۔
غلام علی تقسیم سے چند برس قبل راجستھان میں پیدا ہوئے۔ ہجرت کے بعد کراچی میں ڈیرا ڈالا۔ والد، محمد اقبال ملازمت پیشہ آدمی تھے۔ شعری ذوق رکھتے تھے۔ سات بہن بھائیوں میں وہ پانچویں۔ شرارتی اور جھگڑالو۔ البتہ والد کی سخت مزاجی کے باعث کبھی حد عبور نہیں کی۔ معاشی مسائل کی وجہ سے تعلیمی سلسلہ مڈل پر پہنچ کر تمام ہوگیا۔
شعری ذوق وراثت میں ملا۔ اُسی میں موسیقی کا تڑکا لگا۔ ساز پکارنے لگے۔ ''ایسٹرین اسٹوڈیو'' میں معروف موسیقار، دیبو بھٹاچاریہ سے ملاقات ہوئی۔ اُن کے اسسٹنٹ ہوگئے۔ ''بنجارن''، ''بدنام''، ''بیٹی''، ''میرے بچے میری آنکھیں''، ''جلتے ارمان''، ''انجانے راستے'' اور ''سمندر'' میں دیبو صاحب کی سرپرستی میں کام کیا۔ ''بنجارن'' کے لیے اُنھوں نے پہلی بار فوک ساز ''پچنگ'' بجایا، جو بعد میں پنجابی فلموں کا جُزو بن گیا۔ روبن گھوش، جمال حسین، جاوید سرور، جاوید اللہ دتا اور نذر جمال راٹھور کے ساتھ بھی کام کیا۔
موسیقی کی دنیا اپنی جگہ، مگر روح الفاظ سے نتھی تھی۔ بالآخر قلم تھام لیا۔ ''وے آجا چن ماہی میرے'' پہلا گیت، جو ریڈیو کے لیے عشرت جہاں کی آواز میں ریکارڈ ہوا۔ یہی گیت ریڈیو پاکستان لے گیا۔ وہاں اُن کے گیتوں کو ریشماں، سلامت علی، تاج ملتانی، مہ ناز، غلام عباس اور بلقیس خانم نے اپنی آواز دی۔ پی ٹی وی پر اُن کے گیت مہناز، حمیرا چنا، گل بہار بانو اور اکرام مہدی کی آواز میں ریکارڈ ہوئے۔ چھے فلموں کے لیے اُنھوں نے گیت لکھے۔ فضل رومان کی ہدایت کاری میں بننے والی ''انمول'' سے یہ قصّہ شروع ہوا، جو ''لہو دی ہولی'' تک پہنچا۔
میوزک کمپنیوں نے بھی صلاحیتوں سے استفادہ کیا۔ تمام بڑی کمپنیوں کے لیے اُن کے قلم سے گیت نکلے۔ مہدی حسن، ریشماں، غلام علی، تاج ملتانی، مسرت نذیر، منی بیگم اور ارشد محمود نے اُنھیں آواز دی۔ یادیں تازہ کرتے ہوئے کہتے ہیں،''اُس زمانے میں کیسٹ تو تھی نہیں۔ ریکارڈ ہوتا تھا، جسے 'توا' کہا جاتا۔ اُس میں دو ہی گیت ہوتے تھے۔ بعد میں ترقی ہوئی، تو چار گانے اُس میں آنے لگے۔ دھیرے دھیرے تعداد بڑھنے لگی۔''
80ء میں معاشی مسائل کویت لے گئے۔ 2006 تک وہاں رہے۔ پاکستان آنا جانا رہا۔ گیت لکھتے رہے۔ شعری مجموعے شایع ہوئے۔ جب لوٹے، حالات بدل چکے تھے۔ فلم انڈسٹری ختم ہوگئی، البتہ وہ مختلف گلوکاروں اور موسیقاروں کے لیے وقتاً فوقتاً لکھتے رہے۔
گیت نگاری کے میدان میں وہ تنویر نقوی اور قتیل شفائی کو سراہتے ہیں، مگر زیاد پسند مسرور انور ہیں۔ موجودہ گیت نگاری سے مایوس نہیں، البتہ شکایت ہے کہ ماضی کے برعکس آج کا گیت نگار شناخت سے محروم ہے۔
آرٹس کونسل آف پاکستان کے دو انتخابات میں صدر کے عہدے کے لیے قسمت آزمائی۔ کہنا ہے، مقصد کام یابی حاصل کرنا نہیں تھا، انتخابی مہم کے ذریعے فقط اپنا منشور لوگوں تک پہنچانا چاہتے تھے۔ پسند ناپسند کا معاملہ زیر بحث آیا، تو کہنے لگے؛ وہ بچپن ہی میں بوڑھے ہوگئے تھے۔ اوائل عمری میں فیشن ترک کیا، شاعروں والا حلیہ اپنا لیا۔ کھانے کے معاملے میں کوئی خاص پسند نہیں۔ کالم نگاری میں ارشاد احمد حقانی کا نام لیتے ہیں۔ شعرا میں غالب نے متاثر کیا۔ ''غالب کے ہاں فن کے ساتھ غوروفکر ہے۔ اُس کا کوئی شعر ضایع نہیں ہوتا۔'' فکشن بھی جم کر پڑھا۔ ممتاز مفتی، سب میں ممتاز لگے۔ 64ء میں شادی ہوئی۔ تین بیٹے، چار بیٹیاں ہیں۔ زندگی سے مطمئن ہیں۔ مستقبل میں کتابیں لکھنے کا ارادہ ہے۔ بیٹے کی پیدایش سے زندگی کی خوش گوار یادیں وابستہ ہیں۔ بیگم کی جدائی کے سمے گہرے کرب سے گزرے۔