''مرد روتے نہیں، لڑکوں کی آنکھوں میں آنسو اچھے نہیں لگتے، تم تو مرد ہو، بہادر ہو، حوصلہ کرو، ایسے گھبرایا نہیں کرتے''۔
ایسے کئی جملے ہمارے معاشرے میں اکثر سننے کو ملتے ہیں، جہاں مردوں سے متعلق ان کے جذبات سے جڑے تمام تر پہلوؤں کو محدود کردیا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ہمارا معاشرہ مردوں کو زیادہ اہمیت دیتا ہے، لیکن یہ بات سو فیصد درست نہیں۔ ایک بچے کے صرف پیدا ہونے کی خوشیاں منائی جاتی ہیں، جشن ہوتے ہیں، مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں، لیکن بڑا ہونے پر اسے ایک امیتازی رویے کا سامنا ہوتا ہے۔ بہت ہی آسانی کے ساتھ اس کے کندھوں پر تمام تر ذمے داریاں عائد کردی جاتی ہیں۔
اسے روزگار، بہنوں کی شادیوں کے خرچے، جہیز، بہن بھائیوں کی پڑھائی اور والد و والدہ کی دواؤں کے اخراجات میں ایسے پھنسا دیا جاتا ہے کہ اس کی اپنی جوانی ختم ہونے لگتی ہے اور وہ لڑکے کے بجائے انکل بن جاتا ہے۔ لڑکوں کو بھی لڑکیوں کی طرح گھر چھوڑنا پڑتا ہے۔ وہ بھی پردیس میں پیسہ کمانے جاتے ہیں۔ اکیلے ہاسٹل کی زندگی گزارنا، کنوارہ رہنا، اپنے کھانے پینے کا خود بندوبست کرنا اور تمام تر اخراجات برداشت کرنا، پردیس میں وطن سے کوسوں میل کے فاصلے پر اپنے پیاروں کو یاد کرکے آبدیدہ ہوجانا، یہ سب اس لڑکے کے ساتھ ہوتا ہے۔
بیاہی بہنیں تو میکے میں آکر خوب نخرے اٹھواتی ہیں لیکن بھائی پردیس سے چند دن کےلیے واپس کیا آجائے، انتہائی معذرت کے ساتھ ماؤں بہنوں سمیت تمام گھر والوں کو اس کی واپسی کا انتظار ہوتا ہے۔
پردیس میں وہ اپنی بیوی سے بات بھی نہیں کرسکتا۔ اکثر ٹیلی فون کالز ماسوائے بیوی، سب سنتے ہیں اور طرح طرح کے تحائف کی فرمائشیں کی جاتی ہیں۔ اب بھی کئی گھرانوں میں شوہر کو بیوی سے متنفر کردیا جاتا ہے تاکہ وہ ساری زندگی وہیں کمائی کرکے اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتا رہے۔ یہ خودغرضی نہیں تو کیا ہے؟
مرد اپنی چھوٹی چھوٹی ضروریات اور خواہشات کا خون کرکے گھر والوں کےلیے تحائف خریدتا رہتا ہے۔ کئی بار تو اسے ایسے خرچے کے چکروں میں پھنسا دیا جاتا ہے کہ اس کے ٹکٹ کے پیسے تک جمع نہیں ہونے پاتے لیکن رشتے داروں کی فرمائشیں عمرو عیار کی زنبیل کی طرح کبھی نہیں بھرتیں۔ مرد کو وہ پروٹوکول کیوں نہیں ملتا جو بیاہی بہنوں کو ملتا ہے؟ وہ دو گھڑی بیوی کے پاس بیٹھے تو ماں کو مسئلہ ہوتا ہے، ماں کے پاس بیٹھے تو بیوی ناراض ہوجاتی ہے۔ آخر وہ بے چارا مرد کیا کرے، کہاں جائے، کہاں اپنے دل کا حال بتائے؟
