صوبہ مانگنے کی سزا بہاولپور موٹر وے سے باہر سب سیکرٹریٹ بیورو کریسی کا دوہرا پھندا

ملک لسانی اور نسلی طور پر تقسیم ہے، کوئی پاکستان کی نہیں سوچتا، صوبے ڈویژن کی سطح پر ہونے چاہئیں

انتخابی منشور میں صوبوں کا وعدہ کرنے والے عوام کے انتقام کا شکار ہو سکتے ہیں، ایکسپریس فورم میں شرکاء کا اظہار خیال۔ فوٹو : ظہور الحق/ ایکسپریس

لاہور:
موجودہ حکومت نے اپنے انتخابی منشور میں بہاولپور اور جنوبی پنجاب کو صوبے بنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن بعد میں ایک کمیٹی بنا دی گئی جس نے جنوبی پنجاب میں سب سیکرٹریٹ قائم کرنے کی تجویز دی ہے جسے جنوبی پنجاب کے عوام نے رد کر دیا ہے۔

دوری طرف لاہور سے کراچی جو موٹروے بنائی جا رہی ہے اس کے ڈیزائن کے مطابق یہ موٹروے بہاولپور کی بجائے علی پور سے گزرے گی۔ حکومت کے انتخابی وعدوں' سب سیکرٹریٹ کی تجویز اور موٹر وے کے مسئلے پر ایکسپریس فورم میں ایک سیر حاصل بحث ہوئی۔ فورم میں سابق سینٹر اور سابق وزیراطلاعات محمد علی درانی' سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے شرکت کی۔ فورم کے شرکاء نے جن خیالات کا اظہار کیا اس کی تفصیل ذیل میں بیان کی جارہی ہے۔

محمد علی درانی (سابق سینیٹرو سابق وزیراطلاعات)

میں نے 2008ء میں بہاولپور صوبے کی بحالی اور جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کی تحریک شروع کی تھی۔ جب یہ تحریک چلتی رہی تو 2011ء میں پنجاب اسمبلی نے دومتفقہ قرار دادیں منظور کیں جن میں سے ایک قرار داد بہاولپور صوبے کی بحالی اور دوسری جنوبی پنجاب کے صوبے کے قیام سے متعلق تھی۔ اس قرار داد کے بعد قومی اسمبلی اور سینٹ کو 18 ویں ترمیم کے بعد پنجاب اسمبلی کی قرار دادوں کو آگے بڑھانا چاہئے تھا لیکن پیپلز پارٹی نے اس کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کر دی اور متفقہ قرار داد کا راستہ روکا اس کے بعد 2013ء کے الیکشن کا عمل شروع ہوا تو اس میں سیاسی پارٹیوں نے اپنے اپنے منشور دیئے (ن) لیگ نے جو منشور دیا انہوں نے کہا کہ ہم بہاولپور صوبے کو بحال کریں گے اور ملتان اور ڈی جی خان ڈویژن پر مشتمل ایک نیا صوبہ بنائیں گے۔

پیپلز پارٹی نے اپنے 2008 الیکشن کے منشور میں بہاولپور ملتان اور ڈی جی خان پر مشتمل جنوبی پنجاب کے نام سے نیا صوبہ بنانے کا کہا تھا۔ اس کو یوسف رضا گیلانی لیڈ کر رہے تھے۔ اس پر الیکشن میں عوام نے ایک طرح سے ریفرنڈم کی طرح فیصلہ دیا۔ 2008ء میں پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب اور بہاولپور کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی تھی جبکہ 2013ء کے الیکشن میں بہاولپور اور جنوبی پنجاب کے عوام نے پیپلزپارٹی کو یکسر مسترد کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کو کامیاب کرایا۔ بہاولپور کی 15 سیٹیں ہیں۔ 2008ء میں 9 سیٹیں پیپلزپارٹی کے پاس تھیں دو مسلم لیگ ن کے پاس تھیں۔ 3 سیٹیں ق لیگ کے پاس تھیں اور ایک پرفکنشل لیگ کاامیدوار کامیاب ہوا تھا۔ 2013ء کے الیکشن میں 12 سیٹیں ن لیگ کی ہیں' دو سیٹیں پیپلزپارٹی کی اور ایک ق لیگ نے حاصل کی۔ عوام نے پورا مینڈیٹ بہاولپور صوبہ کی بحالی کی قرار داد منظور کرانے والی پارٹی کو دیا۔

