جائے پناہ کہاں تلاش کروں
معصوم بچے صرف اپنے مذہب کی وجہ سے نشانہ بنے ہیں۔ زخمی بچوں کو علاج کی سہولت بھی دستیاب نہیں۔۔۔
واقعہ کچھ پرانا ہے مگر اس کی تپش آج بھی محسوس کی جا رہی ہے اور اندیشہ ہے کہ قتل و غارت کا سلسلہ پھر سے شروع نہ ہو جائے۔ اس ہلاکت خیز خبر کو ذہن میں رکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے افریقہ کے وسطی ریاست میں مسلمان بچوں کے لرزہ خیز قتل عام کو انتہائی بھیانک اور انسانی المیہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ معصوم اور بیگناہ بچوں کا سفاکانہ اور وحشیانہ قتل عام دیکھ کر وہ کانپ اٹھے۔ یونیسیف کے ریجنل ڈائریکٹر برائے مغربی و وسطی افریقا مینوئل فونٹین نے اپنے جاری بیان میں کہا ہے کہ وسطی افریقی ریاست میں فرقہ وارانہ فسادات میں گزشتہ 2 ماہ کے دوران 133 سے زائد معصوم بچوں کو انتہائی بیدردی اور سفاکی سے قتل کر دیا گیا۔ بچوں کے سر تن سے جدا کر دیے گئے یا ان کے جسم کے اعضا کاٹ دیے گئے۔ جہاں بالغ لوگ بے گناہ بچوں کا وحشیانہ قتل عام کرتے ہوں وہاں ملک کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔
معصوم بچے صرف اپنے مذہب کی وجہ سے نشانہ بنے ہیں۔ زخمی بچوں کو علاج کی سہولت بھی دستیاب نہیں، یہ انسانی المیہ ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے خبردار کیا ہے کہ افریقی جمہوریت میں بڑھتا ہوا تشدد نسل کشی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ عالمی برادری وسطی افریقی جمہوریہ کے عوام کی مدد کے لیے آگے بڑھے اور وہاں قیام امن کی کوششوں کا حصہ بنیں جہاں تشدد کے نتیجے میں 7 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔اس بیان کے دوسرے دن یعنی 15 فروری 2014ء کو میڈیا رپورٹس کے مطابق صوفیہ، پلوڈیف بلغاریہ کی مقامی عدالت میں 100 سال سے بند مسجد کی بحالی سے متعلق ایک درخواست کی سماعت ہو رہی تھی۔ اس موقع پر عدالت کے باہر تقریباً 2 ہزار افراد نے مسجد کی بحالی کے خلاف نعرے بازی کی۔ یہ مسجد وسطی شہر کارلوو میں 100 سال پہلے حکومت نے بند کر دی تھی جسے متعدد دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
مظاہرین نے قریبی مسجد کی طرف بڑھنے کی کوشش کی جہاں پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔ مشتعل افراد نے مسجد پر پٹرول بم پھینکے اور پتھراؤ کیا جس سے ایک پولیس اہلکار زخمی ہو گیا جب کہ مسجد کا کچھ حصہ جل کر راکھ ہو گیا۔ بلغاریہ کے مفتی اعظم نے مسجد پر حملے کی کوشش کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے مذہبی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔ خیال رہے کہ بلغاریہ کی 7.3 ملین آبادی میں مسلمان آبادی کا تناسب 13 فیصد ہے۔ قبل ازیں 14 فروری 2014ء کو نئی دہلی کے نواح میں واقع گڑگاؤں میں 300 سالہ قدیم شاہی مسجد کو شرپسندوں نے شہید کر دیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق شرپسند عناصر نے پولیس کی نگرانی میں مسجد کو شہید کیا اور اس کارروائی میں 8 گھنٹے لگے۔ شرپسند اطمینان سے کارروائی کرتے رہے اور انھوں نے مسلمانوں کے خلاف نعرے بازی بھی کی، تحفظ مسجد کمیٹی کے ایک رکن ہارون رشید نے بتایا کہ یہ کارروائی رات کے اندھیرے میں کی گئی۔ یہاں راہبر اور دیگر برادریوں کا قبضہ ہے اور ان ہی لوگوں میں سے چند شرپسند عناصر نے یہ کام کیا۔
ادھر مراکش کی سب سے بڑی مسجد میں بیلجیم مقابلہ حسن 2013ء کے شرکا نے قابل اعتراض فوٹو سیشن کرایا جس کے بعد ایک تنازع کھڑا ہو گیا تھا۔کاسا بلانکا کے مقدس مقام میں کھینچی گئی یہ قابل اعتراض تصویر انٹرنیٹ کے ذریعے بڑے پیمانے پر پھیلائی گئی تھی۔ اس تصویر نے متعدد سوالات کو جنم دیا کہ مراکش کا کون سا ادارہ اس عریاں فوٹو شوٹ کی اجازت دینے کا ذمے دار ہے۔ سنجیدہ طبقوں نے مسجد میں نیم عریاں دوشیزاؤں کے فوٹو شوٹ کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے ذمے دار افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا جب کہ بعض حلقے اس معاملے سے خود کو لاتعلق ظاہر کرتے ہوئے اس رائے کا اظہار کرتے رہے کہ یہ جگہ اپنی روایتی مذہبی اہمیت کھو چکی ہے کیونکہ اسے عبادت گاہ کے طور پر نہیںبلکہ ایک سیاحتی مقام کے طور پر بنایا گیا، 22 مئی 2013 کو پاکستان نے مسجد اقصیٰ کے نیچے کھدائی اور سرنگ بنانے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی حکومت کے اس عمل سے مسجد کے اسٹرکچر کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب مسعود خان نے سیکیورٹی کونسل آگاہ کیا تھا کہ زیر زمین 3 ہزار میٹر لمبے گرڈ کی تعمیر سے اسلامی یادگاروں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے اس لیے اس معاملے پر فوری طور پر اسرائیل فلسطین مذاکرات شروع کیے جائیں۔ یاد رہے اسرائیلی حکام نے 10 ستمبر 2013ء کو مسجد اقصیٰ کے دروازے بند کر دیے اور فلسطینیوں کو مسجد میں داخل ہونے سے روک دیا جب کہ 50 سے زائد فلسطینی مسجد کے اندر ہی محصور ہو کر رہ گئے تھے اور تقریباً 5 سو اسرائیلی پولیس اہلکار زبردستی مسجد اقصیٰ کے احاطے میں داخل ہو گئے اور فلسطینیوں پر حملہ کر دیا تھا جن میں مرد و خواتین اور اسکولوں کے طلبا بھی شامل تھے۔ اسی روز یہودیوں کے نئے سال کی تقریبات اور مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے اسرائیل نے الخلیل شہر میں مسجد ابراہیمی کو نمازیوں کے لیے بغیر کسی وجہ کے بند کر دیا تھا جس کی شدید مذمت کی گئی تھی۔
15 اکتوبر 2013ء کو یہودی آبادکاروں نے اسرائیلی فوج کی مدد سے مسجد اقصیٰ پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں مسجد میں فلسطینی مشتعل ہو گئے تھے اور فلسطینیوں اور یہودی آبادکاروں کے درمیان جھڑپوں میں متعدد افراد زخمی ہو گئے تھے۔یہ 10 اکتوبر 2013ء کا واقعہ ہے عراق میں بغداد شہر کے مشرقی علاقے بغداد جدیدیہ میں واقع ایک مسجد میں نماز فجر کی ادائیگی کے دوران مسلح افراد مسجد میں گھس آئے اور انھوں نے سائلنسر لگی گنوں سے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 5 نمازی جاں بحق جب کہ متعدد زخمی ہو گئے تھے۔ اس کے دوسرے روز سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو کے علاقے گرینڈ پاس میں واقع ایک مسجد پر بودھ انتہا پسندوں کے ایک گروہ نے حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں 7 افراد زخمی ہو گئے تھے۔ بعدازاں بودھوں کے مسلمانوں پر حملوں کے بعد کولمبو میں نئی تعمیر کردہ مرکزی مسجد بند کر دی گئی۔ 13 اگست 2013ء کو نائیجیریا کے صوبے بورنو کے ایک علاقے کونڈوگا کی مسجد پر نامعلوم حملہ آوروں کی فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم 44 نمازی جاں بحق ہو گئے تھے۔ 6
جولائی 2013ء کو امریکی ریاست نیوجرسی کی منٹمگری اسٹریٹ پر واقع مسجد کے باہر ایک نوجوان پر 3 سیاہ فاموں نے فائرنگ کر دی تھی، جان بچانے کے لیے اس نے مسجد میں پناہ لینے کی کوشش کی جہاں تراویح کی نماز ادا کی جا رہی تھی۔ 24 جولائی 2013ء کو لبنان کے شہر طرابلس میں نماز جمعہ کے بعد 2 مساجد میں یکے بعد دیگرے ہونیوالے 2 بم دھماکوں میں 42 افراد جاں بحق اور 500 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔
ادھر امریکی شہر نیویارک میں انسداد دہشتگردی کی کوششوں کے سلسلے میں نیو یارک پولیس ڈپارٹمنٹ کی طرف سے مسجدوں اور نمازیوں کی نگرانی کا قانونی جواز موجود ہے۔ 15 اگست 2013ء کو بعث پارٹی کے بانی فیاض جو لبنانی کابینہ میں 7 برس وزیر رہے ہیں نے اوٹی وی کو انٹرویو میں ہذیان بکتے ہوئے کہا تھا کہ کعبہ پتھروں سے بنا ہوا ہے اور انسان کی قدر پہاڑوں اور پتھروں سے زیادہ ہے انھوں نے ہرزہ سرائی کی تھی کہ وہ شامی صدر بشار الاسد کے لیے اللہ کے گھر کعبہ کو بھی تباہ کر سکتے ہیں، ایتھنز پورے یورپ میں ایک واحد دارالحکومت ہے جہاں کوئی مسجد نہیں ہے اب تک ایتھنز کے مسلمان180 سال مسجد کی تعمیر کے منتظر ہیں۔
شہر کے پاس فوج کے لیے مخصوص ایک غیر استعمال شدہ جگہ کو پہلی مسجد کے لیے منتخب کیا گیا ہے جس میں 500 لوگ نماز پڑھ سکیں گے۔ مسجد تعمیر ہوئی تو اس کے دروازے کے پاس ہی چرچ بھی ہو گا جس پر آنے جانیوالوں کی نظر پڑ سکے گی۔ چرچ کے ایک بشپ سیرافم کا کہنا ہے کہ ترکی کے دور اقتدار میں یونان نے 5 صدیوں تک اسلامی ظلم برداشت کیا اور مسجد کی تعمیر سے ان شہیدوں کی توہین ہو گی جنھوں نے ہمیں آزادی دلائی تھی۔عالم اسلام کے لیے یہ چشم کشا حقائق ہیں۔