فلسطینیوں پر وحشیانہ بمباری‘ اقوام عالم کا رویہ

اسرائیلی بمباری میں فلسطینی اسلامک جہاد موومنٹ کے کئی کمانڈرز بھی شہید ہوئے ہیں

اسرائیلی بمباری میں فلسطینی اسلامک جہاد موومنٹ کے کئی کمانڈرز بھی شہید ہوئے ہیں۔ فوٹو: رائٹرز

اسرائیلی فوج نے غزہ پر وحشیانہ بمباری کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، گزشتہ روز بھی مزید چھ فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔

خلیجی میڈیا کے مطابق اسرائیل کی جانب سے غزہ پر فضائی حملے کیے گئے جس کے نتیجے میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد اٹھائیس ہوگئی ہے جن میں پانچ خواتین اور پانچ بچے بھی شامل ہیں جب کہ حملوں میں 70 سے زائد فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔

اسرائیلی بمباری میں فلسطینی اسلامک جہاد موومنٹ کے کئی کمانڈرز بھی شہید ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے فلسطین میں شہریوں کی ہلاکتوں کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے اسرائیلی حملے فوری روکنے کی اپیل کی ہے۔

فلسطین میں اسرائیلی فوج کی جاری درندگی کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے قبل بھی اسرائیلی فوج نہتے فلسطینیوں کو کچلنے کے لیے سرگرم رہی ہے۔

پوری دنیا سے یہودی اکٹھے کر کے فلسطین میں بسانے اور فلسطینیوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے جرم میں امریکا برابرکا شریک ہے۔ یورپی ممالک میں جانوروں کے حقوق پر تو بہت بات ہوتی ہے لیکن فلسطینیوں کی داد رسی کر نے والا کوئی نہیں۔

اسرائیل چاہے بم برسائے، ناکہ بندی کرے، فلسطینیوں کی نسل کشی کرے، ان کا معاشی قتل کر ے، دیوار کی تعمیر کرے، مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کرے، اسے کوئی روکنے والا ہے نہ باز پرس کرنے والا بلکہ اسرائیل کو خطے کا پولیس مین بنانا اور پھر اس کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد کا حصول عالمی قوتوں کا پسندیدہ فارمولہ بن چکا ہے۔

اسی لیے ہزاروں جانیں گنوانے اور باعزت و پر سکون زندگی کے لیے ترستے فلسطینی دنیا کی آنکھوں سے اوجھل ہیں۔

کیا غزہ میں بہنے والا بچوں کا لہو کسی دوسرے رنگ کا ہے؟ کیا فلسطینی مظلوموں کی چیخیں عالمی برادری کے دل دہلانے کے لیے ناکافی ہیں؟ کیا بے گھر فلسطینیوں کی تکالیف سے عالمی ضمیر پر کوئی اثر نہیں پڑا؟ سوالات تو اور بھی بہت سے ہیں لیکن جن سوالات کا پہلے سے ہی علم ہو ان کا کیا پوچھنا۔ آج کا اسرائیل صرف فلسطینی سر زمین پر ہی قابض نہیں بلکہ اس کی ریشہ دوانیوں اور عالمی طاقتوں کی ہلا شیری کی وجہ سے ہمسایہ ممالک شام، اردن، لبنان سمیت پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہے۔

اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل پر پانچ مستقل ممبران کا غلبہ ہے اور یہ اُس وقت تک کوئی ایکشن نہیں لے سکتی جب تک پانچ مستقل ممبران اس پر تیار نہ ہوں اور ہر کوئی جانتا ہے کہ اسرائیل کے خلاف ایکشن کے لیے امریکا، فرانس اور برطانیہ تیار نہیں ہیں، وہ زیادہ سے زیادہ سیز فائر کا کہہ دیتے ہیں۔