پیپلز پارٹی کے نئے صوبے بنانے کا راستہ روکنے پر عوام نے اسے رد کر دیا۔ یہی حال ملتان اور ڈی جی خان ڈویژن میں ہوا۔ اس علاقہ کی قومی اسمبلی کی 28 سیٹیں ہیں' 2008ء میں پیپلز پارٹی نے 13' ن لیگ نے 3 سیٹیں حاصل کی تھیں۔ ق لیگ کی 9 سیٹیں تھیں۔ 2013 کے الیکشن میں ن لیگ کی 25 اور پی ٹی آئی نے دو سیٹیں حاصل کیں جبکہ پیپلزپارٹی اس علاقے سے کوئی سیٹ حاصل نہ کر سکی۔ پیپلزپارٹی کو عوام نے صرف اس لئے رد کر دیا کہ اس نے جنوبی پنجاب صوبے پر عوام کے احساسات اور مطالبات کو پورا نہیں کیا تھا۔ ہمارا مؤقف ہے کہ ن لیگ کو اس علاقے سے 80 فیصد سے زیادہ سیٹیں اس کے الیکشن منشور کے نتیجے میں ملیں لیکن ن لیگ اب تک پرانی قرار دادوں پر عمل نہیں کر رہی لیکن اس کی بجائے ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے جس نے تجویز دی ہے کہ صوبے کی بجائے جنوبی پنجاب میں سب سیکرٹریٹ بنایا جائے میں اس سب سیکرٹریٹ کو دو نمبر سیکرٹریٹ اس لئے کہتا ہوں کہ اس خطے کے عوم کا گلہ ہے کہ انہیں دوسرے درجے کا شہری سمجھا گیا کیونکہ اس سیکرٹریٹ میں ایک ایڈیشنل سیکرٹری بیٹھے گا۔ جس کا مطلب ہے کہ عوام کو دوہرے سرخ فیتے سے پالا پڑے گا۔ پہلے وہ ایک سیکرٹریٹ میں خوار ہوں گے پھر دوسرے سیکرٹریٹ میں خوار ہوں گے کیونکہ اصل اختیار تو سیکرٹری کے پاس ہوتا ہے۔ پنجاب کی نوکریوں میں بہاولپور کا 13 فیصد حصہ بنتا ہے اس وقت بہاولپور کے افراد کا نوکریوں میں تناسب 1.3 فیصد ہے۔



بہاولپور کی وجہ سے پنجاب کو این ایف سی کا جو حصہ ملتا ہے وہ 160ارب ہے بہاولپور کو جو دیا جاتا ہے وہ 15 ارب سے زیادہ نہیں ہے۔ ٹریسی ریٹ پنجاب میں 60 فیصد ہے جبکہ بہاولپور میں یہ 32 فیصد ہے۔ پاکستان میں خط غربت سے نیچے 26 فیصد لوگ ہیں جبکہ بہاولپور میں یہ تناسب 52 فیصد ہے۔ اب یہ دیکھیں کہ لاہور سے کراچی تک موٹروے بن رہی ہے اس میں خانیوال سے موٹروے کو بہاولپور لانے کی بجائے علی پور کے راستے سے گزارا جا رہا ہے جس سے فاصلہ 45 کلو میٹر بڑھ جائے گا دوسری طرف بہاولپور' بہاولنگر' وہاڑی اور پاکپن کے عوام موٹر وے کے فائدے سے محروم رہیں گے جبکہ انگریز نے جب ریلوے لائن بچھائی تو یہ بہاولپور کے راستے سے بچھائی اور ملتان کے لئے لوپ لائن دی تھی۔ یہ بات بہاولپور کے عوام کو کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے۔ جنوبی پنجاب اور بہاولپور کے عوام کی محرومیوں کو کم کرنے کی بجائے انہیں بڑھایا جا رہا ہے۔ میں ایکسپریس فورم کی وساطت سے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور وزیراعظم میاں نواز شریف سے درخواست کرتا ہوں کہ ہمیں ہمارا صوبہ دیں۔


