یونی پولر سے ملٹی پولر کی طرف
بلاشبہ روس جغرافیائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا ہے لیکن ہم اسے نظریاتی ٹوٹ پھوٹ اس لیے نہیں کہہ سکتے...
ISLAMABAD:
خمینی انقلاب کے پہلے روز سے امریکا ایران کا مخالف رہا، یہ مخالفت کس قدر شدید تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا نے ایران کو اپنی مرضی پر چلانے کے لیے فضائی حملے کیے اس جارحیت کے ذریعے ایران قابو میں نہ آیا تو اسے سر سے پیر تک اقتصادی پابندیوں میں عشروں تک جکڑ کر رکھا گیا۔ ایران پھر بھی امریکا کی فرمانبردار ریاست بننے پر تیار نہ ہوا۔ امریکا دنیا میں جمہوریت کا سب سے بڑا چیمپئن ہے اور پسماندہ ملکوں کو اپنی مرضی کے تابع بنانے کے لیے جارحیت کی ہر شکل اختیار کرنے پر تیار رہتا ہے امریکا کی اس ایران دشمنی کے جواب میں روس اور چین ایران کے حامی رہے اور بالواسطہ طور پر ایران کو دبانے کے ہر امریکی منصوبے کے آڑے آتے رہے۔
شام کے صدر بشارالاسد کو امریکا ناپسند کرتا ہے اور ہر قیمت پر اس کا تختہ الٹنا چاہتا ہے شام میں اسد حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے اس نے وہی حکمت عملی اپنائی جو اس نے روس کو افغانستان سے نکالنے کے لیے استعمال کی تھی ۔ افغانستان سے روس کو نکالنے کے لیے اس نے پاکستان سمیت کئی مسلم ملکوں کے انتہا پسندوں کو استعمال کیا۔ شام میں اسد حکومت کو گرانے کے لیے امریکا اس حد تک گر گیا کہ اس نے یہاں القاعدہ کے مجاہدین کو استعمال کیا اور اب تک کر رہا ہے لیکن بشار الاسد ڈٹا ہوا ہے اس لیے کہ اسے روس اور چین کی حمایت حاصل ہے۔ یوکرین کی ریاست کریمیا کے عوام امریکا کی حمایت یافتہ یوکرینی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور کریمیا کو روس میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔ کریمیا کی اسمبلی نے روس میں شمولیت کی قرارداد پاس کی اس قرارداد کو مزید جمہوری بنانے کے لیے کریمیا میں ریفرنڈم کرایا گیا ۔
97 فیصد عوام نے کریمیا کے روس میں شامل ہونے کی حمایت کی یوں کریمیا روس کی ریاست کا حصہ بن گیا۔ امریکا اس کے مغربی اتحادی اور نیٹو روس کی سخت مخالفت کرتے رہے اسے اس گستاخی کے سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دیتے رہے اس کی G-8 کی رکنیت معطل کردی اور اس پر اقتصادی پابندیاں لگانے کی دھمکیاں دیتے رہے۔ اعلیٰ سطحی کارندوں کے امریکا میں داخل ہونے پر پابندی لگا دی۔ ان ساری کارروائیوں کے باوجود روس کریمیا کے مسئلے پر ٹس سے مس نہ ہوا ، کریمیا روس کا حصہ بن گیا اور یوکرین میں بغاوت کا سلسلہ جاری ہے۔ روس کے حامی عوام نے کئی ریاستی اداروں پر قبضہ کرکے یوکرین کی حکومت کو مفلوج کردیا ہے اور یوکرین کی روس میں شمولیت کی تحریک چلا رہے ہیں۔