سیز فائر کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر فقط سیزفائرکافی نہیں ہے اور اقوامِ متحدہ اسرائیل سے اپنے احکامات پر زبردستی عمل درآمد نہیں کروا سکتی جب تک امریکا، برطانیہ، فرانس، چین اور روس اس پر تیار نہ ہوں۔

آج تک اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جاسکی ہے ۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ مزید ممالک جن میں کچھ اسلامی ممالک بھی شامل ہیں، نے ناجائز ریاست کو جائز تسلیم کر لیا بلکہ اب تو امریکا سمیت کئی ممالک بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بھی تسلیم کر چکے ہیں۔ حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ اسرائیل جب چاہتا ہے نام نہاد فلسطینی شورش کا بہانہ بنا کر بچے کھچے فلسطین کو بھی تہس نہس کر دیتا ہے۔

اسرائیل کے ظلم و ستم پوری دنیا پر عیاں ہیں، عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں فلسطین پر ظلم و بربریت پر خاموش ہیں۔ انسانی حقوق، حریت، فکری آزادی اور قوموں کا حق خود ارادیت کے موجودہ دور میں دنیا میں فلسطینی اور کشمیری ایسی بد قسمت قومیں ہیں جو غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہیں۔


خصوصاً فلسطینی خطہ نما عرب میں عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے 7دہائیوں سے بھی زائد عرصہ سے اپنی ہی سر زمین میں اجنبی بنا دیے گئے ہیں۔ ان سے ان کی ریاست ہی نہیں بلکہ باعزت اور پر وقار زندگی کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔

فلسطین کا مسئلہ اقوام متحدہ کے طویل ترین امن مشن میں شامل ہے۔ 24 اکتوبر 1945کو جب اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا اس وقت سے آج تک مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی تمام تر کوششوں کے باوجود حل نہ ہو سکے اور دونوں خطوں میں اتنے برسوں سے امن کا قیام بھی عمل میں نہ لایا جا سکا۔

دونوں خطوں میں نہ صرف انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی جاری ہے بلکہ ان خطوں میں نام نہاد عالمی طاقتوں اور لیڈروں کی مسائل کے حل میں کسی قسم کی دلچسپی نظر نہیں آئی۔

اقوام متحدہ جو عالمی سطح پر قیام امن کے حوالے سے ایک ذمے دار ادارہ تصور کیا جاتاہے، بھی دونوں خطوں میں امن قائم کرنے میں ناکام رہا۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ دونوں خطوں کے حکمرانوں کی ایک ہی سوچ ہے اور یہ سوچ اگر ایک طرف اسلام دشمنی پر مبنی ہے تو دوسری جانب اس کے پیچھے مسلمانوں کو کچل کر رکھ دینے کا مشن بھی شامل ہے۔

دنیا کے کسی ملک میں زلزلہ آجائے یا سیلاب یا پھر کوئی اور قدرتی آفت، عالمی برادری مل کر اس کا مقابلہ کرتی نظر آتی ہے۔ پولیو سمیت 5خطر ناک بیماریوں کا خاتمہ ہو یا دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ، ہر جگہ تعاون قابل دید ہے لیکن مظلوم فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت پر انسانی حقوق کے نام نہاد چیمپیئن ممالک کی اکثریت نے اسرائیل جیسی ناجائز ریاست کو تسلیم کر رکھا ہے۔

اسرائیل کو تسلیم نہ کر نے والے ممالک کی واضح اکثریت مسلم ممالک کی ہے، یوں اگر دیکھا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ فلسطین انسانی نہیں صرف عالم اسلام کا ہی مسئلہ ہے۔ مشرقی تیمور میں آزادی کے مطالبے کی عالمی برادری نے جس سرعت کے ساتھ حمایت کی کاش ایسی پھرتی فلسطین کے نہتے عوام پر اسرائیلی مظالم کے جواب میں بھی نظر آتی۔

