صوفیاء کی روایتوں کے ساتھ
اپنی خوبصورت دھرتی جنوبی ایشیاء پرجب نظر ڈالتا ہوں، تو میرا سر فخر سے تن جاتا ہے ...
ISLAMABAD:
ویسے تو اس دنیا میںسوچنے، سمجھنے اور انسانیت کے لیے درد محسوس کرنے والوں کو تاریخ کے کسی بھی دور میںسکوں میسر نہیںآیا۔لیکن آج جس طرح نرم وگداز دل اورحساس طبیعت انسانوں کے لیے جہنم بنی ہے، شاید پہلے کبھی ایسی نہ تھی۔عظمت انسانی پر یقین رکھنے والے ہمیشہ موقع پرستوں،چڑھتے سورج کے پجاریوں اور انسانیت دشمنوں کی چیرہ دستیوں کا شکار رہے۔
جب انھیں بھری آبادیوں میں امان نہیں ملی توانھوںنے جنگلوں اور بیابانوں کا رخ کیا۔کچھ نے انھیںفراریت پسندکہا، کچھ نے انھیں قانون شکن اورکچھ نے انھیں مذہب دشمن گردانا، مگر اپنی فکری طہارت،قلب وذہن کی وسعت اور خلق خدا سے محبت کے نشے میں سرشار ان لوگوںنے ہر طعن تشعن اورہرظلم وزیادتی کو برداشت کیا، لیکن حرف شکایت زبان پرنہیںآنے دیا۔بلکہ ان ذہنی اورجسمانی اذیتوں کے باوجود امن وآشتی، رواداری،متحمل مزاجی اور انسان نوازی کا پرچار زیادہ سرعت سے کرنے لگے۔ یہ لوگ تاریخ میںصوفیاء کہلائے اوران کی افکار کا فیض ان کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد بھی جاری رہا اور آج بھی جاری وساری ہے۔ بشرطیکہ کوئی اسے تسلیم کرتے ہوئے ان کے راستے کو اپنانے کی کوشش کرے یا انھیں رد کردے۔
اپنی خوبصورت دھرتی جنوبی ایشیاء پرجب نظر ڈالتا ہوں، تو میرا سر فخر سے تن جاتا ہے کہ جب درباری ملا اور پنڈت آج کی طرح نفرتوں کے بیج بورہے تھے،خلق خدا کو ایک دوسرے سے دست وگربیان کرانے کے لیے سازشیں کررہے تھے، توکراچی کے ساحل سے سلہٹ کے مرغزاروں تک اور بولان کی بلندو بالا پہاڑوں سے چٹاگانگ کے شفاف پانیوں تک صوفیاء کا سلسلہ ہر چند کوس کے فاصلے پر خلق خدا کو تحمل، بردباری، رواداری اور محبت،اخوت اور بھائی چارے کا درس دینے کے لیے موجود تھا۔
جب مسلک کے نام پر لوگوں کو تقسیم کیا جا رہا تھا،تو اہل طریقت، سرزمین ہندکے ہر شہری کو تسبیح کے دانوں کی طرح ایک لڑی میں پرونے کی کوششوں میں مصروف تھے۔کراچی کے ساحل پر محو خواب خانوادہ علیؓ کا چشم وچراغ عبداللہ شاہ غازی ہو کہ سہون کی پہاڑیوں میں محو راحت لعل شہباز قلندر ہو، بھٹ شاہ کی مٹی کو اپنے وجود سے رونق بخشنے والاصوفی شاعر شاہ لطیف ہوکہ درازہ شریف میں محو خواب شاعرہفت زبان سچل سرمست ہو۔سندھ ان کی محبتوں کا آج تک مقروض ہے۔
سرائیکی بیلٹ توگویا اولیاء اور صوفیاء کا مسکن ہے۔ہرشہر،ہر گائوں میں کسی نہ کسی صوفی کا آستانہ رہا ہے۔ کوٹ مٹھن کا ڈھولن غلام فرید ہو یا ملتان میں جا بجا پھیلے رشدوہدایت کے سلسلے ہوں۔روشنیاں بکھیرتے بہاء الدین زکریا ہوں یا انسانوں کو ایک لڑی میں پروتے شاہ رکنِ عالم ہوں،سبھی نے معرفت اور عشق حقیقی کے ایسے چراغ روشن کیے،جنھیں کوئی آندھی کوئی طوفان آج تک بجھا نہ سکا۔ ملتان سے لاہور جائیں، تو لاہور میں سیدعلی ہجویری بالمعروف داتاگنج بخش کی درگاہ کئی صدیوںسے فیض بکھیرتی نظر آتی ہے۔جن کی کتاب کشف المحجوب علم وفضل اور معرفت پرایک نادر روزگار تحریرہے۔خواجہ معین الدین چشتی نے جب لاہور میں قیام کیا، تو انھوں نے حضرت داتا گنج بخش کے بارے میں یہ شعر کہا ،جو بعدازاں ان کی لوحِ مزار پرکندہ کردیا گیا۔
