سیاسی صورت حال اور معیشت
کئی افراد سے معلومات حاصل کرنے کے بعد یہ معلوم ہوا ہے کہ بڑے بڑے تجارتی مراکز میں سناٹا چھایا ہوا ہے
ابھی یہ خبریں زیر گردش تھیں کہ آئی ایم ایف کے تاخیری حربے طوالت اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں اور پروگرام بحال نہ ہونے کی صورت میں معاشی صورت حال انتہائی سنگین ترین ہوکر رہ جائے گی۔
زرمبادلہ کے ذخائر ساڑھے چار ارب ڈالر کی باتیں ہو رہی تھیں اور یہ کہا جا رہا تھا کہ مالی سال گزرنے کے بعد پاکستان کی معاشی صورت حال کے بارے میں عالمی ریٹنگ ایجنسیاں تنبیہ کر رہی ہیں کہ پاکستان کے پاس ایک ماہ کا زرمبادلہ رہ گیا ہے۔
لہٰذا ماہ جون کے بعد سے اگر آئی ایم ایف پروگرام آیندہ مالی سال کے آغاز میں بحال نہ ہوا تو صورت حال انتہائی سنگین ہوکر رہ جائے گی۔ اس دوران ماہ جون کے کسی بھی دن کو وفاقی بجٹ پیش کیا جانا ہے جس کے لیے آئی ایم ایف نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ان سے پوچھ کر بجٹ بنایا جائے۔
اس طرح کی بہت سی باتیں معیشت کے حوالے سے انتہائی تشویش ناک زیر گردش تھیں کہ اچانک ساری معاشی صورت حال کو ملکی سیاسی ماحول نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے کہ 9 مئی کو ملک بھر کی سیاسی صورت حال نے معیشت کو زبردست جھٹکے دیے اور معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ ملک بھر کے طول و عرض میں ہنگاموں، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور کئی افراد کی ہلاکت کی خبروں نے اندرون ملک اور بیرون ملک پاکستان کے معاشی امیج کو انتہائی نقصان پہنچایا ہے۔
ان ہوش ربا خبروں کے ساتھ ہی ڈالر نے اونچی چھلانگ لگائی سونے کو ایسے پر لگے کہ یکایک سونا 10 ہزار روپے کے اضافے کے ساتھ 2 لاکھ 40 ہزار روپے فی تولہ تک جا پہنچا۔ اوپن مارکیٹ میں فی ڈالر 7روپے کے اضافے کے ساتھ 297 روپے کا ہو گیا۔
اسٹاک ایکسچینج میں مندی چھائی رہی۔ ملک بھر کے مختلف مقامات پر پتھراؤ، گھیراؤ اور جلاؤ کے عمل کے باعث جگہ جگہ دھوئیں کے بادل دکھائی دے رہے تھے ان دھوؤں میں اب آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدے کے امکانات نظر نہیں آ رہے ہیں۔
اس طرح کے سیاسی صورت حال کی غیر یقینی ماحول نے ترسیلات زر میں اضافے کے امکانات کو معدوم کردیے ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاری جوکہ پہلے ہی نچلی سطح کو چھو رہی تھی اس کو شدید نقصان پہنچے گا۔
روپے کی زبردست گراوٹ کے باعث سونے کی خریداری کا رجحان اور اس کی طلب میں اضافہ ابھی ہوا نہیں لیکن ان امکانات کے بھرپور ہونے کو مدنظر رکھتے ہوئے سونے کے بے تاج بادشاہوں نے فی تولہ سونے کی قیمت میں یکایک 9,900 روپے کا اضافہ کردیا اور یہ توجیہ پیش کی گئی کہ سونے کی قیمت کا ڈالر سے واسطہ رہتا ہے۔
لہٰذا ڈالر کے چڑھے ہوئے تیور کو دیکھ کر سونے کے ریٹ طے کرنے والوں نے ایسا نشانہ لگایا کہ سونا اب بیٹیوں کی شادی کے لیے خریدنے والوں کی پہنچ سے دور ہو کر کروڑوں کی سرمایہ کاری کرنے والوں کی پہنچ میں آگیا ہے کیونکہ اس طرح یکایک بڑھتی قیمت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو اس بات کی شے ملے گی کہ دھڑا دھڑ سونے کی خریداری کرکے وہ اپنے طور پر گرتے ہوئے روپے کو تھام لیں گے، یعنی وہ اپنے کروڑوں روپے کا بہتر استعمال اسی کو سمجھتے ہیں۔