اِسلامی دُنیا کو ہم دو حصوں میں دیکھ سکتے ہیں، ایک او آئی سی اور دوسرا اِسلامی ممالک کو انفرادی حیثیت میں، جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ او آئی سی ایک موثر ادارہ نہیں ہے ، کیونکہ اس کے پاس نہ تو فوج ہے اور نہ ہی وسائل ہیں، جب تک او آئی سی کے ممبر ممالک اسے ایک موثر ادارہ نہیں بناتے، اس سے زیادہ اقدامات کی توقع نہیں کی جاسکتی اور اسے اپنے محدود اختیارات کو ہی استعمال کرنا ہے البتہ انفرادی طور پر مسلم ممالک کا کردار مایوس کن رہا ہے، ان ممالک نے بے باک انداز میں فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر آواز نہیں اٹھائی ہے۔

پاکستان نے ہمیشہ فلسطینیوں کے لیے آواز بلند کی ہے اور آیندہ بھی کرتا رہے گا، سیکیورٹی کونسل یا جہاں بھی یہ معاملہ اٹھایا گیا ہے پاکستان نے ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا ہے، بیت المقدس جو کہ مسلمانوں کا قبلہ اوّل بھی ہے۔

اس کے جغرافیہ اور ثقافت کو تبدیل ہونے سے بچانے کے لیے پاکستان نے بھر پور جدوجہد کی اور اقوامِ متحدہ سے قرارداد پاس کروائی جس کا مقصد یروشلم کے جغرافیہ ، تہذیب اور عرب ثقافت کو تبدیل ہونے سے بچانا تھا پاکستان کے لیے ابھی مزید بہت کام کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ ہمیں فلسطینیوں کو ریلیف فراہم کرنے اور اسرائیل پر مظالم بند کروانے کے لیے ڈالے جانے والے دباؤ کو بڑھانے کے لیے اپنے سفارتی روابط استعمال کرنے چاہئیں۔

اسرائیل پر پاکستانی موقف بڑا واضح ہے جس کے مطابق فلسطین مسلمانوں کی ریاست ہے اور اس پر نام نہاد اسرائیل کی کوئی حیثیت نہیں۔ پاکستان میں سول سوسائٹی اور دیگر تمام اداروں اور تنظیموں کی جانب سے فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کی ہمیشہ پر زور انداز میں مذمت کی گئی اور اقوام متحدہ کے ذریعے عالمی برادری پر واضح کیا گیا کہ اسرائیلی اقدام کے نتائج انتہائی خطرناک اور بے نتیجہ ثابت ہوں گے اور نہ صرف مسلم امہ بلکہ عالمی برادری بھی فلسطین کے ساتھ کھڑی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اسرائیل کے حوالے سے عالم اسلام کو واضح مؤقف اپنانے کے ساتھ ساتھ اسرائیلی جارحیت کو دنیا کے کونے کونے تک اس انداز سے پیش کرنا ہوگا کہ اسرائیل آیندہ ایسا قدم اٹھانے کی جرات نہ کر سکے۔ دنیا کے سامنے ایک پر امن اور منصفانہ حل موجود ہے کہ فلسطینی عوام کو فلسطین واپس لایا جائے اور فلسطین کے باشندے جن میں یہودی، عیسائی اور مسلمان سب شامل ہیں ایک ریفرنڈم کے ذریعہ فلسطین کی قسمت اور بعد میں آنے والے باشندوں کی قسمت کا فیصلہ کریں۔

عالمی برادری اگر مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل کرنے میں سنجیدہ ہے تو اس سے زیادہ پر امن اور منصفانہ حل نہیں ہو سکتا۔ فلسطین و کشمیر کے عوام پر ہونے والے ظلم و ستم پر عالمی قوتیں خاموش ہیں، سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر فلسطین و کشمیر کے مسئلے پر آواز بلند کرنا ہوگی۔ ہمیں آج فلسطینی کاز کے لیے حکومتی سطح پر اسی موقف کی ضرورت ہے جو بانی پاکستان قائداعظم نے اپنایا تھا۔
Load Next Story