ہائبرڈ نظام بھی نہیں رہے گا
آدمی کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے، اگر ملک ڈیفالٹ ہوا تو پھر صورتحال مزید گھمبیر ہوجائے گی
سابق وزیر اعظم عمران خان پر القادر ٹرسٹ کیس میں رقوم کے لین دین کا الزام ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ سب کچھ نیا نہیں ہے۔
اس سے پہلے وزراء اعظم شاہد خاقان عباسی، میاں نواز شریف، یوسف رضا گیلانی، بے نظیر بھٹو، ذوالفقار علی بھٹو اور حسین شہید سہروردی بھی گرفتار ہوچکے ہیں۔ صرف سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے الزام میں گرفتار کرنے پر ان کا عدالتی قتل کیا گیا تھا۔ باقی وزراء اعظم پر کرپشن کے الزامات لگے۔
عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطہ میں بائیو میٹرک کمرہ سے گرفتار کیا گیاتھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اگرچہ عمران خان کی گرفتاری کو قانونی قرار دیا مگر عدالت عالیہ کے احاطہ میں گرفتاری پر آئی جی اسلام آباد اور سیکریٹری داخلہ کو نوٹس جاری کر دیے تھے۔ عمران خان کی گرفتاری کے طریقہ کار کی تمام حلقوں میں مذمت کی گئی۔
تحریک انصاف نے عمران خان کی گرفتاری پر ایک لائحہ عمل تیار کیا ہوا تھا، یوں کراچی، لاہور، ملتان، اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ میں پرتشدد مظاہرین دیکھنے میں آئے۔ پرتشدد ہجوم نے پہلی دفعہ حساس تنصیبات پر حملے کیے۔ لاہور اور پشاور میں ہجوم ان عمارتوں میں داخل ہوا ۔ آئی ایس پی آر نے 9 مئی کو تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیا۔
10مئی کو پشاور میں ریڈیو پاکستان کا دفتر نذرِ آتش ہوا۔ ایدھی ایمبولینس کو آگ لگادی گئی۔ غیر ملکی ذرایع ابلاغ نے پرتشدد ہنگاموں کی بھرپور کوریج کی۔ تحریک انصاف کے جنگجوؤں نے سوشل میڈیا کے ذریعہ پوری دنیا میں زہریلا پروپیگنڈہ کیا۔
امریکا اور یورپ میں آباد پاکستانی شہریوں کو یہ تاثر دیا گیا کہ عمران خان کو ہلاک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سرکاری حلقوں کا کہنا ہے کہ عمران خان کے دورِ اقتدار میں مخالفین کے ساتھ اس سے زیادہ بد ترین سلوک ہوا۔
میاں نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز لندن میں زندگی کی کشمکش میں مبتلا تھیں مگر میاں صاحب، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر کو مختلف جیلوں میں بند رکھا گیا۔
میاں نواز شریف کی التجاء کے باوجود ان کی لندن میں ان کی اہلیہ یا ان کے بیٹوں سے بات چیت نہیں کرائی گئی مگر تھوڑی دیر بعد چینلز نے یہ اطلاع ضرور دی کہ ان کی اہلیہ دنیا چھوڑ گئیں۔
موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے صاحبزادہ حمزہ شہباز کو مہینوں جیلوں میں بند رکھا گیا۔ رانا ثناء اﷲ کو منشیات کے جعلی مقدمہ میں 9 ماہ تک قید تنہائی میں رکھا گیا۔ شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال اور خواجہ آصف وغیرہ کو بغیر کسی وجہ کے مہینوں جیلوں میں گزارنے پڑے۔ پیپلز پارٹی والے کہتے ہیں کہ آصف زرداری کو بیماری کے باوجود گرفتار کیا گیا۔
ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کو مہینوں اڈیالہ جیل میں نظر بند کیا گیا۔ بعض تجزیہ نگاروں کی اپنی ذاتی رائے ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کی اصل وجہ القادر ٹرسٹ کیس نہیں بلکہ عمران خان کے ریاستی اداروں کے خلاف بیانات ہیں۔ہو سکتا ہے کہ ایسا ہی ہو اور یہ غلط بھی ہو سکتا ہے۔
