جیالوں کی بیاض

جیالا پارٹی اور قومی مفاد میں بے لاگ مشورہ دیتا ہے، قطع نظر اس کے کہ اس کی بات مفاد پرستوں کو کتنی بری لگے گی

shahid.hamid@express.com.pk

لفظ ''جیالا'' ملک اور ملکی سیاست کے لیے اجنبی نہیں اور نہ ہی عوام اس لفظ سے ناآشنا ہیں، یہ لفظ دہائیوں سے ملکی سیاست میں استعمال ہو رہا ہے اور جب بھی کسی کے لیے یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس کے ذہن میں فوری طور پر پیپلزپارٹی اور اس کے ورکروں کی شکلیں گھوم جاتی ہیں لیکن یہ لفظ اتنا زیادہ استعمال ہوا کہ اب کسی بھی شعبہ میں کوئی شخص اپنے کام سے مخلص پایا جائے تو فوری طور پر اسے جیالے کا لقب مل جاتا ہے لیکن شاید ہی کسی کو معلوم ہو کہ اس لفظ جیالے کا مطلب کیا ہے اور یہ لفظ پیپلزپارٹی کے ورکروں کے لیے کیوں استعمال کیا جاتا ہے؟ـ اپنا بھی یہی حال ہے۔

اس لفظ جیالے کا مطلب مجھے بھی معلوم نہیں لیکن اچانک ایک کتاب استاد محترم کی جانب سے عنایت کی گئی جس پر مزید بات تو آگے کروں گا لیکن یہاں میں آپ یہ بتاؤں کہ مظہر حسین صاحب نے بڑی وضاحت کے ساتھ اس لفظ جیالے کو بیان کیا ہے۔

مظہر صاحب کہتے ہیںـ ''پاکستان کی سیاست میں جیالے کی اصطلاح صرف اور صرف پیپلزپارٹی کے (Activist ) کے لیے استعمال ہوتی ہے، دوست ''جیالے'' کا لفظ محبت اور مخالفین طنزاً استعمال کرتے ہیں، یہ لفظ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے جانثاروں اور نظریاتی ساتھیوں کے لیے استعمال ہوتا تھا، ''جیالا'' پیپلز پارٹی کا وہ باشعور نمایندہ ہے جو عوامی نفسیات، وقت اور حالات کو سمجھتے ہوئے تجزیئے اور بروقت فیصلے کرتا ہے۔

ورکر یا کارکن اور جیالے میں فرق صرف اتنا ہے کہ ورکر یا کارکن پارٹی ایڈوائس کا محتاج ہوتا ہے لیکن جیالا من موجی ہوتا ہے اور موقع کی مناسبت سے کر گزرتا ہے، وہ قومی اور پارٹی مفاد میں فیصلے اور عمل کرتا ہے، اس کا نہ تو کوئی ذاتی مفاد ہوتا ہے، نہ تعریف وتحسین کی طلب، اس کی سوچ انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہوتی ہے، وہ اپنی ذات کا نہیں بلکہ اجتماعی مفاد کا قائل ہوتا ہے۔

جیالا پارٹی اور قومی مفاد میں بے لاگ مشورہ دیتا ہے، قطع نظر اس کے کہ اس کی بات مفاد پرستوں کو کتنی بری لگے گی یہی وجہ ہے کہ پارٹی کے اندر اور باہر اکثر اسے مخالفت کا سامنا رہتا ہے، زیر تذکرہ جیالوں کا تعلق ذوالفقار علی بھٹو کے قافلے سے تھا، یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے پاکستان پیپلزپارٹی اور چیئرمین پیپلزپارٹی ذوالفقار علی بھٹو سے عشق کیا''۔ مظہر حسین صاحب نے یہاں تک تو جیالے کی تعریف کی ہے جس کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ ''شہید ذوالفقار علی بھٹو ایک عظیم جیالے تھے جنھوں نے جیالوں کو درس دیا

