اگلے مالی سال کیلیے 76 کھرب روپے سود ادائیگی کا تخمینہ
سود ادائیگی تخمینہ بجٹ کا 90 فیصد، تمام ٹیکسز سود کی نذر ہوجائیں گے
اگلے مالی سال کے دوران قرضوں پر سود کی ادائیگیوں کا تخمینہ 7.6 ٹریلین روپے لگایا گیا جو کہ پاکستان کی متوقع نیٹ انکم سے 15 فیصد زیادہ ہے لیکن پھر بھی آئی ایم ایف کے تخمینے سے کم ہے۔
وزارت خزانہ کے ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ مارچ کے اختتام تک 54.4 ٹریلین روپے کے قرض کی بنیاد پر اگلے مالی سال میں سود کی مد میں ادائیگیاں 7.6 ٹریلین روپے کو کراس کرسکتی ہیں، تاہم کچھ حکام الیکشن سال میں اضافی اخراجات کے لیے مشورہ دے رہے ہیں کہ بجٹ میں اس کو 6.9 ٹریلین روپے ظاہر کیا جائے.
سود کی ادائیگی کا تخمینہ پاکستان کے بجٹ کا 90 فیصد ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ رواں سال ٹیکسز صرف اندرونی اور بیرونی بینکوں کو سود کی ادائیگی کرنے کے لیے جمع کیے جائیں گے، جس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والی حکومت مکمل طور پر اندرونی اور بیرونی قرض دینے والوں کے رحم و کرم پر ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: بیرونی قرضوں اور سود کی مد میں پہلی ششماہی میں 10.21ارب ڈالر ادا کیے گئے
ادھر ٹیکس ٹارگٹ کو لے کر وزارت خزانہ اور ایف بی آر کے درمیان تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے، وزارت خزانہ نے ٹیکس ٹارگٹ 9.2 ٹریلین روپے تجویز کیا ہے جبکہ ایف بی آر نے ٹیکس ٹارگٹ 8.6ٹریلین روپے رکھنے کی تجویز دی ہے، جو کہ رواں سال کی متوقع ٹیکس کلیکشن سے 19فیصد زیادہ ہے۔
حکومت نے اگلے مالی سال کے لیے انفلیشن ریٹ 21 فیصد رکھا ہے، اس سے کم کوئی بھی شرح ایف بی آر کی کارکردگی کے لیے اچھی نہیں ہوگی۔
وزارت خزانہ کے ابتدائی اندازوں کے مطابق مہنگائی کی بلند ترین سطح کی وجہ سے پاکستان کی اکانومی 106 ٹریلین روپے تک پہنچنے کا امکان ہے، جس میں تبدیلی ممکن ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بلند شرح سود نے کاروباری سرگرمیاں جام کردیں
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے سود کی مد میں ادائیگیوں کا تخمینہ 8.2 ٹریلین روپے لگایا ہے جو کہ حکومتی اندازوں سے 600ارب روپے زائد ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ آئی ایم ایف انٹرسٹ ریٹ میں مزید اضافہ اور کرنسی کی مزید گراوٹ دیکھ رہا ہے.
وزارت خزانہ نے اگلے مالی سال کے لیے بجٹ خسارے کا تخمینہ جی ڈی پی کا 6.4 فیصد لگایا ہے، جو کہ 6.8 ٹریلین روپے بنتا ہے، جبکہ 3.5 فیصد سے بڑھنے والے بجٹ خسارے کو غیر مستحکم سمجھا جاتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے ایف بی آر کا ٹیکس ٹارگٹ 9.2 ٹریلین روپے، نان ٹیکس کلیکشن ٹارگٹ 2.5 ٹریلین روپے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ حکومت کو اسٹیٹ بینک سے 900 بلین روپے اور پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی کی مد میں 780 بلین روپے ملنے کی امید ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف کا شرح سود میں ایک بار پھر اضافے پر زور
صوبوں کو ان کے حصے کی ادائیگی کے بعد وفاق کے پاس 6.6 ٹریلین روپے بچیں گے، جو کہ سود کی ادائیگی کے لیے درکار رقم سے ایک ٹریلین روپے کم ہے، اس کے بعد دفاعی اخراجات کا تخمینہ 2.5 ٹریلین روپے سے زائد ہے، جبکہ دفاع کی مد میں 1.7 ٹریلین منظورشدہ اخراجات ہیں، اس کے علاوہ حکومت چلانے، ترقیاتی منصوبوں اور سبسڈیز کے لیے حکومت کو قرضوں پر انحصار کرنا ہوگا۔
وزارت خزانہ کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی نو ماہ کے دوران بجٹ خسارہ 3.5 ٹریلین روپے رہا ہے، اور حکومت نے 3.6 ٹریلین روپے سود کی مد میں ادا کیے ہیں۔
وزارت خزانہ کے ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ مارچ کے اختتام تک 54.4 ٹریلین روپے کے قرض کی بنیاد پر اگلے مالی سال میں سود کی مد میں ادائیگیاں 7.6 ٹریلین روپے کو کراس کرسکتی ہیں، تاہم کچھ حکام الیکشن سال میں اضافی اخراجات کے لیے مشورہ دے رہے ہیں کہ بجٹ میں اس کو 6.9 ٹریلین روپے ظاہر کیا جائے.