گنج بخش فیضِ عالم مظہرِ نورِ خدا
ناقصاں را پیر کامل، کاملاں را راہنما
پنجاب ہی میں ہمیں بابا فرید گنج شکر، بابا گرونانک، بابا بلھے شاہ،مادھولال حسین سمیت ان گنت صاحب طریقت بزرگوں اور صوفی شعراء کے آستانے ملتے ہیں۔جہلم سے ذرا دور میرپور (آزادکشمیر)کے قریب ہمیںمیاں محمد بخش جیسا بلند پایا صوفی شاعر ملتا ہے، جن کاکلام رشدو ہدایت اور انسان دوستی میں گندھا ہوا ہے۔اسی طرح وہ اپنے اس شعر میں تجربے کی بات کرتے ہیںکہ:
نچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے نئیں پایا
ککر تے انگور چڑھایا، ہر گچھا زخمایا
لاہور سے سرحد عبور کرکے ہندوستان میں داخل ہوں، تودائیں،بائیں، آگے پیچھے ہمیں عشق حقیقی کی سرمستیوںاور انسان دوستی کے جذبے سے سرشار صوفیا کی ایک کہکشاں ملے گی۔خواجہ اجمیری سے خواجہ نظام الدین اولیاء تک، قطب الدین بختیارکاکی سے شہید تیتومیر تک، سالار مسعود سے ممبئی کے ساحل پربابا حاجی علی تک ہرشہر،ہر قصبے اور قریہ میں کسی نہ کسی صوفی اور سنت کا فیض عام جاری ملے گا۔مگر طوطی ہند امیر خسرو اور محب ہندکبیرداس نے سندھ کے شاہ لطیف کی طرح اپنی شاعری کے ذریعے جس انداز میں انسان دوستی کا پرچارکیا اورمحبت و رواداری کو عوام وخواص کے دلوں پرنقش کیا،اس کی مثال مشکل ہی سے ملے گی۔
اس دھرتی پر جہاں ایک طرف ان بزرگوں کا تحمل و رواداری اور انسان دوستی کا درس جاری رہا، وہیں تاریخ کے ہر دور میں مختلف قوتیں بھی اپنی پوری طاقت کے ساتھ انسانوں کو مذہب اور مسلک کے نام پر تقسیم کرنے کے لیے سرگرم رہیں۔مگرگزشتہ چند عشروں سے انھیں پھلنے پھولنے کے بھرپور مواقعے ملے اور جنہوں نے صوفیاء کی اس دھرتی کو بارود کے ڈھیر میں تبدیل کردیا۔گلی گلی محلے محلے:سائنیم سدائیں کرین متھے سندھ سکار۔دوست مٹھادلدار ،عالم سب آباد کرین، کاآفاقی گیت گانے والوں ،بابا بلھے شاہ اور خواجہ غلام فرید کی کافیوں سے محبت کی جوت جگانے والوں اور مادھولال حسین کے عرس پر ڈھول کی تھاپ پر بے خودی میں رقص کرنے والوں کو آج مختلف عناصر مسلک وعقیدے کے نام پر تقسیم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ کتنی عجب بات ہے کہ صوفیاء کے کروڑوں عقیدت مندآج چند ہزار شدت پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔
ٹارگٹ کلنگ، خود کش حملے اور بم دھماکے نہ پہلے ہماری سرشت کا حصہ تھے اورنہ اب ہیں۔ ہمارے صوفیاء نے تو ہر مذہب اور مسلک وعقائد کے ماننے والوں کو اپنے برابر جگہ دی ۔یہی سبب ہے کہ آج بھی صوفیاء کی درگاہوں پر کیا ہندو،کیا مسلمان،کیا سکھ اور کیا عیسائی، سبھی نیازمندی کے پھول چڑھانے صبح شام حاضر ہوتے ہیں۔ہم نے جب سے ہوش سنبھالاہے، مختلف مسالک کے لوگوں کو ایک دوسرے کی تقریبات میں دل وجان سے شریک ہوتے دیکھا ہے۔ اپنے زمانہ طالب علمی میں ہم ہر کرسمس پر اپنے دوست ہیرس کے گھر جاتے،ہندو دوستوں کے ساتھ ہولی اور دیوالی مناتے۔جب کہ عیدین پر وہ ہمارے گھر آتے ، بلکہ اکثرعید گاہ کے باہر ہمارا انتظار کرتے۔وہ دن کیا ہوئے اور کیوں ختم ہوئے؟
آج تو گھر سے نکلتے ہوئے خوف آتا ہے،گھرکے اندر بھی خوف کے سائے لہراتے ہیں۔ہر آہٹ پر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ مائیں مصلے پر بیٹھی بچوں کے اسکول وکالج سے ان کی صحیح سلامت گھر تک واپسی کے لیے رب جلیل کی بارگاہ میں دعاء گو رہتی ہیں۔ پوری قوم نفسیاتی مریض ہوچکی ہے۔اگر لاہور دھماکوں سے لرز رہاہے،تو کراچی ٹارگٹ کلنگ سے چور چور ہے۔ پختونخواہ خود کش حملوں کی زد میں ہے،توبلوچستان خون تھوک رہا ہے۔خدایا،اس دھرتی کو کس کی نظر لگی ہے؟ کس نے اس کی رواداری اور محبت کے جذبے کو چھین لیا ہے؟
میں سوچتاہوں کہ کیا1977 سے پہلے کا وہ دور ہمیں مل سکے گا، جب ہم بلاامتیاز رنگ ونسل، مذہب وعقیدہ ایک دوسرے کے ساتھ ملاکرتے تھے۔ہم میں کب یہ شعور جاگے گا کہ ہم انفرادی معاملات کو اجتماعی بنانے اور اجتماعی خواص کو انفرادی سمجھنے کے سحر سے باہر نکل سکیں گے۔ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ فرد کا فرد سے تعلق نسلی ولسانی تفریق اور عقیدے کی قید سے آزاد ہوتا ہے۔دو افراد اپنی ذہنی ہم آہنگی کے سبب ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں، اس میں مذہب وعقیدہ اور نسلی ولسانی شناخت کہاں سے آگئی۔چائے کا ہوٹل اور رکشہ ٹیکسی چلانے والاپختون، کسی دکان پر سیلزمین یا فیکٹری میں کام کرنے والا اردو بولنے والا، پنجابی بس کنڈکٹر ،فش ہاربر پر محنت کرنے والے بلوچ اورپرچون کی دکان چلانے والے سندھی کو اس سے کیا غرض کہ اس کا گاہک کون ہے؟اس کا عقیدہ کیا ہے؟وہ کون سی زبان بولتا ہے؟وہ تو علیٰ الصبح اپنے بچوںکا پیٹ پالنے گھرسے نکلتا ہے۔اسے نہ سیاست سے غرض ہے نہ مسلک وعقیدے سے کوئی سروکار۔ وہ تو خدا پروردگار کے حضور سربسجود ہوتا ہے، توخلوص نیت سے اس کی رحمتوں کا طلب گار ہوتا ہے۔
اسے مارنے اور اس کے گھر کو اجاڑنے سے کسی کو کیا مل رہا ہے؟یہ سمجھ سے باہر ہے۔آئیے ہم سب مل کرصوفیاء کے درس محبت ویگانگت کو اپنے قلب وذہن میں تازہ کریں،کیونکہ اس دھرتی پر یہی روش چل سکتی ہے، گروہوں میں تقسیم کرنے والوں کا طرز حیات ہمارے لیے زہر قاتل ہے اور ہم اس کے نہ پہلے کبھی متحمل ہوسکے اور نہ ہی اب ہوسکیں گے۔شاہ لطیف، سچل سرمست،بابا بلھے شاہ، خواجہ غلام فرید،میاں محمد بخش،رحمان بابا، امیر خسرو اورکبیرداس ہماری سنہری تاریخ کا حصہ ہیں اور رہیں گے اور انھی سے ہمیں وجدان ،نروان اور قلبی سکون ملے گا۔