عمران خان وزیر آباد میں قاتلانہ حملہ کی ایف آئی آر ان کی مرضی کے مطابق درج نہ کرنے کی ذمے داری بعض افسروں پر عائد کرتے ہیں جب کہ ان کی جماعت کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی جو اس وقت صوبہ پنجاب کے چیف ایگزیکٹو تھے کا کہنا ہے کہ عمران خان کی مرضی کی ایف آئی آر درج کرنے میں تکنیکی مسائل تھے مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ اس ملک میں انتقام کا معاملہ کب ختم ہوگا ؟ اس سوال کے جواب کے لیے اس ملک کی تاریخ کو کھنگالنا ہوگا۔
جنرل ایوب خان نے جب اقتدار پر قبضہ کیا تو سیاست دان ان کے اقتدار کے لیے سب سے بڑا چیلنج تھے۔ ان سیاست دانوں میں سب سے نمایاں حسین شہید سہروردی تھے، یوں حکومت نے کرپشن کے الزام کا ہتھیار استعمال کیا۔
حسین شہید سہروردی سمیت سیکڑوں سیاسی رہنماؤں کو ایبڈو کے کالے قانون کے تحت گرفتار کیا گیا اور سیاست کے لیے نااہل قرار دیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹا، بھٹو اس وقت سب سے مقبول سیاسی رہنما تھے۔
جنرل ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے عدالت کے ذریعے ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی کا خاتمہ کیا۔ بدقسمتی سے قومی اتحاد میں شامل جماعتوں نے جنرل ضیاء الحق کی حمایت کی، یوں ملک ایک ایسے بحران کا شکار ہوا جس کے اثرات آج بھی نظر آتے ہیں۔
سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں طویل قید کاٹی۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دورِ اقتدار میں ان کے شوہر آصف زرداری طویل عرصہ قید میں رہے۔ بے نظیر بھٹو کے دورِ اقتدار میں میاں نواز شریف کے والد میاں محمد شریف کو گرفتار کیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی سمیت دیگر سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا۔
ایک وقت آیا کہ لانڈھی جیل میں آصف علی زرداری، میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے میزبان بن گئے، اس دور میں یوسف رضا گیلانی کو بھی گرفتار کیا گیا۔
اگرچہ پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت اور میاں نواز شریف کی حکومت میں سیاست دان گرفتار نہیں ہوئے مگر عمران خان کی حکومت میں نیب کے ذریعہ مخالف سیاست دانوں کو مختلف الزامات میں جیل بھیجنے کا حربہ بھر پور استعمال کیا گیا۔ اب عمران خان کہتے ہیں کہ ان کے دورِ اقتدار میں جو کچھ ہوا وہ ان کی مرضی سے نہیں ہوا۔
کسی کے کہنے پر نیب حکام کارروائی کرتے تھے، یوں موجودہ وزیر اعظم میاں شہباز شریف بھی چند سال بعد یہ کہتے دکھائی دیں گے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔
پولیس حکام انگریز دور کے امن و امان کے قانون کے تحت تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کو گرفتار کر رہے ہیں۔ عدالتیں یقیناً ان رہنماؤں کو رہا کردیں گی۔ سول انتظامیہ کا پنجاب اور خیبر پختون خوا میں فوج طلب کرنا سول انتظامیہ کی ناکامی کا اعلان کرنا ہے۔
تحریکِ انصاف کی قیادت میں موجود جن لوگوں نے عمران خان کی گرفتاری کے بعد اہم تنصیبات پر حملوں کی حکمت عملی تیار کی تھی، ان کے کیا مقاصد تھے یہ بہت بڑا سوال ہے ، اگر یہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ریاستی ادارے عمران خان سے بات چیت پر تیار ہوجائیں تو یہ مقصد تو حاصل نہ ہوا مگر ملک میں ایمرجنسی لگانے اور انتخابات کو ملتوی کرنے کا راستہ کھل گیا۔
ملک اس وقت شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے، اگر ملک ڈیفالٹ ہوا تو پھر صورتحال مزید گھمبیر ہوجائے گی۔ عمران خان کو یہ سوچنا چاہیے کہ انتقام کی سیاست کا ہمیشہ نقصان ہوتا ہے۔
موجودہ حکمرانوں کو بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ عدالتوں کے ذریعہ سیاست دانوں کو سیاسی منظر نامہ سے غائب نہیں کیا جاسکتا۔ فریقین کو انتخابات کے انعقاد کے لیے فوری مذاکرات کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ خطرہ بھی پیدا ہوگیا ہے کہ اب ہائبرڈ نظام بھی نہیں رہے گا۔