عالمی مارکیٹ میں سونے کی قیمت 2031 ڈالر فی اونس پر مستحکم تھی جب کہ ڈالر کی دوڑ میں 7 روپے کے اضافے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ فی تولہ سونا 10 ہزار روپے تک بڑھا دیا جائے۔ ہو سکتا ہے اس سلسلے میں آیندہ عالمی مارکیٹ میں سونے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے امکانات کو مدنظر رکھ کر کیا گیا ہو۔
کیونکہ امریکا کے مالیاتی مسائل بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور سونے میں سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے۔ دراصل کووڈ 19 کے بعد سے عالمی صورت حال میں اس طرح تبدیلی آئی کہ صنعتوں میں سرمایہ کاری کے مقابلے میں سونے کی خریداری میں اضافہ ہوا ہے۔ کووڈ 19 کے دنوں میں یعنی مارچ، اپریل 2020 تک عالمی مارکیٹ میں سونا 1780 اور 90 سے بڑھ کر 1800 اور 1820 تک چلا آ رہا تھا۔
کووڈ گزرنے کے بعد عالمی معاشی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کا اندازہ لگایا گیا کہ غربت اور افلاس اور بے روزگاری کے باعث صنعتی اشیا کی خرید و فروخت میں کمی ہوئی ہے اور عالمی پیمانے پر خوراک کی طلب بڑھی ہے۔ بہت سے ممالک ایسے تھے کہ غذائی قلت کو مدنظر رکھتے ہوئے غلوں کے ڈھیر محفوظ کرنا شروع کردیا۔
ان دنوں عالمی منڈی میں تیل انتہائی سستا ترین تھا اور بہت سے ملکوں نے اس کے لیے بڑی خریداری کے آرڈرز دیے بڑی بڑی ذخیرہ گاہیں تعمیر کر لی گئیں اور بڑے پیمانے پر تیل کی خریداری کر لی گئی۔ سابقہ حکومت ان دنوں ایسا کوئی اقدام اٹھانے سے قاصر رہی۔ البتہ موجودہ حکومت نے کہا ہے کہ جہاں سے سستا تیل ملے گا خریدیں گے۔
اس بارے میں مزید یہ کہا گیا کہ روس سے پہلی کھیپ آنے پر جائزہ لیں گے۔ ہماری کس قدر ضرورت پوری کرتا ہے۔ بہرحال بات سونے کی ہو رہی تھی، کووڈ کے دنوں میں فی تولہ سونے کی قیمت 90 سے 95 ہزار روپے فی تولہ تک تھی۔ کووڈ سے بتدریج نکلتے ہوئے مارچ 2021 تک فی تولہ قیمت ایک لاکھ 20 ہزار تک جا پہنچی تھی۔
عالمی مارکیٹ میں بھی سونے کی قیمت فی اونس اضافہ ہو کر 1850 تک جا پہنچا۔ اس وقت 2031 تک جا پہنچی ہے۔ آیندہ چند ہفتوں میں مزید 10 ڈالر کے اضافے کی توقع ہے۔
دوسری طرف اسٹاک مارکیٹ میں بھی سرمایہ کاروں کے54 ارب روپے ڈوب گئے ہیں صورت حال اس وقت مزید خراب ہوجاتی ہے جب بھارت اور عالمی پیمانے پر بھی کئی ممالک کی میڈیا کے ذریعے ایسی خبریں اور مناظر دیکھنے کے بعد عالمی سرمایہ کار پاکستان میں کسی بھی قسم کی سرمایہ کاری سے کترانے لگتے ہیں اور پاکستانی برآمدات کے خواہاں تاجر اپنے آرڈرز کو روک دیتے ہیں۔
پہلے ہی پاکستان پر زبردست مالیاتی دباؤ ہے، ایسے میں ملکی سیاسی صورت حال کی ابتری نے ملکی سطح پر تجارت کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔
کئی افراد سے معلومات حاصل کرنے کے بعد یہ معلوم ہوا ہے کہ بڑے بڑے تجارتی مراکز میں سناٹا چھایا ہوا ہے ہر شخص نے جیسے اپنی جیب پر تالا لگا دیا ہے، دکانداروں نے کہا ہے کہ وہ بیٹھ کر گاہکوں کا انتظار کر رہے ہیں، کووڈ کے دنوں میں جس طرح کی صورت حال پیدا ہوگئی تھی جس کے معاشی اور مالی تجارتی نقصانات سے اب تک پاکستان نہیں نکل سکا۔
اس کے بعد 2022 کے اگست کے مہینے سے سیلاب کی تباہی اور بعد میں آئی ایم ایف کی کارستانیوں نے پاکستانی معیشت کو زبردست نقصان پہنچانے کے بعد اب سیاسی لحاظ سے پاکستانی معیشت کو چند دنوں میں زبردست نقصان پہنچ چکا ہے۔ جب ملک کی تجارت ہی داؤ پر لگ جائے تو معاشی پہیہ کس طرح سے چلے گا۔
سارے معاملات طلب و رسد کے درمیان ہی گھومتے ہیں۔ لوگوں کے پاس کچھ پیسہ ہے لیکن وہ صرف کھانے پینے اور دیگر انتہائی سخت ترین ضروریات پر ہی صرف کرتے ہیں اور دیگر ضروریات کو جب ٹالتے رہیں گے اور تجارتی مراکز، دکانداروں، حتیٰ کہ ریڑھی والوں کے پھل فروٹس، سبزیوں کی فروخت میں کمی ہو جائے دیگر چھوٹے چھوٹے اسٹال والے بدحالی کا شکار ہوجائیں۔
کئی تجارتی مراکز بند ہوچکے ہیں، کیونکہ وہاں پر ہنگامہ آرائی کا خوف ہے اب اس مارکیٹ کے باہر خوانچہ فروش، کھانے پینے کے چھوٹے اسٹال لگانے والے اس طرح دیگر افراد جن کا روزگار چل رہا تھا اب یکایک ان کی روٹی کے لالے پڑ چکے ہیں۔
لہٰذا یہ سیاسی بدامنی عالمی سطح کے لحاظ سے پاکستان کے لیے نقصان دہ اور ملکی سطح پر بھی پاکستانی تجارت صنعت و حرفت اور چھوٹے چھوٹے کاروبار سب کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے اور اس کے معیشت پر اثرات تادیر رہیں گے، لہٰذا حالیہ سیاسی ماحول نے پاکستانی معیشت کے لیے انتہائی تشویش ناک صورت حال پیدا کردی ہے۔
زرمبادلہ کے ذخائر ساڑھے چار ارب ڈالر کی باتیں ہو رہی تھیں اور یہ کہا جا رہا تھا کہ مالی سال گزرنے کے بعد پاکستان کی معاشی صورت حال کے بارے میں عالمی ریٹنگ ایجنسیاں تنبیہ کر رہی ہیں کہ پاکستان کے پاس ایک ماہ کا زرمبادلہ رہ گیا ہے۔
لہٰذا ماہ جون کے بعد سے اگر آئی ایم ایف پروگرام آیندہ مالی سال کے آغاز میں بحال نہ ہوا تو صورت حال انتہائی سنگین ہوکر رہ جائے گی۔ اس دوران ماہ جون کے کسی بھی دن کو وفاقی بجٹ پیش کیا جانا ہے جس کے لیے آئی ایم ایف نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ان سے پوچھ کر بجٹ بنایا جائے۔
اس طرح کی بہت سی باتیں معیشت کے حوالے سے انتہائی تشویش ناک زیر گردش تھیں کہ اچانک ساری معاشی صورت حال کو ملکی سیاسی ماحول نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے کہ 9 مئی کو ملک بھر کی سیاسی صورت حال نے معیشت کو زبردست جھٹکے دیے اور معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ ملک بھر کے طول و عرض میں ہنگاموں، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور کئی افراد کی ہلاکت کی خبروں نے اندرون ملک اور بیرون ملک پاکستان کے معاشی امیج کو انتہائی نقصان پہنچایا ہے۔
