ہمارے قابلِ فخر شان چچا

اردو زبان وادب کی عظیم شخصیت شان الحق حقی کے بارے میں ایک دل چسپ تحریر

اردو زبان وادب کی عظیم شخصیت شان الحق حقی کے بارے میں ایک دل چسپ تحریر ۔ فوٹو : فائل

شان الحق حقّی صاحب کا نام ادبی حلقوں کے علاوہ عوام میں ان کی 'آکسفورڈ انگیزی اردو لغت،' جو 'کانسائز آکسفورڈ ڈکشنری' کا ترجمہ ہے، کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ حقّی صاحب نے یہ لغت (افتتاح 2003 ) تیرہ سال میں مکمل کی تھی۔

لغات میں حقّی صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ اردو بورڈ کی 'لغتِ کبیر' کے بڑے حصّے کو مرتب کرنا ہے۔

حقّی صاحب نے اردو لغتِ کبیر پر 18 سال کام کیا؛ جب انہوں نے کام شروع کیا ہوگا تو وہ کوئی چالیس برس کے ہوں گے؛ اور وہ اس پر 1976 تک یعنی سبک دوشی کی 60 کی عمر تک کام کیا۔ وہ سیکریٹری کی حیثیت میں کام کرتے تھے؛ اور تنخواہ نہیں ملتی تھی۔ مشہور کالم نویس نصراللّہ خاں لکھتے ہیں، حقّی صاحب صرف دو سو روپے کار الاؤنس پر کام کرتے تھے۔

اتوار کو چھٹّی کے دن بھی اردو بورڈ کے دفتر جاکر لغت کا کام کرتے تھے۔ اس بات کی توثیق جناب عقیل عباس بلگرامی، جو خود بھی اس لغت کے مدیر اعلیٰ رہے ہیں، نے بھی کی۔ عقیل عباسی کہتے ہیں کہ، وہ اردو بورڈ کے لیے 'تاریک دن' تھا جس دن حقّی صاحب نے بورڈ کو چھوڑا ہے۔

عقیل صاحب اور شایان حقّی نے بتایا کہ، حقّی صاحب پر تین مقالے لکھے جاچکے اور ان پر دو پی ایچ ڈی بھی ہوئیں: ہیں ایک میاں عاطف بٹ، لاہور، 'حقّی صاحب بطور لغت نویس،' دوسرا ڈ ا کٹر عرفان شاہ، کراچی، 'حقّی صاحب شخصیت اور فن۔'

حقّی صاحب 15 ستمبر 1917 کو دہلی میں پیدا ہوئے، اور 87 سال کی عمر میں ٹورنٹو ، کینیڈا، میں 11 اکتوبر، 2005، کو ان کی رحلت ہوئی، حق مغفرت فرمائے۔

یوں تو ان کی صحت اچھی رہی البتہ عمرِ آخر پھیپھڑوں کا سرطان ہو گیا تھا۔ ان کے بیٹے عدنان بتاتے ہیں کسی نے پوچھا کہ، "آپ کی صحت کا راز کیا ہے؟" تو حقّی صاحب نے جواب دیا کہ، "چودہ برس کی عمر سے سگریٹ پی رہا ہوں، نہ کبھی کوئی باقاعدہ ورزش کی، نہ کھانے پینے سونے اُٹھنے کے اوقات میں کوئی پابندی رکھی، غرض یہ کہ حفظانِ صحت کے تمام اُصولوں کی خلاف ورزی کی اور اُس کے ساتھ ساتھ بے تحاشا کام کیا۔

یہاں تک کہ ہفتے اور اتوار کو بھی صرف کام ہی کیا۔ اب آپ ہی بتائیے کہ میری اچھی صحت کا کیا راز ہوسکتا ہے؟" یعنی یہ گتھی ہے۔ عدنان سمجھتے ہیں کہ، حقّی صاحب کی صحت کا راز ان کا اپنی پسند کا کام کرنے میں تھا۔

حقّی صاحب رومن اردو کے حق میں نہیں تھے، لیکن حقیقت پسند ہونے کی وجہ سے اس پر کام کیے جانے پر ضرور زور دیتے تھے۔ انگریزی کے بارے میں ان کا یہ شعر روشنی ڈالتا ہے:

وائے طلسمِ نقشِ فرنگ

بھول گیا اردو بھی میں

حقّی صاحب کی غزلیں مہدی حسن، ناہید اختر، ایم کلیم، مہناز، اخلاق احمد، رجب علی، استاد رئیس، نہال عبداللہ فاور اور ٹینا ثانی نے گائی ہیں۔ انہوں نے ایک فلم 'لاکھوں فسانے' کے لیے ایک گانا لکھا تھا، جس کا مکھڑا تھا 'کیا کوئی سمجھے کیا کوئی جانے؛ دنیا میں ایسے لاکھ فسانے۔'

