کچھ احوال مظلوم اساتذہ کا
ہر محب وطن اور صاحب رائے شخص کا خیال ہے کہ تعلیم اور طب کا شعبہ حکومت کی ذمے داری ہونا چاہیے۔۔۔
ہم اساتذہ کو بے حد تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ آج کل کے اساتذہ پڑھانے سے زیادہ کمانے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ آج کے اساتذہ کا ماضی کے اساتذہ سے مقابلہ کرتے ہیں کہ وہ کیسے جان توڑ محنت اپنے طالب علموں کے ساتھ کرتے تھے وغیرہ وغیرہ مگر یہ نہیں سوچتے کہ ماضی اور حال کے اقتصادی و معاشی اور معاشرتی حالات میں جو فرق آیا ہے اس کو بھی مد نظر رکھا جائے۔ کیا اساتذہ اسی معاشرے کا حصہ نہیں جہاں پر مہنگائی دنوں نہیں بلکہ گھنٹوں کے حساب سے بڑھ رہی ہے کیا وہ انسان نہیں ان کی ضروریات نہیں اوپر سے مشکل یہ کہ اساتذہ معاشرے کے سفید پوش طبقے میں شمار ہوتے ہیں۔ تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کی ہم زحمت ہی نہیں کرتے۔
اساتذہ کی تکریم اور رویے دونوں میں فرق اس وقت ہی سے آیا جب سے تعلیم کاروبار بنی، تجارتی سوچ کے ساتھ تعلیمی ادارے قائم کرنے والوں نے استاد کو اپنا بزنس چلانے والے کارندوں سے زیادہ اہمیت نہ دی۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں چھوٹی چھوٹی عمارتوں میں قائم اسکولوں کا ذکر کیا کیا وہاں کے اساتذہ ایک نیم تاریک کمرہ جماعت جس کی کھڑکیوں پر سوفٹ بورڈ یا بلیک بورڈ لگا کے باہر دوسرا کمرہ بنا لیا جاتا ہے ان چھوٹے کمروں میں چالیس پچاس بچوں کو دھونس کر ایک استاد مقرر کر دیا جاتا ہے۔ ہوا اور قدرتی روشنی کا گزر وہاں محال ہے بس ایک پنکھا اور ایک ٹیوب لائٹ سے کام چلایا جاتا ہے۔ اور اگر بجلی چلی جائے تو بھی استاد یا بچوں کو باہر نکل کر سانس لینے کی اجازت نہیں بلکہ بچوں کو مکمل طور پر قابو رکھنا استاد کی ذمے داری ہے۔
کسی جماعت سے اگر شور کی آواز آ جائے تو پرنسپل صاحبہ /صاحب آ کر تمام بچوں کے سامنے استاد کو دل بھر کر سناتے ہیں کہ آپ سے کلاس کنٹرول نہیں ہوتی تو گھر بیٹھے وغیرہ ضرورت کی ماری ٹیچر یہ سب سننے پر مجبور ہوتی ہے۔ آپ کو یہ جان کر بھی حیرت ہو گی یہ معمولی اسکول ہی نہیں بلکہ شہر کے جو ''بڑے اور نامی گرامی '' تعلیمی ادارے ہیں وہاں بھی ایک ٹیچر کو دن بھر میں بمشکل ایک یا دو پیریڈز فری ملتے ہیں جن میں وہ طلبہ کا کام چیک کرنے کے بجائے اسکول کی دوسری ذمے داریاں مثلاً سوفٹ بورڈ کے لیے چارٹ بنانے اسکول کی آرائش کے لیے کچھ کرتی ہیں۔