دوسروں کی زندگیاں بناتے بناتے مرد اپنی شخصیت کہاں کھو دیتا ہے، یہ کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ یہ بہت بڑی اذیت ہوتی ہے۔ پھر جب یہی بے اعتنائی کا مارا مرد اپنی دلچسپیاں باہر ڈھونڈ لیتا ہے اور غلط سوسائٹی کا شکار ہونے لگتا ہے، تب آسانی سے اس پر تمام تر صورتحال کا الزام دھر دیا جاتا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ انسان جذبات اور احساسات کی دنیا کا نام ہے۔ خواتین کی طرح مردوں کے بھی جذبات و احساسات ہیں۔ جس طرح بوڑھوں، بچوں اور خواتین، سب کو اپنے جذبات کے اظہار کی ضرورت ہوتی ہے تو مرد بھی اس سے مبرا نہیں۔ انھیں بھی رونا آتا ہے، وہ بھی کسی ہمدرد کا ساتھ چاہتے ہیں۔ جب ہمیں گھر پر اپنے جذبات کے درست انعکاس کا موقع نہیں ملتا، ہمارے اپنے ہمیں دھتکارتے ہیں تو پھر ہم باہر کی دنیا کو ہی اپنی کل کائنات سمجھنے لگتے ہیں۔ کوئی بھی یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا کہ لڑکوں اور مردوں کے بھی مسائل ہیں اور وہ بھی گمبھیر نوعیت کے ہیں۔ انھیں بھی رونے دینا ضروری ہے۔ مصیبت میں ان کی ڈھال بننا بھی ضروری ہے۔
ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ خواتین کو مردوں کی جانب سے دیے جانے والے تحفظ کی ضرورت ہے۔ لیکن کیا مردوں کو جذباتی تعلق، غمگساری اور ہمدردی کی ضرورت نہیں؟ اولاد ہو تو وہ پیسے کے پیچھے، بیوی بے جا فرمائشیں کرنے والی، مائیں بہنیں، بیٹے بھائی کو پیسے کی مشین سمجھنے والی۔ مرد ساری زندگی بھی پردیس میں لگا کر آجائے بچے یہی کہتے ہیں کہ آپ نے ہمارے لیے کیا کیا؟ آپ پر ہماری کفالت فرض ہے، آپ نے ہمیں پیسے بھیج کر کوئی احسان نہیں کیا۔ ایسی صورتحال میں ایک شکست خوردہ مرد کیا کرے؟
دوسری طرف بہت سی بیویاں ایسی ہیں جو شوہر کی خدمت گزار اور اس کی دل بستگی کا باعث ہیں۔ کئی آٹے میں نمک کے برابر لوگوں کے بچے بھی اچھے اور فرماں بردار ہیں اور کئی مائیں بہنیں بھی اپنے بیٹے اور بھائی کو قیمتی اثاثہ سمجھتی ہیں۔ لیکن میرا سوال ابھی تک اپنی جگہ پر موجود ہے کہ مرد آخر رو کیوں نہیں سکتا؟
ہمارے قصے، کہانیوں اور کتابوں میں مرد حضرات کو دیو کی طرح بہادر اور طاقتور کیوں دکھایا گیا ہے؟ کیوں اس انسانی پہلو کے بارے میں نہیں سوچا جاتا ہے کہ وہ بھی جذبات رکھتا ہے، وہ بھی کسی صورتحال کو محسوس کرسکتا ہے، بطور انسان اس کی آنکھیں بھی نم ہوسکتی ہیں۔ دیکھا جائے تو مرد بھی خاندان کی ایک اکائی کی صورت ہے۔ اس کے ساتھ ہمہ وقت ناانصافی معاشرے کا شیرازہ بکھیرنے کےلیے کافی ہے۔ ہمیں مردوں کی عزت بطور والد، شوہر، بیٹا اور بھائی کرنا ہوگی اور انھیں یہ یقین بھی دلانا ہوگا کہ آئندہ ان کی آنکھوں میں آنسو آنے پر ان کا مذاق نہیں اڑایا جائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