ان ہوش ربا خبروں کے ساتھ ہی ڈالر نے اونچی چھلانگ لگائی سونے کو ایسے پر لگے کہ یکایک سونا 10 ہزار روپے کے اضافے کے ساتھ 2 لاکھ 40 ہزار روپے فی تولہ تک جا پہنچا۔ اوپن مارکیٹ میں فی ڈالر 7روپے کے اضافے کے ساتھ 297 روپے کا ہو گیا۔
اسٹاک ایکسچینج میں مندی چھائی رہی۔ ملک بھر کے مختلف مقامات پر پتھراؤ، گھیراؤ اور جلاؤ کے عمل کے باعث جگہ جگہ دھوئیں کے بادل دکھائی دے رہے تھے ان دھوؤں میں اب آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدے کے امکانات نظر نہیں آ رہے ہیں۔
اس طرح کے سیاسی صورت حال کی غیر یقینی ماحول نے ترسیلات زر میں اضافے کے امکانات کو معدوم کردیے ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاری جوکہ پہلے ہی نچلی سطح کو چھو رہی تھی اس کو شدید نقصان پہنچے گا۔
روپے کی زبردست گراوٹ کے باعث سونے کی خریداری کا رجحان اور اس کی طلب میں اضافہ ابھی ہوا نہیں لیکن ان امکانات کے بھرپور ہونے کو مدنظر رکھتے ہوئے سونے کے بے تاج بادشاہوں نے فی تولہ سونے کی قیمت میں یکایک 9,900 روپے کا اضافہ کردیا اور یہ توجیہ پیش کی گئی کہ سونے کی قیمت کا ڈالر سے واسطہ رہتا ہے۔
لہٰذا ڈالر کے چڑھے ہوئے تیور کو دیکھ کر سونے کے ریٹ طے کرنے والوں نے ایسا نشانہ لگایا کہ سونا اب بیٹیوں کی شادی کے لیے خریدنے والوں کی پہنچ سے دور ہو کر کروڑوں کی سرمایہ کاری کرنے والوں کی پہنچ میں آگیا ہے کیونکہ اس طرح یکایک بڑھتی قیمت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو اس بات کی شے ملے گی کہ دھڑا دھڑ سونے کی خریداری کرکے وہ اپنے طور پر گرتے ہوئے روپے کو تھام لیں گے، یعنی وہ اپنے کروڑوں روپے کا بہتر استعمال اسی کو سمجھتے ہیں۔
عالمی مارکیٹ میں سونے کی قیمت 2031 ڈالر فی اونس پر مستحکم تھی جب کہ ڈالر کی دوڑ میں 7 روپے کے اضافے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ فی تولہ سونا 10 ہزار روپے تک بڑھا دیا جائے۔ ہو سکتا ہے اس سلسلے میں آیندہ عالمی مارکیٹ میں سونے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے امکانات کو مدنظر رکھ کر کیا گیا ہو۔
کیونکہ امریکا کے مالیاتی مسائل بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور سونے میں سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے۔ دراصل کووڈ 19 کے بعد سے عالمی صورت حال میں اس طرح تبدیلی آئی کہ صنعتوں میں سرمایہ کاری کے مقابلے میں سونے کی خریداری میں اضافہ ہوا ہے۔ کووڈ 19 کے دنوں میں یعنی مارچ، اپریل 2020 تک عالمی مارکیٹ میں سونا 1780 اور 90 سے بڑھ کر 1800 اور 1820 تک چلا آ رہا تھا۔
کووڈ گزرنے کے بعد عالمی معاشی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کا اندازہ لگایا گیا کہ غربت اور افلاس اور بے روزگاری کے باعث صنعتی اشیا کی خرید و فروخت میں کمی ہوئی ہے اور عالمی پیمانے پر خوراک کی طلب بڑھی ہے۔ بہت سے ممالک ایسے تھے کہ غذائی قلت کو مدنظر رکھتے ہوئے غلوں کے ڈھیر محفوظ کرنا شروع کردیا۔
ان دنوں عالمی منڈی میں تیل انتہائی سستا ترین تھا اور بہت سے ملکوں نے اس کے لیے بڑی خریداری کے آرڈرز دیے بڑی بڑی ذخیرہ گاہیں تعمیر کر لی گئیں اور بڑے پیمانے پر تیل کی خریداری کر لی گئی۔ سابقہ حکومت ان دنوں ایسا کوئی اقدام اٹھانے سے قاصر رہی۔ البتہ موجودہ حکومت نے کہا ہے کہ جہاں سے سستا تیل ملے گا خریدیں گے۔