حتیٰ کہ ڈرائنگ ٹیچر اسکول کی دیواروں پر مختلف مناظر پینٹ کرنے کے علاوہ انٹرول (آدھی چھٹی) میں بچوں کی کینٹین پر لائن بنوانے، ان کے جھگڑے چکانے کی ڈیوٹی انجام دینے کے علاوہ، اسکول میں منعقد ہونے والے تمام پروگرامز کی تیاری کرنا اسمبلی میں طلبہ کی مختصر تقاریر یا نظموں کو پیش کرنے لائن بنوانے اور مسلسل ان کی نگرانی کرنے کے فرائض کے علاوہ ایک اور ڈیوٹی Late Hours کی بھی ہوتی ہے اس کا حال کچھ یوں ہے کہ ہفتے میں دو دن تین یا دو اساتذہ کا یہ فرض ہوتا ہے کہ جب تک آخری بچہ اسکول سے چلا نہ جائے وہ اساتذہ اپنے گھر نہیں جا سکتے۔ بعض والدین اپنے تمام کام کرنے کے بعد تقریباً چار بجے تک بچے کو لینے آتے ہیں اور وہ اساتذہ اس دوران اس بچے کی خیریت اور حفاظت کی ذمے دار ہوتی ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے یہ تو اساتذہ کا واقعی فرض ہے مگر سیکیورٹی فیس تو ادارہ وصول کرتا ہے۔
اب جو سب سے زیادہ توجہ طلب پہلو ہے وہ یہ کہ ان اساتذہ سے جس ماہانہ مشاہرے پر دستخط لیے جاتے ہیں اس کا بمشکل 30 فیصد انھیں ادا کیا جاتا ہے یوں یہ ادارے اپنا انکم ٹیکس بھی بچا لیتے ہیں۔ سوائے چند بڑے تعلیمی اداروں کے کسی بھی ادارے میں اساتذہ کو طبی امداد، آمد و رفت یا اور کسی بھی قسم کا الاؤنس نہیں دیا جاتا جو تنخواہ ملتی ہے اس کا بیشتر حصہ آنے جانے کے اخراجات پر اور پھر ہر فنکشن پر اساتذہ سے بھی طلبہ کی طرح رقم لی جاتی ہے اس پر خرچ ہونے کے بعد حال شدہ رقم کا 25 فیصد بھی مشکل سے بچتا ہے۔ اب ایسے میں اگر وہ ٹیوشن نہ پڑھائیں تو گزر بسر کیسے ہو؟ ٹیوشن پڑھانا بھی ان ہی اساتذہ کا مسئلہ حل کرتا ہے جو خود اپنے گھر پر دس بارہ طلبہ کے گروپ کو پڑھاتے ہیں ورنہ کہیں جا کر پڑھانے پر تو پھر آنے جانے کے اخراجات کے علاوہ وقت بھی بہت صرف ہوتا ہے خاص کر خواتین اساتذہ جن کی مالی حیثیت واجبی ہوتی ہے۔
وہ اپنے گھر کے کاموں کے لیے کسی ملازمہ اخراجات بھی برداشت نہیں کر پاتیں گھریلو ذمے داریوں کے علاوہ خاندانی تقریبات میں شرکت کرنا بھی ضروری ہوتا ہے اور ہمارے معاشرے میں کبھی کوئی تقریب رات بارہ ایک بجے سے پہلے اختتام پذیر نہیں ہوتی۔ ایسے میں صبح سویرے گھر کے کام نمٹانے کے ساتھ ساتھ وقت پر اسکول پہنچنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ 5 منٹ تاخیر سے پہنچنا اور 5 منٹ (اگر آخری پیریڈ فری ہو تو) قبل اسکول سے نکل جانے پر ایک چھٹی شمار ہوتی ہے اور تنخواہ سے ایک دن کی رقم منہا کر لی جاتی ہے۔ اتنا کام کرنے پر نہ صلہ نہ ستائش (کچھ اسکولوں کو چھوڑ کر) بلکہ اگر والدین کوئی شکایت کرنے آئیں تو انتظامیہ خود ان کو مطمئن کرنے کے بجائے استاد کو ان کے روبرو پیش کر دیتی ہے اور وہ جو جی میں آتا ہے انھیں سنا کر برا بھلا کہہ کر ٹیچر کو شرمندہ کر کے بعض اوقات ان سے معافی تک طلب کرتے ہیں۔ اب بتائیے کہ جس معاشرے میں اساتذہ کی یہ اوقات ہو وہاں کے طلبا مہذب، محب وطن ہوں گے، وہ بزرگوں اور اساتذہ کا احترام کریں گے؟