اس سے پہلے وزراء اعظم شاہد خاقان عباسی، میاں نواز شریف، یوسف رضا گیلانی، بے نظیر بھٹو، ذوالفقار علی بھٹو اور حسین شہید سہروردی بھی گرفتار ہوچکے ہیں۔ صرف سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے الزام میں گرفتار کرنے پر ان کا عدالتی قتل کیا گیا تھا۔ باقی وزراء اعظم پر کرپشن کے الزامات لگے۔
عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطہ میں بائیو میٹرک کمرہ سے گرفتار کیا گیاتھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اگرچہ عمران خان کی گرفتاری کو قانونی قرار دیا مگر عدالت عالیہ کے احاطہ میں گرفتاری پر آئی جی اسلام آباد اور سیکریٹری داخلہ کو نوٹس جاری کر دیے تھے۔ عمران خان کی گرفتاری کے طریقہ کار کی تمام حلقوں میں مذمت کی گئی۔
تحریک انصاف نے عمران خان کی گرفتاری پر ایک لائحہ عمل تیار کیا ہوا تھا، یوں کراچی، لاہور، ملتان، اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ میں پرتشدد مظاہرین دیکھنے میں آئے۔ پرتشدد ہجوم نے پہلی دفعہ حساس تنصیبات پر حملے کیے۔ لاہور اور پشاور میں ہجوم ان عمارتوں میں داخل ہوا ۔ آئی ایس پی آر نے 9 مئی کو تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیا۔
10مئی کو پشاور میں ریڈیو پاکستان کا دفتر نذرِ آتش ہوا۔ ایدھی ایمبولینس کو آگ لگادی گئی۔ غیر ملکی ذرایع ابلاغ نے پرتشدد ہنگاموں کی بھرپور کوریج کی۔ تحریک انصاف کے جنگجوؤں نے سوشل میڈیا کے ذریعہ پوری دنیا میں زہریلا پروپیگنڈہ کیا۔
امریکا اور یورپ میں آباد پاکستانی شہریوں کو یہ تاثر دیا گیا کہ عمران خان کو ہلاک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سرکاری حلقوں کا کہنا ہے کہ عمران خان کے دورِ اقتدار میں مخالفین کے ساتھ اس سے زیادہ بد ترین سلوک ہوا۔
میاں نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز لندن میں زندگی کی کشمکش میں مبتلا تھیں مگر میاں صاحب، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر کو مختلف جیلوں میں بند رکھا گیا۔
میاں نواز شریف کی التجاء کے باوجود ان کی لندن میں ان کی اہلیہ یا ان کے بیٹوں سے بات چیت نہیں کرائی گئی مگر تھوڑی دیر بعد چینلز نے یہ اطلاع ضرور دی کہ ان کی اہلیہ دنیا چھوڑ گئیں۔
موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے صاحبزادہ حمزہ شہباز کو مہینوں جیلوں میں بند رکھا گیا۔ رانا ثناء اﷲ کو منشیات کے جعلی مقدمہ میں 9 ماہ تک قید تنہائی میں رکھا گیا۔ شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال اور خواجہ آصف وغیرہ کو بغیر کسی وجہ کے مہینوں جیلوں میں گزارنے پڑے۔ پیپلز پارٹی والے کہتے ہیں کہ آصف زرداری کو بیماری کے باوجود گرفتار کیا گیا۔
ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کو مہینوں اڈیالہ جیل میں نظر بند کیا گیا۔ بعض تجزیہ نگاروں کی اپنی ذاتی رائے ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کی اصل وجہ القادر ٹرسٹ کیس نہیں بلکہ عمران خان کے ریاستی اداروں کے خلاف بیانات ہیں۔ہو سکتا ہے کہ ایسا ہی ہو اور یہ غلط بھی ہو سکتا ہے۔
عمران خان وزیر آباد میں قاتلانہ حملہ کی ایف آئی آر ان کی مرضی کے مطابق درج نہ کرنے کی ذمے داری بعض افسروں پر عائد کرتے ہیں جب کہ ان کی جماعت کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی جو اس وقت صوبہ پنجاب کے چیف ایگزیکٹو تھے کا کہنا ہے کہ عمران خان کی مرضی کی ایف آئی آر درج کرنے میں تکنیکی مسائل تھے مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ اس ملک میں انتقام کا معاملہ کب ختم ہوگا ؟ اس سوال کے جواب کے لیے اس ملک کی تاریخ کو کھنگالنا ہوگا۔