میاں نواز شریف صاحب نے بہاولپور میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ بہاولپور صوبہ تھا اور یہ صوبہ یہاں کے عوام کا آئینی اور قانونی حق ہے۔ ہم اس صوبے کو بحال کریں گے اور جنوبی پنجاب کو بھی صوبہ بنائیں گے۔ تمام پارٹیوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اگر وہ اپنے الیکشن منشور سے ہٹ کر کوئی راستہ اپناتی ہیں تو اس کے نتیجے میں وہ صرف عوام کو ہی مایوس نہیں کرتیں بلکہ حقیقت میں وہ خود اپنے رب کے سامنے' اپنے حلف کے سامنے اور اپنے کئے ہوئے اقرار کے سامنے بھی منحرف ہوتی ہیں اوریہ وعدہ خلافی بہاولپور اور جنوبی پنجاب کے عوام کے لئے انتہائی دکھ کا سبب بن رہی ہے۔ حکومت کو اپنے انتخابی منشور کے مطابق صوبے بنانے پڑیں گے۔

الیکشن کے نتائج دیکھ لیں سیاسی انقلاب آچکا ہے اگر حکومت نے اپنے وعدے پورے نہ کئے تو وہ عوام کے سیاسی انتقام کا شکار ہو جائیں گے جس طرح پیپلزپارٹی شکار ہوئی۔ یہ سیاسی انقلاب صوبوں کی حمایت پر آیا۔ اگر بہاولپور صوبہ بن جائے تو صوبوں کی مزید تقسیم کوئی نہیں روک سکتا اگر ایسا نہ کیاگیا تو صوبے کے نام پر ووٹ لینے والوں کا گھر جانا مشکل ہو جائے گا۔ اگر حکومت نے 6 مہینے میں یہ کام نہ کیا تو میں الیکشن کمیشن جاؤں گا کہ منشور کے مطابق انتخابی وعدے پورے نہیں کئے گئے۔ میں سپریم کورٹ میں رٹ دائر کروں گا کہ جنوبی پنجاب اور بہاولپور کو صوبہ بنانا عوام کا حق ہے۔ دوسرے صوبے لسانی بنیادوں پر نہیں بننے چاہیں بلکہ عوام کے مسائل کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا چاہیئے۔

شمشاد احمد خان (سابق سیکرٹری خارجہ)

میں سمجھتا ہوں کہ سارے مسئلے ملک کے اندر ہیں ملک سے باہر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہمارا ملک کے باہر اگر کوئی خراب امیج ہے تو وہ ہمارے اندرونی مسائل اور اندرونی ناکامیوں کی وجہ سے ہے۔ میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ ہم ایک ایسے دائرے میں پھنس گئے ہیںجس سے ہم اگلے 65 سو سال میں بھی اس سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔ ہمارا بنیادی طور پر قبلہ ہی درست نہیں۔ جب تک ملک کے سسٹم اور سٹرکچر میں تبدیلی نہیں آئے گی اس وقت تک نہ توگڈ گورنس ہوگی نہ مسائل ختم ہونگے نہ عوام کی طرف کوئی توجہ دینے والا ہوگا۔ اس کا فائدہ صرف حکمرانوں کو ہوگا۔ عوام ایک چکی میں پستے رہیں گے۔ پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں۔ یہاں کے حکمرانوں نے کبھی وعدے پورے نہیں کیے۔ بہاولپور اور جنوبی پنجاب کے صوبے بننے سے اگر عوام کے مسئلے حل ہوتے ہیں تو بڑی اچھی بات ہے لیکن میں پورے ملک کی بات کرتا ہوں۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو بہت بڑی آبادی اور رقبے کے باوجود اتنے کم انتظامی یونٹ یا اتنے بڑے بڑے صوبے رکھتا ہے۔