ایک استاد کو ایک دن میں بمشکل ایک یا دو پیریڈ فری ملتے ہیں اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ واقعی فری ہیں بلکہ اس دوران وہ کوئی کلاس نہیں لیتے اس کے بجائے کوئی دوسرا کام اسکول ہی کا کرتے ہیں ۔ لہٰذا طلبا کا کلاس ورک یا ہوم ورک وہ اسکول میں جانچنے کے بجائے ڈھیروں رجسٹر، کاپیاں گھر لے جانے پر مجبور ہوتے ہیں جو اساتذہ وین سے گھر آتے ہیں وہ تو پھر بھی کسی نہ کسی صورت یہ ''بوجھ'' گھر لے آتے ہیں مگر جو عوامی ذرایع سے آتے جاتے ہیں وہ تو ایک بڑا سا بیگ (تھیلا) ساتھ رکھتے ہیں اور اس وزنی تھیلے کو مشکل سے بس اسٹاپ تک لے کر آتے ہیں۔ پھر گھر کے خاندان کے تمام کام کرنے کے بعد رات دیر تک ان کی جانچ کر کے صبح پھر یہ وزن اٹھاکر اسکول روانہ ہو جاتے ہیں۔
سرکاری اسکولوں کے اساتذہ نسبتاً آرام سے ہیں کیونکہ وہاں تو کلاس لینے نہ لینے کی کوئی ذمے داری ان پر عائد ہی نہیں ہوتی مگر تعلیم کا جو حال ان اداروں میں ہے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ سرکاری اسکول اور کالج کے فارغ التحصیل طلبہ کو معاشرے میں اہم مقام حاصل تھا۔ پھر ہمارا موضوع سرکاری تعلیمی ادارے ہیں بھی نہیں۔ یہ ضرور ہے کہ شرح خواندگی بڑھانا ہر حکومت وقت کی ذمے داری ہے اور ملکی ترقی کی ضامن بھی۔
ہر محب وطن اور صاحب رائے شخص کا خیال ہے کہ تعلیم اور طب کا شعبہ حکومت کی ذمے داری ہونا چاہیے کہ وہ ملک کے ہر شہری کو بلا امتیاز یہ دونوں سہولتیں فراہم کرے۔ جب تک تعلیم نجی شعبے کے ہاتھوں میں رہے گی یکساں معیار تعلیم کا عنصر محض نعرہ ہی رہے گا۔ مگر مشکل یہ ہے کہ حکومتی اداروں کی زبوں حالی سے یہ خوف بھی لاحق رہتا ہے کہ آج جیسی تیسی تعلیم بچوں کو مل رہی ہے سرکار (حکومت) کے ہاتھ میں آ جانے سے موجودہ سرکاری اسکولوں یا تعلیمی اداروں کا حال تو سدھرے گا نہیں بلکہ باقی کے اداروں کا بھی وہی حال ہو جائے گا جو آج موجودہ سرکاری اداروں کا ہے گھوسٹ اسکول گھوسٹ اساتذہ کی اصطلاح ایسے ہی تو وجود میں نہیں آ گئی۔
آخر میں یہ ضرور عرض کروں گی کہ ہمارے یہاں نظام اسلام، مدینہ جیسی فلاحی مملکت کے قیام کا تو بہت شور مچایا جاتا ہے مگر شہریوں کو انصاف تعلیم اور طبی سہولیات جیسی بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں کوئی مخلص نظر نہیں آتا۔ اس سلسلے میں نجی تعلیمی اداروں کی رجسٹریشن کے وقت اگر مالکان سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اس عہد نامہ کے بارے میں دریافت کر لیا جائے جو انھوں نے اپنے گورنر مالک اشتر کو لکھ کر دیا تھا اس میں ہدایت تھی کہ ''دیکھو محکمہ قضا (عدلیہ) سے متعلق افراد اور اساتذہ کا خاص خیال رکھنا ان کی ہر ضرورت پوری کرنا حکومت کی اولین ذمے داری ہے ایسا نہ ہو کہ قافی پر اہل ثروت اثر انداز ہو جائیں اور عوام کو انصاف میسر نہ ہو یعنی محکمہ عدل سے متعلق افراد کو بااثر افراد سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی ہر ضرورت خود حکومت پوری کرے تا کہ انصاف سب کو بل اامتیاز اور بروقت مل سکے ساتھ ہی استاد اگر معاشی طور پر غیر مستحکم ہو گا تو وہ اپنا فرض بھی مکمل طور پر ادا کرنے سے قاصر رہے گا۔
اساتذہ کی تکریم اور رویے دونوں میں فرق اس وقت ہی سے آیا جب سے تعلیم کاروبار بنی، تجارتی سوچ کے ساتھ تعلیمی ادارے قائم کرنے والوں نے استاد کو اپنا بزنس چلانے والے کارندوں سے زیادہ اہمیت نہ دی۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں چھوٹی چھوٹی عمارتوں میں قائم اسکولوں کا ذکر کیا کیا وہاں کے اساتذہ ایک نیم تاریک کمرہ جماعت جس کی کھڑکیوں پر سوفٹ بورڈ یا بلیک بورڈ لگا کے باہر دوسرا کمرہ بنا لیا جاتا ہے ان چھوٹے کمروں میں چالیس پچاس بچوں کو دھونس کر ایک استاد مقرر کر دیا جاتا ہے۔ ہوا اور قدرتی روشنی کا گزر وہاں محال ہے بس ایک پنکھا اور ایک ٹیوب لائٹ سے کام چلایا جاتا ہے۔ اور اگر بجلی چلی جائے تو بھی استاد یا بچوں کو باہر نکل کر سانس لینے کی اجازت نہیں بلکہ بچوں کو مکمل طور پر قابو رکھنا استاد کی ذمے داری ہے۔
کسی جماعت سے اگر شور کی آواز آ جائے تو پرنسپل صاحبہ /صاحب آ کر تمام بچوں کے سامنے استاد کو دل بھر کر سناتے ہیں کہ آپ سے کلاس کنٹرول نہیں ہوتی تو گھر بیٹھے وغیرہ ضرورت کی ماری ٹیچر یہ سب سننے پر مجبور ہوتی ہے۔ آپ کو یہ جان کر بھی حیرت ہو گی یہ معمولی اسکول ہی نہیں بلکہ شہر کے جو ''بڑے اور نامی گرامی '' تعلیمی ادارے ہیں وہاں بھی ایک ٹیچر کو دن بھر میں بمشکل ایک یا دو پیریڈز فری ملتے ہیں جن میں وہ طلبہ کا کام چیک کرنے کے بجائے اسکول کی دوسری ذمے داریاں مثلاً سوفٹ بورڈ کے لیے چارٹ بنانے اسکول کی آرائش کے لیے کچھ کرتی ہیں۔
حتیٰ کہ ڈرائنگ ٹیچر اسکول کی دیواروں پر مختلف مناظر پینٹ کرنے کے علاوہ انٹرول (آدھی چھٹی) میں بچوں کی کینٹین پر لائن بنوانے، ان کے جھگڑے چکانے کی ڈیوٹی انجام دینے کے علاوہ، اسکول میں منعقد ہونے والے تمام پروگرامز کی تیاری کرنا اسمبلی میں طلبہ کی مختصر تقاریر یا نظموں کو پیش کرنے لائن بنوانے اور مسلسل ان کی نگرانی کرنے کے فرائض کے علاوہ ایک اور ڈیوٹی Late Hours کی بھی ہوتی ہے اس کا حال کچھ یوں ہے کہ ہفتے میں دو دن تین یا دو اساتذہ کا یہ فرض ہوتا ہے کہ جب تک آخری بچہ اسکول سے چلا نہ جائے وہ اساتذہ اپنے گھر نہیں جا سکتے۔ بعض والدین اپنے تمام کام کرنے کے بعد تقریباً چار بجے تک بچے کو لینے آتے ہیں اور وہ اساتذہ اس دوران اس بچے کی خیریت اور حفاظت کی ذمے دار ہوتی ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے یہ تو اساتذہ کا واقعی فرض ہے مگر سیکیورٹی فیس تو ادارہ وصول کرتا ہے۔
