امّی کہنا نہیں مانتیں

بچے بڑے ہوجائیں تب بھی مائیں انہیں چھوٹے بچوں کی طرح برتتی ہیں

ہر ماں اپنی اولاد کو زندگی کی سرد گرم ہواؤں سے بچانا چاہتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

ماں کی آغوش بچے کو پناہ کا پہلا احساس فراہم کرتی ہے۔ ماں کا وجود زندگی کے دشت میں شبنمی سائے کی طرح ہوتا ہے۔ ماں کا دل اولاد کے دل سے جڑا ہوتا ہے۔ اس لیے وہ ہماری ہر کیفیت بھانپ لیتی ہے۔ ماں کی بے لوث چاہت کسی قسم کا خراج نہیں مانگتی۔ ماں کا ساتھ زندگی کی اونچی نیچی پگ ڈنڈیوں پر اعتماد کے ساتھ چلنے کا بڑا سہارا ہوتا ہے۔


ماں وہ عظیم ہستی ہے جس کی انمول محبتوں اور قربانیوں کا قرض ہم پوری عمر خدمت کرکے بھی اتار ہی نہیں سکتے۔ مزا تو تب ہے کہ جب ہم اپنا ہر لمحہ ماں کے حکم پر لبیک کہہ کر گزاریں اور اپنے عمل سے یہ ثابت کر دکھائیں کہ ہماری زندگی کا ہر پل ماں کےلیے وقف ہے۔


دنیا بھر میں ماؤں کا عالمی دن ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو انتہائی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ اس دن کی اہمیت سے ہر کوئی واقف ہے۔ وہاں ماں سے محبت کا اظہار کرنے کےلیے اکثر افراد نہ صرف اپنے گھروں میں بلکہ دفاتر اور پرس میں بھی ماں کی تصویر سجا کر رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں ماں سے چاہت کا باقاعدہ اظہار کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔


ہمارے آج کے نوجوان ماں سے محبت کا اظہار تو دور کی بات، ذرا ذرا سی باتوں پر گلہ کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ ہم نے سوچا کہ کیوں نہ چپکے سے ماؤں تک وہ تمام باتیں پہنچادیں جو اکثر نوجوانوں کے دلوں میں کلبلاتی ہیں۔ لیکن کیا کیا جائے کہ بعض باتیں امی کی سمجھ میں آتی ہی نہیں۔ آپ نے بھی نوجوانوں کو یہ کہتے سنا ہوگا کہ امی ''کہنا نہیں مانتیں''۔


بعض نوعمر لڑکوں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ امی گھر سے باہر خصوصاً بڑی شاہراہوں پر موٹر سائیکل چلانے کی اجازت نہیں دیتیں۔ انہیں اپنے گھر سے دفتر جانے میں دو گھنٹے لگ جاتے ہیں اور اسی طرح واپسی پر بھی دو گھنٹے لگتے ہیں۔ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کےلیے کئی ایک ویگن اور چنگچی بدلنا پڑتی ہیں۔ صبح شام آفس جاتے ہوئے اور چھٹی کےاوقات میں کوچز کی چھتیں تک مسافروں سے بھری ہوتی ہیں۔ گھنٹوں اسٹاپ پر مطلوبہ بس کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ دفتر آنے جانے میں بہت دشواری ہوتی ہے۔ نوجوان امی سے کہہ کہہ کر تھک جاتے ہیں کہ انہیں بائیک پر آنے جانے کی اجازت دے دیجیے، لیکن امی ان کی ایک نہیں سنتیں۔


مائیں دراصل اولاد کے معاملے میں بہت حساس ہوتی ہیں۔ جب وہ آئے دن روڈ ایکسیڈنٹ کے واقعات دیکھتی ہیں تو ان کے دل میں حادثات کا خوف بیٹھ جاتا ہے۔

آپ نے دیکھا ہوگا کہ لڑکوں کو گھر آنے میں ذرا سی دیر ہوجائے تو ماؤں کے دل دہلنے لگتے ہیں۔ وہ فکرمند ہوکر راہ دیکھتی رہتی ہیں۔ اب لڑکے چاہے لاکھ وعدے کریں کہ وہ احتیاط سے موٹر سائیکل چلائیں گے، مگر امی ان کی باتیں ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتیں۔