سر داد نہ داد در دست یزید

جس خاک میں مل کر خاک ہوئے وہ سرمہ چشم خلق بنی


جس خارپہ ہم نے خون چھڑکا ہمرنگ گل طناز ہوئی

لو وصل کی ساعت آپہنچی پھر حکم حضوری پر ہم نے

آنکھوں کے دریچے بند کیے اور سینے کا درباز کیا

شاید ہی ہمیں کبھی لفظ جیالے کی تعریف اور مطلب معلوم ہو پاتا اگر استاد محترم مظہر حسین صاحب ''جیالوں کی بیاض'' کے نام سے جیالوں کے شخصی خاکے نہ لکھتے، انھوں نے پیپلزپارٹی کے جیالوں کے شخصی خاکے لکھتے ہوئے گویا پیپلزپارٹی کی گزشتہ پچاس سال کی تاریخ کو ضبط تحریر کرتے ہوئے اس ایک کتاب میں سمو دیا ہے جس کے بعد اگر کسی نے ریاض حسین راجہ کے بارے میں جاننا ہو یا چیئرمین محمد صدیق کے بارے میں، ملک اکرام کے بارے میں یا پھر سید ایوب شاہ اور سید قمر عباس کی جدوجہد کے بارے میں، کتاب کے اوراق الٹتے جائیے اور پیپلز پارٹی میں پائے جانے والے گوہر نایاب کے بارے میں جانتے چلے جایئے۔

یہ وہ سیاسی ورکر ہیں کہ جنھوں نے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لائ، قید وبند، لاٹھی، گولی اور کوڑوں کا سامنا کیا، جو قلعہ بالاحصار میں بھی پابند سلاسل رہے اور جنھیں چوک یادگار میں سرعام کوڑے بھی مارے گئے۔یہ جیالوں کی بیاض کا ہی اعجاز ہے کہ ہمیں مظہر صاحب کی سیاسی زندگی کے بارے میں بھی آگہی ہوئی، ان کو درپیش ان مشکلات کو بھی جاننے کا موقع ملا کہ جن کی وجہ سے وہ جلاوطن بھی رہے۔

ان کی نوکری بھی گئی اور ان کے اہل خانہ کو بھی سختیاں برداشت کرنی پڑیں لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی زندگی کے ساتھ سیاسی سفر بھی جاری رکھا اور اب کمال یہ کیا ہے کہ زندگی کے سفر میں اپنے ساتھ چلنے والے ساتھیوں کو ایک کتاب کی صورت میں یکجا کر دیا ہے حالانکہ آج ایسا نہیں ہوتا، سیاسی پارٹیوں کے ورکر صرف فائدے لینے کے لیے پارٹیوں میں شامل ہوتے ہیں، فائدے لیتے ہیں اور پھر ادھر، ادھر ہو جاتے ہیں اور اگر ہم آج کی بات کریں تو آج کی تو ساری کی ساری سیاست ہی یوتھیے پن اور پٹواری پن پر ہو رہی ہے۔

آپ تحریک انصاف کے چاہنے والوں میں سے ہیں تو یوتھیے کہلائیں گے اور اگر ان کے مخالفین میں سے ہیں تو پھر پٹواری کا لقب پائیں گے۔ ان حالات میں کہ جب سیاست کی مٹی پلید کی جا رہی ہے، کہ جب سب ایک بھیڑ چال کا شکار ہو چکے ہیں، ایسے میں گزشتہ پچاس، ساٹھ سالوں کے دوران ایک سیاسی پارٹی کے قیام سے اس سے وابستہ ورکروں کو اگر یاد کیا جائے اور ان کی یادوں کو، ان کی سیاسی جدوجہد کو، ان کی عمر بھر کی کہانی کو ایک کتاب میں سمو دیا جائے تو یہ یقینی طور پر کسی کارنامہ سے کم نہیں ہو گا اور اب ہم اس پوزیشن میں آگئے ہیں کہ مظہر صاحب کی کتاب اٹھائیں اور ایک، ایک ورق الٹتے ہوئے جیالوں کے بارے میں جانتے چلے جائیں۔

وہ جیالے کہ جنھوں نے ایم آرڈی جیسی مضبوط سیاسی تحریک میں کلیدی کردار ادا کیا۔جیالوں کی بیاض میں ہمیں خیبرپختونخوا اسمبلی کے سابق اسپیکر سیف الرحمن کیانی مرحوم کے بارے میں بھی پڑھنے کو ملتاہے کہ جنھوں نے روایتی طور پر اسپیکروں والی شان وشوکت اپنانے کے بجائے خاک نشین رہتے ہوئے ہی اسپیکر کا عہدہ بھی نبھایا اور بطور سفیر بھی خدمات انجام دیں۔ مظہر صاحب کو کھلے دل کے ساتھ داد دینے کو جی کرتا ہے کہ جنھوں نے پیرانہ سالی اور صحت کے مسائل کے باوجود عمر بھر کی سیاست کا نچوڑ جیالوں کی بیاض کی صورت میں ہمیں تحفہ دیا ہے۔
Load Next Story