پاکستان کا عام آدمی، جو شدید مہنگائی اور غربت کا شکار ہے، ایسے دیس کا باسی ہے جہاں معیاری تعلیم اور علاج معالجہ پیسوں کا محتاج ہے۔ جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا فقدان اور روز بروز پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمت ہے، جو اس عام آدمی کی آدھی تنخواہ نگل جاتی ہے۔
جس طرح پبلک ٹرانسپورٹ اور چنگچی رکشا میں لوگ بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں، اس سے اس بات کا یقین ہوجاتا ہے کہ عام آدمی، شاید انسانوں کی فہرست میں بھی نہیں آتا۔ سیٹوں کے نیچے ناقص ایل پی جی سلینڈز اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس غریب عام آدمی کی زندگی کسی کےلیے بھی اہم نہیں۔ اس کے جینے یا مرنے سے صرف اس کے گھر میں فاقے ہوں گے، اور نیوز چینلز پر چند سیکنڈز کےلیے ایک ٹکر بن کر رہ جائے گا۔
بجلی کے نرخ، آگ برساتے موسم میں بھی بنیادی سہولتوں کے استعمال کی اجازت نہیں دیتے، اور اس سونے پہ سہاگہ، بجلی کی شدید قلت، جس کا حل جنریٹر اور اس میں ڈلنے والا پٹرول ہے، جس کی قیمت آسمان سے باتیں کررہی ہے۔ پٹرول کا دوسرا متبادل گیس ہے، جو صرف معاشرتی علوم کی درسی کتابوں میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔ گیس جانے کا وقت ہے، لیکن آنے کا نہیں، جس کی وجہ سے عوام سلینڈر خریدنے پر مجبور ہیں۔ اور جو یہ بھی نہیں کرسکتے، وہ اندھیروں اور بھوک کو اپنی قسمت مان بیٹھے ہیں۔
پہلے ہم صرف نعرہ لگاتے ہیں تھے کہ روٹی ، کپڑا اور مکان لیکن اب انٹرنیٹ بھی ہماری زندگی کا اہم حصہ بن گیا ہے۔ مگر اس نئی قسم کی لوڈشیڈنگ نے بھی اذیتوں کا نیا باب کھول دیا۔ پاکستان کا ایک بڑا طبقہ آن لائن کام کرتا ہے، انٹرنیٹ کی بندش کے ان تین دنوں میں انہوں نے نجانے کتنا نقصان اٹھا لیا ہوگا۔
انٹرنیٹ کی حالیہ بندش نے پاکستانی عوام کو ایک نئے امتحان میں ڈال دیا ہے۔ تین دن سیاسی آنکھ مچولی نے اذیتوں کا نیا باب رقم کیا، جو شاید اپنے طرز کی ایک مثال ہے۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ صرف ٹیلی کام سیکٹر کو 2.046 بلین روپے کا نقصان ہوا، اس کی وجہ موبائل براڈ بینڈ سروسز کی بندش ہے، جس سے حکومت کو عام طور پر روزانہ 28.5 کروڑ روپے ٹیکس ریونیو حاصل ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں، حکومت کو تین دن کے دوران ٹیکس ریونیو 86 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ آئی ٹی سیکٹر کو الگ شدید نقصان پہنچا۔ آل پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ ایسوسی ایشن نے اسی تین دن کی مدت میں 10 ارب روپے کے نقصانات کی اطلاع دی، جو 12 ملین ڈالر کے یومیہ کاروبار کے برابر ہے۔
10، 11 اور 12 مئی کو ہونے والے امتحانات منسوخ کردیے گئے تھے، جن کا ذمے دار شاید وہی عام آدمی ہوگا، جو خونِ دل پلا کر، دو دو نوکریاں کرکے اپنے بچوں کو اسکولوں تک لے کر جاتا ہے، اور آخری لمحات میں اسے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ پاسنگ مارکس دے کر بچے کو پاس کردیا گیا ہے۔ کیا دن رات کی محنت، باس کی جھڑکیاں، صرف پاسنگ مارکس کےلیے تھیں؟ اچھی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں داخلہ خواب و خیال کی صورت ہوکر رہ گیا ہے، جس کا شرمندہ تعبیر ہونا بہت مشکل نظر آرہا ہے۔
اس عام آدمی کو جب بھی امید کی کوئی ایک کرن نظر آئے گی، تب وہ شاید ایسے ہی دیوانہ وار اس کی طرف بھاگے گا، اور شاید وہ غلط بھی نہیں ہوگا۔ اس ملک کا عام آدمی، جو کئی دن سے سہما ہوا اپنے بچوں کو گھر میں لیے بیٹھا ہے، اور نیوز چینلز کی لال لال ہیڈ لائنز میں، اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل تلاش کررہا ہے، اس کا کیا قصور ہے؟ نہ وہ کسی کا حامی ہے، نہ وہ کسی کا دشمن، اس کے پاس تو شاید اپنے مسائل سے نکل کر سوچنے کا وقت بھی نہیں، وہ بس اس زندگی کے نام پر ملنے والی سزا کے اختتام کے انتظار میں ہے اور اپنے جلتے ہوئے گھر سے اٹھنے والی لپٹوں سے اپنے بچوں کو بچا رہا ہے۔
ان سب عناصر کے باوجود بھی، آج سبز ہلالی پرچم دیکھ کر، دل میں اٹھنے والے محبت سے لبریز جذبات اس بات کا پیش خیمہ ہیں کہ شاید ایک دن ہم حقیقت میں قائد کے پاکستان میں سانس لیں گے، ایک آزاد اور خودمختار مملکت خداداد میں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