اب جو سب سے زیادہ توجہ طلب پہلو ہے وہ یہ کہ ان اساتذہ سے جس ماہانہ مشاہرے پر دستخط لیے جاتے ہیں اس کا بمشکل 30 فیصد انھیں ادا کیا جاتا ہے یوں یہ ادارے اپنا انکم ٹیکس بھی بچا لیتے ہیں۔ سوائے چند بڑے تعلیمی اداروں کے کسی بھی ادارے میں اساتذہ کو طبی امداد، آمد و رفت یا اور کسی بھی قسم کا الاؤنس نہیں دیا جاتا جو تنخواہ ملتی ہے اس کا بیشتر حصہ آنے جانے کے اخراجات پر اور پھر ہر فنکشن پر اساتذہ سے بھی طلبہ کی طرح رقم لی جاتی ہے اس پر خرچ ہونے کے بعد حال شدہ رقم کا 25 فیصد بھی مشکل سے بچتا ہے۔ اب ایسے میں اگر وہ ٹیوشن نہ پڑھائیں تو گزر بسر کیسے ہو؟ ٹیوشن پڑھانا بھی ان ہی اساتذہ کا مسئلہ حل کرتا ہے جو خود اپنے گھر پر دس بارہ طلبہ کے گروپ کو پڑھاتے ہیں ورنہ کہیں جا کر پڑھانے پر تو پھر آنے جانے کے اخراجات کے علاوہ وقت بھی بہت صرف ہوتا ہے خاص کر خواتین اساتذہ جن کی مالی حیثیت واجبی ہوتی ہے۔
وہ اپنے گھر کے کاموں کے لیے کسی ملازمہ اخراجات بھی برداشت نہیں کر پاتیں گھریلو ذمے داریوں کے علاوہ خاندانی تقریبات میں شرکت کرنا بھی ضروری ہوتا ہے اور ہمارے معاشرے میں کبھی کوئی تقریب رات بارہ ایک بجے سے پہلے اختتام پذیر نہیں ہوتی۔ ایسے میں صبح سویرے گھر کے کام نمٹانے کے ساتھ ساتھ وقت پر اسکول پہنچنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ 5 منٹ تاخیر سے پہنچنا اور 5 منٹ (اگر آخری پیریڈ فری ہو تو) قبل اسکول سے نکل جانے پر ایک چھٹی شمار ہوتی ہے اور تنخواہ سے ایک دن کی رقم منہا کر لی جاتی ہے۔ اتنا کام کرنے پر نہ صلہ نہ ستائش (کچھ اسکولوں کو چھوڑ کر) بلکہ اگر والدین کوئی شکایت کرنے آئیں تو انتظامیہ خود ان کو مطمئن کرنے کے بجائے استاد کو ان کے روبرو پیش کر دیتی ہے اور وہ جو جی میں آتا ہے انھیں سنا کر برا بھلا کہہ کر ٹیچر کو شرمندہ کر کے بعض اوقات ان سے معافی تک طلب کرتے ہیں۔ اب بتائیے کہ جس معاشرے میں اساتذہ کی یہ اوقات ہو وہاں کے طلبا مہذب، محب وطن ہوں گے، وہ بزرگوں اور اساتذہ کا احترام کریں گے؟
ایک استاد کو ایک دن میں بمشکل ایک یا دو پیریڈ فری ملتے ہیں اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ واقعی فری ہیں بلکہ اس دوران وہ کوئی کلاس نہیں لیتے اس کے بجائے کوئی دوسرا کام اسکول ہی کا کرتے ہیں ۔ لہٰذا طلبا کا کلاس ورک یا ہوم ورک وہ اسکول میں جانچنے کے بجائے ڈھیروں رجسٹر، کاپیاں گھر لے جانے پر مجبور ہوتے ہیں جو اساتذہ وین سے گھر آتے ہیں وہ تو پھر بھی کسی نہ کسی صورت یہ ''بوجھ'' گھر لے آتے ہیں مگر جو عوامی ذرایع سے آتے جاتے ہیں وہ تو ایک بڑا سا بیگ (تھیلا) ساتھ رکھتے ہیں اور اس وزنی تھیلے کو مشکل سے بس اسٹاپ تک لے کر آتے ہیں۔ پھر گھر کے خاندان کے تمام کام کرنے کے بعد رات دیر تک ان کی جانچ کر کے صبح پھر یہ وزن اٹھاکر اسکول روانہ ہو جاتے ہیں۔