صرف پنجاب اقوام متحدہ میں شامل 50 آزاد ریاستوں کے برابر ہے۔ اس وجہ سے ہمیں اپنے ملک کے انتظامی ڈھانچے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے ہمیں جذبات سے نہیں عقل سے کام لینا ہوگا۔ جنوبی پنجاب میں سب سیکرٹریٹ کھولنا مسائل کا حل نہیں بلکہ اس سے مسائل اور بڑھیں گے جتنے بڑے سیکرٹریٹ اس وقت پاکستان میں ہیں دنیا بھر میں کہیں اور نہیں ہیں یہ سب خزانے پر بوجھ اور کرپشن کا گڑھ ہیں۔ پنجاب اتنا بڑا صوبہ ہے کہ لاہور سے بیٹھ کر راجدھانی تو چلائی جاسکتی ہے لیکن عوام کے مسئلے کیسے حل ہونگے۔ ہمیں صوبوں کا سائز چھوٹا کرنا ہوگا۔ خود چار صوبے ہونا ہی فالٹ لائن ہے پاکستان واحد ملک ہے جو لسانی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم ہوا۔ ہماری پہلی ترجیح اپنی نسل اور اپنی زبان ہوتی ہے۔ قوم کہاں ہے۔



قوم اس وقت تک نہیں بنیں گے جب تک آپ نسلی اور لسانی بنیادوں سے چھٹکارا حاصل نہیں کرینگے۔ قائداعظم کا پاکستان تھا کہ اس پر کوئی نسلی یا لسانی لیبل نہیں ہوگا۔ پاکستانی ہونگے لیکن تصور پاکستان کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ سیاستدان صورتحال میں تبدیلی نہیں چاہتے کیونکہ اگر صورتحال تبدیل ہوگئی تو ان کی طاقت ختم ہوجائے گی۔ اب یہ ایک چیلنج ہے موجودہ حکمران طبقے کی موجودگی میں تبدیلی ناممکن ہے۔ اصل میں انتظامی ڈھانچہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ جو لوگ 1971ء میں ملک توڑنے کے ذمہ دار تھے وہ 1973ء کا آئین بنانے کے ذمہ دار بن گئے وہ تو مغربی پاکستان کی اسمبلی کیلئے منتخب ہوئے تھے۔ جب پاکستان ٹوٹ گیا مغربی پاکستان کی اسمبلی کو تو عوام نے آئین بنانے کا مینڈیٹ نہیں دیا تھا۔ ہمیں اس وقت قانون سازی کیلئے نئی اسمبلی منتخب کرنی چاہیے تھی۔ سیاستدانوں نے خود غرضی کی بناء پر ملک توڑا اور اکثریت کا فیصلہ نہیں مانا۔ آئین میں 1973ء سے لیکر آج تک 20 ترامیم کی گئیں لیکن کوئی بھی ایسی ترمیم نہیں ہے جو عوام کیلئے ہو جس سے نظام بہتر ہو۔

ملک کا جو ڈھانچہ ہے اس میں تبدیلی لانے کیلئے ہو۔ صرف مصلحتیں آڑے آتی رہیں۔ نقشہ بدلنے کی ضرورت ہے۔ میری نظر میں موجودہ چار صوبے ختم ہونے چاہئیں، نسلی اور لسانی لیبل ختم ہونا چاہیے۔ میں نہیں کہتا کہ جنوبی پنجاب زبان کی بنیاد پر صوبہ بنے۔ انتظامی طور پر حالات بہتر کرنے کیلئے ہمیں جتنے صوبے چاہئیں وہ بنانے چاہئیں۔ ملک میں 30 سے 40 صوبے ہونے چاہئیں تاکہ گڈ گورننس لوکل سطح پر ہوسکے۔ بہترین حل ہے کہ ملک کے جتنے بھی پرانے ڈویژن تھے انہیں صوبہ بنادیا جائے اور ہر صوبے میں زیادہ سے زیادہ تین اضلاع ہوں اس سے مقامی سطح پر ترقی ممکن ہوسکے گی کیونکہ بڑے بڑے صوبوں میں گڈگورننس ممکن نہیں۔ ہمیں بے تحاشا بیورو کریسی کی فوج نہیں چاہیے۔ چھوٹے یونٹ ہوں گے تو انتظامی معاملات درست ہوں گے اور اخراجات بھی کم ہوجائیں گے۔
Load Next Story