اس بارے میں مزید یہ کہا گیا کہ روس سے پہلی کھیپ آنے پر جائزہ لیں گے۔ ہماری کس قدر ضرورت پوری کرتا ہے۔ بہرحال بات سونے کی ہو رہی تھی، کووڈ کے دنوں میں فی تولہ سونے کی قیمت 90 سے 95 ہزار روپے فی تولہ تک تھی۔ کووڈ سے بتدریج نکلتے ہوئے مارچ 2021 تک فی تولہ قیمت ایک لاکھ 20 ہزار تک جا پہنچی تھی۔
عالمی مارکیٹ میں بھی سونے کی قیمت فی اونس اضافہ ہو کر 1850 تک جا پہنچا۔ اس وقت 2031 تک جا پہنچی ہے۔ آیندہ چند ہفتوں میں مزید 10 ڈالر کے اضافے کی توقع ہے۔
دوسری طرف اسٹاک مارکیٹ میں بھی سرمایہ کاروں کے54 ارب روپے ڈوب گئے ہیں صورت حال اس وقت مزید خراب ہوجاتی ہے جب بھارت اور عالمی پیمانے پر بھی کئی ممالک کی میڈیا کے ذریعے ایسی خبریں اور مناظر دیکھنے کے بعد عالمی سرمایہ کار پاکستان میں کسی بھی قسم کی سرمایہ کاری سے کترانے لگتے ہیں اور پاکستانی برآمدات کے خواہاں تاجر اپنے آرڈرز کو روک دیتے ہیں۔
پہلے ہی پاکستان پر زبردست مالیاتی دباؤ ہے، ایسے میں ملکی سیاسی صورت حال کی ابتری نے ملکی سطح پر تجارت کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔
کئی افراد سے معلومات حاصل کرنے کے بعد یہ معلوم ہوا ہے کہ بڑے بڑے تجارتی مراکز میں سناٹا چھایا ہوا ہے ہر شخص نے جیسے اپنی جیب پر تالا لگا دیا ہے، دکانداروں نے کہا ہے کہ وہ بیٹھ کر گاہکوں کا انتظار کر رہے ہیں، کووڈ کے دنوں میں جس طرح کی صورت حال پیدا ہوگئی تھی جس کے معاشی اور مالی تجارتی نقصانات سے اب تک پاکستان نہیں نکل سکا۔
اس کے بعد 2022 کے اگست کے مہینے سے سیلاب کی تباہی اور بعد میں آئی ایم ایف کی کارستانیوں نے پاکستانی معیشت کو زبردست نقصان پہنچانے کے بعد اب سیاسی لحاظ سے پاکستانی معیشت کو چند دنوں میں زبردست نقصان پہنچ چکا ہے۔ جب ملک کی تجارت ہی داؤ پر لگ جائے تو معاشی پہیہ کس طرح سے چلے گا۔
سارے معاملات طلب و رسد کے درمیان ہی گھومتے ہیں۔ لوگوں کے پاس کچھ پیسہ ہے لیکن وہ صرف کھانے پینے اور دیگر انتہائی سخت ترین ضروریات پر ہی صرف کرتے ہیں اور دیگر ضروریات کو جب ٹالتے رہیں گے اور تجارتی مراکز، دکانداروں، حتیٰ کہ ریڑھی والوں کے پھل فروٹس، سبزیوں کی فروخت میں کمی ہو جائے دیگر چھوٹے چھوٹے اسٹال والے بدحالی کا شکار ہوجائیں۔
کئی تجارتی مراکز بند ہوچکے ہیں، کیونکہ وہاں پر ہنگامہ آرائی کا خوف ہے اب اس مارکیٹ کے باہر خوانچہ فروش، کھانے پینے کے چھوٹے اسٹال لگانے والے اس طرح دیگر افراد جن کا روزگار چل رہا تھا اب یکایک ان کی روٹی کے لالے پڑ چکے ہیں۔
لہٰذا یہ سیاسی بدامنی عالمی سطح کے لحاظ سے پاکستان کے لیے نقصان دہ اور ملکی سطح پر بھی پاکستانی تجارت صنعت و حرفت اور چھوٹے چھوٹے کاروبار سب کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے اور اس کے معیشت پر اثرات تادیر رہیں گے، لہٰذا حالیہ سیاسی ماحول نے پاکستانی معیشت کے لیے انتہائی تشویش ناک صورت حال پیدا کردی ہے۔