سود کی ادائیگی کا تخمینہ پاکستان کے بجٹ کا 90 فیصد ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ رواں سال ٹیکسز صرف اندرونی اور بیرونی بینکوں کو سود کی ادائیگی کرنے کے لیے جمع کیے جائیں گے، جس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والی حکومت مکمل طور پر اندرونی اور بیرونی قرض دینے والوں کے رحم و کرم پر ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: بیرونی قرضوں اور سود کی مد میں پہلی ششماہی میں 10.21ارب ڈالر ادا کیے گئے
ادھر ٹیکس ٹارگٹ کو لے کر وزارت خزانہ اور ایف بی آر کے درمیان تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے، وزارت خزانہ نے ٹیکس ٹارگٹ 9.2 ٹریلین روپے تجویز کیا ہے جبکہ ایف بی آر نے ٹیکس ٹارگٹ 8.6ٹریلین روپے رکھنے کی تجویز دی ہے، جو کہ رواں سال کی متوقع ٹیکس کلیکشن سے 19فیصد زیادہ ہے۔
حکومت نے اگلے مالی سال کے لیے انفلیشن ریٹ 21 فیصد رکھا ہے، اس سے کم کوئی بھی شرح ایف بی آر کی کارکردگی کے لیے اچھی نہیں ہوگی۔
وزارت خزانہ کے ابتدائی اندازوں کے مطابق مہنگائی کی بلند ترین سطح کی وجہ سے پاکستان کی اکانومی 106 ٹریلین روپے تک پہنچنے کا امکان ہے، جس میں تبدیلی ممکن ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بلند شرح سود نے کاروباری سرگرمیاں جام کردیں
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے سود کی مد میں ادائیگیوں کا تخمینہ 8.2 ٹریلین روپے لگایا ہے جو کہ حکومتی اندازوں سے 600ارب روپے زائد ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ آئی ایم ایف انٹرسٹ ریٹ میں مزید اضافہ اور کرنسی کی مزید گراوٹ دیکھ رہا ہے.
وزارت خزانہ نے اگلے مالی سال کے لیے بجٹ خسارے کا تخمینہ جی ڈی پی کا 6.4 فیصد لگایا ہے، جو کہ 6.8 ٹریلین روپے بنتا ہے، جبکہ 3.5 فیصد سے بڑھنے والے بجٹ خسارے کو غیر مستحکم سمجھا جاتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے ایف بی آر کا ٹیکس ٹارگٹ 9.2 ٹریلین روپے، نان ٹیکس کلیکشن ٹارگٹ 2.5 ٹریلین روپے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ حکومت کو اسٹیٹ بینک سے 900 بلین روپے اور پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی کی مد میں 780 بلین روپے ملنے کی امید ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف کا شرح سود میں ایک بار پھر اضافے پر زور
صوبوں کو ان کے حصے کی ادائیگی کے بعد وفاق کے پاس 6.6 ٹریلین روپے بچیں گے، جو کہ سود کی ادائیگی کے لیے درکار رقم سے ایک ٹریلین روپے کم ہے، اس کے بعد دفاعی اخراجات کا تخمینہ 2.5 ٹریلین روپے سے زائد ہے، جبکہ دفاع کی مد میں 1.7 ٹریلین منظورشدہ اخراجات ہیں، اس کے علاوہ حکومت چلانے، ترقیاتی منصوبوں اور سبسڈیز کے لیے حکومت کو قرضوں پر انحصار کرنا ہوگا۔
وزارت خزانہ کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی نو ماہ کے دوران بجٹ خسارہ 3.5 ٹریلین روپے رہا ہے، اور حکومت نے 3.6 ٹریلین روپے سود کی مد میں ادا کیے ہیں۔