حقّی صاحب نے اردو اور دیوناگری ٹائپ کرنا کینیڈا میں سیکھا تھا۔ ان کی عمر کوئی 83 رہی ہوگی۔

حقّی صاحب کے والد احتشام الدین حقّی، وفات 1945 ، کو نظام حیدرآباد، دکن، نے اپنی 'لغتِ کبیر' کا مدیر چنا تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ، پسر بھی صاحبِ میراثِ پدر کے مصادق لغت نویسی میں کامل رہا۔ ان کے پرنانا ڈپٹی نذیر احمد، وفات 3 مئی، 1912، کسی تعارف کے محتاج نہیں۔


حقّی صاحب علی گڑھ سے بی اے تھے، اور سینٹ اسٹیفینسن کالج، دہلی، سے انگریزی ادب میں ایم اے تھے؛ 1955 میں لندن میں ذرائع ابلاغ کا کورس کیا تھا۔ عملی زندگی میں ادب اوڑھنا بچھونا رہا۔

حقّی صاحب میرے والد کے عزیز دوستوں میں سے تھے۔ انہوں نے میرے والد امین الاسلام زبیری صاحب کا ذکر اپنی سوانح میں کیا ہے، اور ان کی قبر کا کتبہ بھی انہوں نے لکھا، جو کچھ یوں تھا: روئے امیں زیرِ زمین، روحِ امیں بالا نشیں۔

ہم نے جب آنکھ کھولی تب سے حقّی صاحب کو دیکھا۔ ہم بہن بھائی انہیں شان چچا کہتے تھے۔ وہ شفیق تھے۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ، آپ نے انہیں کیسا پایا؟ تو میرا جواب یہی ہوگا کہ، میں نے انہیں بہت زیادہ وضع دار پایا۔ یعنی جیسے وہ پہلے دن ملے تھے ہمیشہ ویسے ہی ملتے رہے۔

یہاں میں سلمیٰ خالہ کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ سلمیٰ خالہ کی ہماری والدہ سے دوستی بہناپے کے درجے کو پہنچی ہوئی تھی۔ سلمیٰ خالہ سبک دوش ہونے تک مدرّسہ رہیں۔ انہوں نے بی اے کوئین میری کالج، دہلی، سے کیا تھا اور علی گڑھ سے ایم اے اردو، اور اس کے بعد علی گڑھ یونیورسٹی میں ہی پڑھانے لگیں تھیں۔ پھر بٹوارا ہو گیا اور کراچی آ گئیں۔

کراچی میں وہ گورنمنٹ کالج فار ومن، فریئر روڈ، میں لیکچرار ہو گئیں اور سبک دوشی کے کچھ عرصے بعد حقّی صاحب اور وہ اپنے سب سے چھوٹے بیٹے عدنان کے ہاں مانٹریال، کینیڈا منتقل ہوگئے تھے، آخری ایّام کچھ صحت کے مسائل کے ساتھ گزرے، ان کا انتقال، پہلی اکتوبر 2003، کو ہوا۔ انا للہ وانا اللّہ راجعون۔ حقّی صاحب نے تاریخ خاتونِ نور سیما لکھی جو ایک بیت میں کچھ ایسے تھی:

بانوئے پاک باطن از دودمانِ حقّی * سلمائے حور سیرت، خاتونِ نور سیما

کراچی میں حقّی خاندان تین جگہوں پر رہا، پہلے بیہائینڈ جیکب لائن، پھر ناظم آباد نمبر چار میں اپنے نئے مکان میں، اور آخر میں ڈیفنس سوسائٹی میں۔ اس کے بعد کینیڈا۔ وہیں دونوں میاں بیوی کا انتقال ہوا۔ حق مغفرت کرے۔

ان کے پانچ بیٹے سلمان، عمران، عرفان، شایان اور عدنان اور ایک بیٹی تزئین تھیں جنہیں زیبا بھی کہا جاتا تھا۔ تزئین کا انتقال ہوچکا ہے، اور بیٹے، ماشااللّہ اچھی صحتوں کے ساتھ، تین کینیڈا میں ہیں، شایان برطانیہ میں، اور سب سے بڑے سلمان کراچی میں ہیں۔ ان کے 5 پوتے، 4 پوتیاں، 3 نواسے، 1 نواسی، 2 پر نواسے اور 1 پر نواسی ہے۔ دعا ہے کہ چمن ان کا یوں ہی ہرا بھرا رہے۔

حقّی صاحب اور میرے والد لڑکپن کے دوست تھے۔ میری پیدائیش پر میرے والد نے حقّی صاحب سے نام کا کہا ، انہوں نے یمین بتایا۔ مجھ سے چھوٹے بھائی سیف نے کئی سال سلمان بھائی کے ساتھ این اے بخاری اشتہاری کمپنی میں کام کیا۔