یہ سارے معاملات، ایران، شام، کریمیا، یوکرین میں امریکا کی پسپائی دیکھ کر عالمی مبصرین کہہ رہے ہیں کہ دنیا پر امریکا کی اجارہ داری ختم ہو رہی ہے اور دنیا یونی پولر سے ملٹی پولر بننے جا رہی ہے۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں روس کی جغرافیائی ٹوٹ پھوٹ کے بعد امریکا ساری دنیا کا جس طرح چوہدری بن گیا تھا اس کی اس چوہدراہٹ کا اندازہ عراق پر حملے سے کیا جاسکتا ہے۔ عراق پر حملے کے لیے امریکا جب پر تول رہا تھا ساری دنیا کے کروڑوں عوام عراق پر امریکا کی ممکنہ جارحیت کے خلاف سڑکوں پر آگئے تھے لیکن امریکا نے دنیا کی رائے عامہ کو نظر انداز کرتے ہوئے عراق پر حملہ کردیا۔ یہ یونی پولر دنیا کا ایک شاہکار تھا، اب ایران سے کریمیا اور یوکرین تک امریکا اور اس کے اتحادیوں کی ناکامی بلاشبہ یونی پولر دنیا کے خاتمے اور ملٹی پولر دنیا کی تشکیل کی طرف پیش رفت کہلاسکتی ہے لیکن۔۔۔۔؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روس کی ٹوٹ پھوٹ سے پہلے دنیا کی تقسیم نظریاتی تھی سوشلسٹ بلاک سوشلزم کا پرچم تھامے کھڑا تھا اور مغربی بلاک سرمایہ دارانہ نظام کا علم اٹھائے کھڑا تھا۔ 1917 کے روسی انقلاب کے بعد جب دوسری عالمی جنگ سے دنیا کو نجات ملی تو دنیا بھر کے عوام جو سرمایہ دارانہ طبقاتی استحصال سے تنگ آئے ہوئے تھے سوشلزم کی طرف دوڑ پڑے اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کا 1/3 حصہ سوشلزم کے سائے تلے آگیا۔ لیکن دوسری عالمی جنگ سے فراغت کے بعد امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ایجنڈے کا پہلا آیٹم سوشلسٹ بلاک کو نشانہ بنانا طے ہوا اور سرد جنگ کو اسٹار وار تک پھیلاکر امریکا نے روس کی اقتصادیات کا بیڑہ غرق کردیا یوں وہ سوشلسٹ بلاک کو ختم کرنے میں کامیاب ہوا اور سوشلسٹ بلاک بہ جبر منڈی کی معیشت کی راہ پر چل پڑا۔
روس سوشلسٹ بلاک کا سربراہ تھا، روس کے خاتمے کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی ہے کہ سابق سوشلسٹ ملکوں نے سرمایہ دارانہ نظام کو قبول کرلیا ہے۔ اس معنوی تبدیلی کے بعد اگر روس ''سوویت روس'' بنتا ہے اور دنیا یونی پولر سے ملٹی پولر بنتی ہے تو اس کا دنیا کے 7 ارب کے لگ بھگ انسانوں کو کیا فائدہ ہوسکتا ہے کیونکہ اب دنیا کی تقسیم نہ نظریاتی رہی نہ سرمایہ دارانہ استحصال کے خاتمے کی کوئی صورت نظر آرہی ہے۔ بلاشبہ اگر دنیا یونی پولر سے ملٹی پولر بنتی ہے تو دنیا کے فیصلے کرنے کا اختیار امریکا کے تنہا ہاتھوں سے نکل کر پنچ کے ہاتھوں میں آجائے گا لیکن یہ پنچ جب سرمایہ دارانہ نظام کے فریم ورک میں رہتے ہوئے ہی فیصلے کرے گی تو طبقاتی استحصال کا خاتمہ کیونکر ممکن ہوگا؟
یہ وہ سوال ہے جو آج دنیا کے ترقی پسند دانشوروں مفکروں کے سامنے کھڑا ہوا ہے۔ کیونکہ ملٹی پولر دنیا کے ملک خود استحصالی نظام کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں ان کے درمیان طبقاتی استحصال کی کوئی لڑائی نہیں ہوگی بلکہ لینڈ گریبنگ اور وسائل کی چھین جھپٹ کی لڑائی ہوگی۔ کہا جاتا ہے کہ عالمی جنگیں دنیا کی منڈیوں پر قبضے کے لیے لڑی گئیں اگر اب دنیا کسی عالمی جنگ کی طرف جاتی ہے تو اس کے محرکات کیا ہوں گے؟ جب کہ ایٹمی ہتھیاروں کی بھرمار کی وجہ سے ان ممکنہ جنگوں کے ایٹمی جنگوں میں بدلنے کے امکانات روشن ہیں۔