ویسے تو اس دنیا میںسوچنے، سمجھنے اور انسانیت کے لیے درد محسوس کرنے والوں کو تاریخ کے کسی بھی دور میںسکوں میسر نہیںآیا۔لیکن آج جس طرح نرم وگداز دل اورحساس طبیعت انسانوں کے لیے جہنم بنی ہے، شاید پہلے کبھی ایسی نہ تھی۔عظمت انسانی پر یقین رکھنے والے ہمیشہ موقع پرستوں،چڑھتے سورج کے پجاریوں اور انسانیت دشمنوں کی چیرہ دستیوں کا شکار رہے۔
جب انھیں بھری آبادیوں میں امان نہیں ملی توانھوںنے جنگلوں اور بیابانوں کا رخ کیا۔کچھ نے انھیںفراریت پسندکہا، کچھ نے انھیں قانون شکن اورکچھ نے انھیں مذہب دشمن گردانا، مگر اپنی فکری طہارت،قلب وذہن کی وسعت اور خلق خدا سے محبت کے نشے میں سرشار ان لوگوںنے ہر طعن تشعن اورہرظلم وزیادتی کو برداشت کیا، لیکن حرف شکایت زبان پرنہیںآنے دیا۔بلکہ ان ذہنی اورجسمانی اذیتوں کے باوجود امن وآشتی، رواداری،متحمل مزاجی اور انسان نوازی کا پرچار زیادہ سرعت سے کرنے لگے۔ یہ لوگ تاریخ میںصوفیاء کہلائے اوران کی افکار کا فیض ان کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد بھی جاری رہا اور آج بھی جاری وساری ہے۔ بشرطیکہ کوئی اسے تسلیم کرتے ہوئے ان کے راستے کو اپنانے کی کوشش کرے یا انھیں رد کردے۔
اپنی خوبصورت دھرتی جنوبی ایشیاء پرجب نظر ڈالتا ہوں، تو میرا سر فخر سے تن جاتا ہے کہ جب درباری ملا اور پنڈت آج کی طرح نفرتوں کے بیج بورہے تھے،خلق خدا کو ایک دوسرے سے دست وگربیان کرانے کے لیے سازشیں کررہے تھے، توکراچی کے ساحل سے سلہٹ کے مرغزاروں تک اور بولان کی بلندو بالا پہاڑوں سے چٹاگانگ کے شفاف پانیوں تک صوفیاء کا سلسلہ ہر چند کوس کے فاصلے پر خلق خدا کو تحمل، بردباری، رواداری اور محبت،اخوت اور بھائی چارے کا درس دینے کے لیے موجود تھا۔
جب مسلک کے نام پر لوگوں کو تقسیم کیا جا رہا تھا،تو اہل طریقت، سرزمین ہندکے ہر شہری کو تسبیح کے دانوں کی طرح ایک لڑی میں پرونے کی کوششوں میں مصروف تھے۔کراچی کے ساحل پر محو خواب خانوادہ علیؓ کا چشم وچراغ عبداللہ شاہ غازی ہو کہ سہون کی پہاڑیوں میں محو راحت لعل شہباز قلندر ہو، بھٹ شاہ کی مٹی کو اپنے وجود سے رونق بخشنے والاصوفی شاعر شاہ لطیف ہوکہ درازہ شریف میں محو خواب شاعرہفت زبان سچل سرمست ہو۔سندھ ان کی محبتوں کا آج تک مقروض ہے۔
سرائیکی بیلٹ توگویا اولیاء اور صوفیاء کا مسکن ہے۔ہرشہر،ہر گائوں میں کسی نہ کسی صوفی کا آستانہ رہا ہے۔ کوٹ مٹھن کا ڈھولن غلام فرید ہو یا ملتان میں جا بجا پھیلے رشدوہدایت کے سلسلے ہوں۔روشنیاں بکھیرتے بہاء الدین زکریا ہوں یا انسانوں کو ایک لڑی میں پروتے شاہ رکنِ عالم ہوں،سبھی نے معرفت اور عشق حقیقی کے ایسے چراغ روشن کیے،جنھیں کوئی آندھی کوئی طوفان آج تک بجھا نہ سکا۔ ملتان سے لاہور جائیں، تو لاہور میں سیدعلی ہجویری بالمعروف داتاگنج بخش کی درگاہ کئی صدیوںسے فیض بکھیرتی نظر آتی ہے۔جن کی کتاب کشف المحجوب علم وفضل اور معرفت پرایک نادر روزگار تحریرہے۔خواجہ معین الدین چشتی نے جب لاہور میں قیام کیا، تو انھوں نے حضرت داتا گنج بخش کے بارے میں یہ شعر کہا ،جو بعدازاں ان کی لوحِ مزار پرکندہ کردیا گیا۔