میرے بڑے بھائی انیس دس سال تک حقّی صاحب کے چھوٹے بیٹے عدنان کے ساتھ مانٹریال، میں پرانی کاروں کا کاروبار کرتے رہے۔ میرے ایک دوست نے انگریزی کا اخبار 'دی فائنینس ڈیلی' نکالا تو مجھے ایڈیٹر لیا۔ اس کا اشتہار شان چچا نے بنا یا تھا، اور انہوں نے یہ جملہ دیا تھا، 'ریڈ اِٹ، یو نیڈ اِٹ!'عجب اتفاقات رہے۔ اب بھی ہم سب ایک واٹس ایپ گروپ میں ہیں۔

شایان بتاتے ہیںکہ شان چچا ستمبر 1977 میں ٹی وی سے سبک دوش ہو کر اپنے دوست سلطان محمود صاحب کی کمپنی یونائیٹڈ ایڈورٹائزنگ میں بحیثیت کریئٹِو ڈائریکٹر کام کرنے لگے۔ یونائیٹڈ بدحال تھی شان چچا کے آتے ہی اُس میں بہتری آئی۔ اسٹیٹ لائف انشورنس کے لیے شان چچا کے جِنگل، 'اے خدا میرے ابو سلامت رہیں' پر یونائیٹڈ کو 12 کروڑ روپے کا کام مل گیا۔

حقّی صاحب اپنی بھول جانے کی وجہ سے مشہور تھے۔ میرے بھائی سیف کہتے ہیں، وہ ایک بار ہمارے امّی بابا کو لے کر جا رہے تھے کہ دیکھا کہ ایک کار کی ڈگی پر ایک بریف کیس چلا جا رہا ہے۔ بابا نے کہا، ہو نہ ہو یہ شان صاحب ہیں۔ قریب جا کر دیکھا تو وہی تھے۔

شان چچا پی ٹی وی سیلز آفس، شفیع کورٹس، میں کلب روڈ پر کراچی جیمخانہ کے عقب میں کام کرتے تھے۔ یہ امریکن ایمبیسی، عبداللّہ ہارون روڈ، جہاں میرے والد چیف ایڈیٹر یو ایس آئی ایس تھے، سے بہت قریب تھا۔ وہ ایک بار جو وہاں گئے تو دیکھا کہ شان چچا کچھ ڈھونڈ رہے ہیں۔ میرے والد کے پوچھنے پر بتایا کہ چپراسی والی گھنٹی اِدھر اُدھر ہوگئی ہے اسے بلانا ہے کہ ڈھونڈ دے۔

حقّی صاحب نے اپنی عملی زندگی کا آغاز حکومتِ ہندوستان کے لیے بحیثیت مترجم اور براڈکاسٹ مانیٹر کے کیا تھا۔ اگست1947 میں پاکستان آگئے تھے۔ پاکستان کراچی میں وہ محکمۂ اطلاعات و نشریات میں ڈپٹی ڈائریکٹر محکمۂ اشتہارات و مطبوعات و فلم سازی حکومت پاکستان رہے۔ ملازمت کے آخری دس سال نیابت پر پی ٹی وی میں جنرل مینیجر سیلز رہے، پھر ڈائریکٹر سیلز کی ترقّی کو منع کرکے جنرل مینیجر سیلز ہی رہنا پسند کیا۔ سبک دوش ہو کر یونائیٹڈ ایڈورٹائزر کے ساتھ کام شروع کیا۔

حقّی صاحب کی تصنیفات ساٹھ سے زیادہ ہیں چند یہ ہیں: 'انتخابِ ظفر'، 'انجان راہی' (ترجمہ امریکی ناول)، 'تارِ پیراہن' (نظیں) 'دل کی زبان'(نظیں) ، پھول کھلے ہیں رنگ برنگے'(نظیں)، 'نکتۂ راز' (تنقیدی مقالات)، 'فرہنگِ تلفظ (لغت)، 'آپس کی باتیں'، 'افسانہ در افسانہ' (خود نوشت سوانح)، 'حرفِ دل رس'، 'آکسفورڈ انگریزی اردو لغت'، اور 'شاخسانے'۔ شاعری کی تقریباً ہر صنف ان کے سہل لکھے کے نمونے یوٹیوب پر خوب موجود ہیں۔ ضیاء محی الدین کا پڑھا ہوا 'ایک لفظ درد' حقّی صاحب کی حسِ مزاح کا پتا دیتا ہے۔ بچوں کے لیے نظمیں اور پہیلیاں لکھیں۔ وہ 1950سے 1968 تک 'ماہِ نو' کے مدیر اعلیٰ رہے۔
Load Next Story