مائیں اپنی اولاد پر بھروسہ کریں گی تو ان کا وقت بھی ضایع نہیں ہوگا۔ ویگن کے پائے دان پر لٹک کر نہیں آنا پڑے گا۔ دیر سے گھر پہنچنے کی وجہ سے پریشانی بھی نہیں ہوگی۔ اور بچے خود کو پہلے سے زیادہ پُراعتماد محسوس کریں گے۔



ماں کی ممتا اسے ہی تو کہتے ہیں۔ بچے بڑے ہوجائیں تب بھی مائیں انہیں چھوٹے بچوں کی طرح برتتی ہیں۔ ہر ماں اپنی اولاد کو زندگی کی سرد گرم ہواؤں سے بچانا چاہتی ہے۔


یہ حقیقت ہے کہ آج نہیں تو کل، آپ کو اپنے بیٹوں کو یہ اجازت دینی پڑے گی کیوں کہ وہ عملی زندگی میں قدم رکھ چکے ہیں۔ اور اپنی سواری پر آنے جانے میں سہولت رہتی ہے، اس لیے اپنے سمجھ دار بچوں پر اعتبار کیجیے، انہیں پُراعتماد بنانے میں اپنا مؤثر کردار ادا کیجیے۔


ہم جانتے ہیں کہ مائیں اپنی اولاد کو حوادثِ زمانہ سے بچانا چاہتی ہیں۔ لیکن حادثے کے خوف سے اپنی اولاد پر اعتماد نہ کرنا بھی تو زیادتی ہے۔


ماؤں کو اپنی بیٹیاں بھی کم لاڈلی نہیں ہوتیں۔ وہ بچیوں کے سکھ کی خاطر گھر بھر کی ساری ذمے داریاں خود اٹھاتی ہیں۔ بیٹیاں امی کا ہاتھ بٹانا چاہتی ہیں تو امی اکثر یہ کہہ کر باورچی خانے سے بھگا دیتی ہیں کہ جاؤ اسکول یا کالج کا کام کرو۔ لڑکیاں جب یونیورسٹی جانے لگتی ہیں تو ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ میری بیٹی اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائے۔ ان کے ذہن کے پردے پر گزرے وقتوں کے منظر ابھرنے لگتے ہیں۔ سوچتی ہیں، میری تعلیم ادھوری رہ گئی تھی، مگر میری بچی پڑھ لکھ کر اچھے ادارے میں نوکری کرنے لگے تو میں پھر سے جی اٹھوں گی۔ اور جب ماؤں کا یہ خواب سچا ہوجاتا ہے تو وہ یہ کہتی ہیں کہ دفترمیں بہت کام ہوتا ہے۔ میری بچی تھک جاتی ہے۔ میں گھر ہوتی ہوں اس لیے سب کام کرلیتی ہوں۔ حتیٰ کہ چھٹی والے دن بیٹیاں کوئی کام کرنا چاہتی ہیں تو انہیں ان کا کیا ہوا کوئی کام پسند ہی نہیں آتا۔ اب امی کو کیسے سمجھایا جائے کہ بیٹیاں بھی امی کا ہاتھ بٹا کر خوشی محسوس کرتی ہیں اور امی بچیوں کے آرام کا خیال رکھ کر خوش ہوتی ہیں۔ واقعی امی کسی کی نہیں سنتیں۔


مدھم سروں میں کہی جانے والی یہ سرگوشیاں ثابت کرتی ہیں کہ جہاں ہر ماں اپنے بچوں کو سکھی رکھنا چاہتی ہے، وہیں اولاد بھی اپنی ماں کو ہر فکر سے آزاد اور پُرسکون دیکھنا چاہتی ہے۔ آئیے اس ماں کی عظمت کو سلام کریں، جس نے ہمیں انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا۔ جس نے ہر قدم پر زندگی کے پیچ و خم سے نبرد آزما ہونے کا راز بتایا۔ جس نے ہماری خاطر اپنی زندگی کے ہر سکھ کو الوداع کہہ دیا۔ جس کی دعا نے قسمت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنیاں بکھیر دیں۔ آئیے اسے خراج پیش کریں کہ اے ماں! ہم تجھے آسمان کی وسعتوں سے بھی زیادہ چاہتے ہیں۔ ماں تو ہمارے من میں زندگی کی جوت جگاتی ہے۔ ماں خدا تجھے سلامت رکھے اور ڈھیروں خوشیاں دکھائے۔ (آمین)


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔


Load Next Story