جنرل ایوب خان نے جب اقتدار پر قبضہ کیا تو سیاست دان ان کے اقتدار کے لیے سب سے بڑا چیلنج تھے۔ ان سیاست دانوں میں سب سے نمایاں حسین شہید سہروردی تھے، یوں حکومت نے کرپشن کے الزام کا ہتھیار استعمال کیا۔
حسین شہید سہروردی سمیت سیکڑوں سیاسی رہنماؤں کو ایبڈو کے کالے قانون کے تحت گرفتار کیا گیا اور سیاست کے لیے نااہل قرار دیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹا، بھٹو اس وقت سب سے مقبول سیاسی رہنما تھے۔
جنرل ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے عدالت کے ذریعے ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی کا خاتمہ کیا۔ بدقسمتی سے قومی اتحاد میں شامل جماعتوں نے جنرل ضیاء الحق کی حمایت کی، یوں ملک ایک ایسے بحران کا شکار ہوا جس کے اثرات آج بھی نظر آتے ہیں۔
سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں طویل قید کاٹی۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دورِ اقتدار میں ان کے شوہر آصف زرداری طویل عرصہ قید میں رہے۔ بے نظیر بھٹو کے دورِ اقتدار میں میاں نواز شریف کے والد میاں محمد شریف کو گرفتار کیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی سمیت دیگر سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا۔
ایک وقت آیا کہ لانڈھی جیل میں آصف علی زرداری، میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے میزبان بن گئے، اس دور میں یوسف رضا گیلانی کو بھی گرفتار کیا گیا۔
اگرچہ پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت اور میاں نواز شریف کی حکومت میں سیاست دان گرفتار نہیں ہوئے مگر عمران خان کی حکومت میں نیب کے ذریعہ مخالف سیاست دانوں کو مختلف الزامات میں جیل بھیجنے کا حربہ بھر پور استعمال کیا گیا۔ اب عمران خان کہتے ہیں کہ ان کے دورِ اقتدار میں جو کچھ ہوا وہ ان کی مرضی سے نہیں ہوا۔
کسی کے کہنے پر نیب حکام کارروائی کرتے تھے، یوں موجودہ وزیر اعظم میاں شہباز شریف بھی چند سال بعد یہ کہتے دکھائی دیں گے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔
پولیس حکام انگریز دور کے امن و امان کے قانون کے تحت تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کو گرفتار کر رہے ہیں۔ عدالتیں یقیناً ان رہنماؤں کو رہا کردیں گی۔ سول انتظامیہ کا پنجاب اور خیبر پختون خوا میں فوج طلب کرنا سول انتظامیہ کی ناکامی کا اعلان کرنا ہے۔
تحریکِ انصاف کی قیادت میں موجود جن لوگوں نے عمران خان کی گرفتاری کے بعد اہم تنصیبات پر حملوں کی حکمت عملی تیار کی تھی، ان کے کیا مقاصد تھے یہ بہت بڑا سوال ہے ، اگر یہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ریاستی ادارے عمران خان سے بات چیت پر تیار ہوجائیں تو یہ مقصد تو حاصل نہ ہوا مگر ملک میں ایمرجنسی لگانے اور انتخابات کو ملتوی کرنے کا راستہ کھل گیا۔
ملک اس وقت شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے، اگر ملک ڈیفالٹ ہوا تو پھر صورتحال مزید گھمبیر ہوجائے گی۔ عمران خان کو یہ سوچنا چاہیے کہ انتقام کی سیاست کا ہمیشہ نقصان ہوتا ہے۔
موجودہ حکمرانوں کو بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ عدالتوں کے ذریعہ سیاست دانوں کو سیاسی منظر نامہ سے غائب نہیں کیا جاسکتا۔ فریقین کو انتخابات کے انعقاد کے لیے فوری مذاکرات کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ خطرہ بھی پیدا ہوگیا ہے کہ اب ہائبرڈ نظام بھی نہیں رہے گا۔