بلاشبہ روس جغرافیائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا ہے لیکن ہم اسے نظریاتی ٹوٹ پھوٹ اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ ماضی کے دو بلاکوں میں سے ایک بلاک جس نظریے کا علمبردار تھا وہ نظریہ عملاً زندہ ہے اور اس وقت تک زندہ رہے گا جب تک سرمایہ دارانہ استحصال اور طبقاتی نظام موجود ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام نے ساری دنیا میں اپنی جڑیں مضبوط کرلی ہیں لیکن اس استحصالی نظام کے خلاف دنیا بھر کے عوام میں آج جو نفرت پائی جاتی ہے وہ بیسویں صدی میں پائی جانے والی نفرت سے کئی گنا زیادہ ہے کیونکہ گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ طبقاتی استحصال میں اضافہ ہو رہا ہے اور امیر اور غریب کے درمیان فاصلے اسی تناسب سے بڑھ رہے ہیں۔
مارکس اور اینجلز عشروں تک سرمایہ دارانہ نظام کے استحصالی میکنزم کا گہرائی سے مطالعہ کرتے رہے وہ انسانوں کی 2/98 میں تقسیم اور غربت اور امارت کے غیر منطقی نظام کو انسانوں کی بھاری اکثریت پر ایک ایسا ظلم سمجھتے تھے۔ جسے روکنا ضروری تھا، ان اکابرین نے یہ دیکھا کہ طبقاتی استحصال کا سب سے بڑا سبب چند ہاتھوں میں قومی دولت کا ارتکاز ہے جسے ختم کیے بغیر طبقاتی استحصال کو روکنا ممکن نہیں۔ سو انھوں نے نجی ملکیت پر پابندی کا اصول وضع کیا۔
نجی ملکیت پر پابندی کی وجہ سے ارتکاز زر کے تمام راستے بند ہوگئے، لوٹ مار کا دوسرا ذریعہ منافع خوری تھا اس لعنت کو ختم کرنے کے لیے پیداوار برائے منافعے کے اصول کی جگہ پیداوار برائے ضرورت کا اصول وضع کیا جس کی وجہ منافع خوری کا منہ بند ہوگیا۔ جب قومی دولت کا مٹھی بھر ہاتھوں میں ارتکاز ختم ہوا تو قومی دولت قوم کی اجتماعی ترقی میں استعمال ہونے لگی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس صرف 50 سال کے اندر اندر دنیا کی دوسری سپر پاور بن گیا۔ اب سرمایہ داروں کو احساس ہوا کہ اگر سوشلزم کا راستہ نہ روکا گیا تو یہ نظام پوری دنیا پر چھا جائے گا یوں ایلیٹ کی لوٹ مار کے سارے راستے بند ہوجائیں گے۔
سوشلزم کو ناکام بنانے کے لیے نئے نئے حربے ایجاد کیے گئے، کہا گیا کہ سوشلزم انسان کے بنیادی حقوق کی نفی کرتا ہے۔ انسانوں کی آزادی چھین لیتا ہے۔ سوشلزم دین کا دشمن نظام ہے مارکس ایک یہودی ہے وغیرہ وغیرہ۔ سرمایہ پرستوں نے ان ہتھیاروں سے سوشلسٹ نظام کو ناکام تو بنادیا لیکن سرمایہ دارانہ استحصال سے عاجز آئی ہوئی دنیا ایک بہتر اور منصفانہ نظام چاہتی ہے۔ اور کوئی منصفانہ نظام ارتکاز دولت اور منافع خوری کو ختم کیے بغیر قائم نہیں ہوسکتا۔ کوئی ایماندار مفکر دانشور فلسفی ان آفاقی اصولوں کی نفی نہیں کرسکتا اگر معاشی انصاف کا کوئی متبادل ہے تو پھر اسے سامنے لایا جانا چاہیے اگر سرمایہ دارانہ نظام کا کوئی بہتر متبادل نہیں ہے تو سوشلسٹ معیشت کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں۔ ہاں اس میں آج کے تقاضوں کے مطابق جزوی تبدیلیاں کی جاسکتی ہیں لیکن ارتکاز دولت اور منافع خوری کا خاتمہ ہر حال میں لازمی اور ناگزیر ہے۔ خواہ دنیا یونی پولر ہو یا ملٹی پولر عوام ہر صورت میں قوت کا سرچشمہ رہیں گے۔