سرکاری اسکولوں کے اساتذہ نسبتاً آرام سے ہیں کیونکہ وہاں تو کلاس لینے نہ لینے کی کوئی ذمے داری ان پر عائد ہی نہیں ہوتی مگر تعلیم کا جو حال ان اداروں میں ہے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ سرکاری اسکول اور کالج کے فارغ التحصیل طلبہ کو معاشرے میں اہم مقام حاصل تھا۔ پھر ہمارا موضوع سرکاری تعلیمی ادارے ہیں بھی نہیں۔ یہ ضرور ہے کہ شرح خواندگی بڑھانا ہر حکومت وقت کی ذمے داری ہے اور ملکی ترقی کی ضامن بھی۔
ہر محب وطن اور صاحب رائے شخص کا خیال ہے کہ تعلیم اور طب کا شعبہ حکومت کی ذمے داری ہونا چاہیے کہ وہ ملک کے ہر شہری کو بلا امتیاز یہ دونوں سہولتیں فراہم کرے۔ جب تک تعلیم نجی شعبے کے ہاتھوں میں رہے گی یکساں معیار تعلیم کا عنصر محض نعرہ ہی رہے گا۔ مگر مشکل یہ ہے کہ حکومتی اداروں کی زبوں حالی سے یہ خوف بھی لاحق رہتا ہے کہ آج جیسی تیسی تعلیم بچوں کو مل رہی ہے سرکار (حکومت) کے ہاتھ میں آ جانے سے موجودہ سرکاری اسکولوں یا تعلیمی اداروں کا حال تو سدھرے گا نہیں بلکہ باقی کے اداروں کا بھی وہی حال ہو جائے گا جو آج موجودہ سرکاری اداروں کا ہے گھوسٹ اسکول گھوسٹ اساتذہ کی اصطلاح ایسے ہی تو وجود میں نہیں آ گئی۔
آخر میں یہ ضرور عرض کروں گی کہ ہمارے یہاں نظام اسلام، مدینہ جیسی فلاحی مملکت کے قیام کا تو بہت شور مچایا جاتا ہے مگر شہریوں کو انصاف تعلیم اور طبی سہولیات جیسی بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں کوئی مخلص نظر نہیں آتا۔ اس سلسلے میں نجی تعلیمی اداروں کی رجسٹریشن کے وقت اگر مالکان سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اس عہد نامہ کے بارے میں دریافت کر لیا جائے جو انھوں نے اپنے گورنر مالک اشتر کو لکھ کر دیا تھا اس میں ہدایت تھی کہ ''دیکھو محکمہ قضا (عدلیہ) سے متعلق افراد اور اساتذہ کا خاص خیال رکھنا ان کی ہر ضرورت پوری کرنا حکومت کی اولین ذمے داری ہے ایسا نہ ہو کہ قافی پر اہل ثروت اثر انداز ہو جائیں اور عوام کو انصاف میسر نہ ہو یعنی محکمہ عدل سے متعلق افراد کو بااثر افراد سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی ہر ضرورت خود حکومت پوری کرے تا کہ انصاف سب کو بل اامتیاز اور بروقت مل سکے ساتھ ہی استاد اگر معاشی طور پر غیر مستحکم ہو گا تو وہ اپنا فرض بھی مکمل طور پر ادا کرنے سے قاصر رہے گا۔