گنج بخش فیضِ عالم مظہرِ نورِ خدا
ناقصاں را پیر کامل، کاملاں را راہنما
پنجاب ہی میں ہمیں بابا فرید گنج شکر، بابا گرونانک، بابا بلھے شاہ،مادھولال حسین سمیت ان گنت صاحب طریقت بزرگوں اور صوفی شعراء کے آستانے ملتے ہیں۔جہلم سے ذرا دور میرپور (آزادکشمیر)کے قریب ہمیںمیاں محمد بخش جیسا بلند پایا صوفی شاعر ملتا ہے، جن کاکلام رشدو ہدایت اور انسان دوستی میں گندھا ہوا ہے۔اسی طرح وہ اپنے اس شعر میں تجربے کی بات کرتے ہیںکہ:
نچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے نئیں پایا
ککر تے انگور چڑھایا، ہر گچھا زخمایا
لاہور سے سرحد عبور کرکے ہندوستان میں داخل ہوں، تودائیں،بائیں، آگے پیچھے ہمیں عشق حقیقی کی سرمستیوںاور انسان دوستی کے جذبے سے سرشار صوفیا کی ایک کہکشاں ملے گی۔خواجہ اجمیری سے خواجہ نظام الدین اولیاء تک، قطب الدین بختیارکاکی سے شہید تیتومیر تک، سالار مسعود سے ممبئی کے ساحل پربابا حاجی علی تک ہرشہر،ہر قصبے اور قریہ میں کسی نہ کسی صوفی اور سنت کا فیض عام جاری ملے گا۔مگر طوطی ہند امیر خسرو اور محب ہندکبیرداس نے سندھ کے شاہ لطیف کی طرح اپنی شاعری کے ذریعے جس انداز میں انسان دوستی کا پرچارکیا اورمحبت و رواداری کو عوام وخواص کے دلوں پرنقش کیا،اس کی مثال مشکل ہی سے ملے گی۔
اس دھرتی پر جہاں ایک طرف ان بزرگوں کا تحمل و رواداری اور انسان دوستی کا درس جاری رہا، وہیں تاریخ کے ہر دور میں مختلف قوتیں بھی اپنی پوری طاقت کے ساتھ انسانوں کو مذہب اور مسلک کے نام پر تقسیم کرنے کے لیے سرگرم رہیں۔مگرگزشتہ چند عشروں سے انھیں پھلنے پھولنے کے بھرپور مواقعے ملے اور جنہوں نے صوفیاء کی اس دھرتی کو بارود کے ڈھیر میں تبدیل کردیا۔گلی گلی محلے محلے:سائنیم سدائیں کرین متھے سندھ سکار۔دوست مٹھادلدار ،عالم سب آباد کرین، کاآفاقی گیت گانے والوں ،بابا بلھے شاہ اور خواجہ غلام فرید کی کافیوں سے محبت کی جوت جگانے والوں اور مادھولال حسین کے عرس پر ڈھول کی تھاپ پر بے خودی میں رقص کرنے والوں کو آج مختلف عناصر مسلک وعقیدے کے نام پر تقسیم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ کتنی عجب بات ہے کہ صوفیاء کے کروڑوں عقیدت مندآج چند ہزار شدت پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔
ٹارگٹ کلنگ، خود کش حملے اور بم دھماکے نہ پہلے ہماری سرشت کا حصہ تھے اورنہ اب ہیں۔ ہمارے صوفیاء نے تو ہر مذہب اور مسلک وعقائد کے ماننے والوں کو اپنے برابر جگہ دی ۔یہی سبب ہے کہ آج بھی صوفیاء کی درگاہوں پر کیا ہندو،کیا مسلمان،کیا سکھ اور کیا عیسائی، سبھی نیازمندی کے پھول چڑھانے صبح شام حاضر ہوتے ہیں۔ہم نے جب سے ہوش سنبھالاہے، مختلف مسالک کے لوگوں کو ایک دوسرے کی تقریبات میں دل وجان سے شریک ہوتے دیکھا ہے۔ اپنے زمانہ طالب علمی میں ہم ہر کرسمس پر اپنے دوست ہیرس کے گھر جاتے،ہندو دوستوں کے ساتھ ہولی اور دیوالی مناتے۔جب کہ عیدین پر وہ ہمارے گھر آتے ، بلکہ اکثرعید گاہ کے باہر ہمارا انتظار کرتے۔وہ دن کیا ہوئے اور کیوں ختم ہوئے؟
آج تو گھر سے نکلتے ہوئے خوف آتا ہے،گھرکے اندر بھی خوف کے سائے لہراتے ہیں۔ہر آہٹ پر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ مائیں مصلے پر بیٹھی بچوں کے اسکول وکالج سے ان کی صحیح سلامت گھر تک واپسی کے لیے رب جلیل کی بارگاہ میں دعاء گو رہتی ہیں۔ پوری قوم نفسیاتی مریض ہوچکی ہے۔اگر لاہور دھماکوں سے لرز رہاہے،تو کراچی ٹارگٹ کلنگ سے چور چور ہے۔ پختونخواہ خود کش حملوں کی زد میں ہے،توبلوچستان خون تھوک رہا ہے۔خدایا،اس دھرتی کو کس کی نظر لگی ہے؟ کس نے اس کی رواداری اور محبت کے جذبے کو چھین لیا ہے؟
میں سوچتاہوں کہ کیا1977 سے پہلے کا وہ دور ہمیں مل سکے گا، جب ہم بلاامتیاز رنگ ونسل، مذہب وعقیدہ ایک دوسرے کے ساتھ ملاکرتے تھے۔ہم میں کب یہ شعور جاگے گا کہ ہم انفرادی معاملات کو اجتماعی بنانے اور اجتماعی خواص کو انفرادی سمجھنے کے سحر سے باہر نکل سکیں گے۔ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ فرد کا فرد سے تعلق نسلی ولسانی تفریق اور عقیدے کی قید سے آزاد ہوتا ہے۔دو افراد اپنی ذہنی ہم آہنگی کے سبب ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں، اس میں مذہب وعقیدہ اور نسلی ولسانی شناخت کہاں سے آگئی۔چائے کا ہوٹل اور رکشہ ٹیکسی چلانے والاپختون، کسی دکان پر سیلزمین یا فیکٹری میں کام کرنے والا اردو بولنے والا، پنجابی بس کنڈکٹر ،فش ہاربر پر محنت کرنے والے بلوچ اورپرچون کی دکان چلانے والے سندھی کو اس سے کیا غرض کہ اس کا گاہک کون ہے؟اس کا عقیدہ کیا ہے؟وہ کون سی زبان بولتا ہے؟وہ تو علیٰ الصبح اپنے بچوںکا پیٹ پالنے گھرسے نکلتا ہے۔اسے نہ سیاست سے غرض ہے نہ مسلک وعقیدے سے کوئی سروکار۔ وہ تو خدا پروردگار کے حضور سربسجود ہوتا ہے، توخلوص نیت سے اس کی رحمتوں کا طلب گار ہوتا ہے۔
اسے مارنے اور اس کے گھر کو اجاڑنے سے کسی کو کیا مل رہا ہے؟یہ سمجھ سے باہر ہے۔آئیے ہم سب مل کرصوفیاء کے درس محبت ویگانگت کو اپنے قلب وذہن میں تازہ کریں،کیونکہ اس دھرتی پر یہی روش چل سکتی ہے، گروہوں میں تقسیم کرنے والوں کا طرز حیات ہمارے لیے زہر قاتل ہے اور ہم اس کے نہ پہلے کبھی متحمل ہوسکے اور نہ ہی اب ہوسکیں گے۔شاہ لطیف، سچل سرمست،بابا بلھے شاہ، خواجہ غلام فرید،میاں محمد بخش،رحمان بابا، امیر خسرو اورکبیرداس ہماری سنہری تاریخ کا حصہ ہیں اور رہیں گے اور انھی سے ہمیں وجدان ،نروان اور قلبی سکون ملے گا۔