ممتا سب سکھا دیتی ہے۔۔۔
وہ سارہ جو سر پر ڈھول کی آواز پر نہیں اٹھ پاتی تھی، بچے کی خفیف سی آواز پر اس کی مامتا نے اسے فوری جگا دیا
سارہ آخر کب تک تمھاری نیند کا یہی حال رہے گا؟
امی کبھی کبھار کیا اکثر ہی اس پر جھنجھلا جاتی تھیں، امی اس کے لیے انتہائی فکر مند رہتی تھیں، بچپن ہی سے وہ نیند کی بے انتہا کچی تھی، نیند کا غلبہ ایسا طاری ہوتا کہ نہ مقام دیکھتی اور نہ وقت۔ بس اُسے سونا ہوتا چاہے، پھر وہ شادی ہال ہو یا کوئی پارک۔
اکثر تو امی کی کوشش ہوتی، جہاں دیر ہونے کا اندیشہ ہو، اسے ساتھ نہ لے کر جائیں، بلکہ کسی کے پاس چھوڑ کر جائیں، سب کو لگتا تھا کہ وہ وقت کے ساتھ اپنی اس کمزوری پر قابو پالے گی، لیکن اب جب کہ شادی کے دن قریب تھے، اس کا یہی عالم تھا اور امی کا تو سوچ کر ہی خون خشک ہو رہا تھا کہ یہ کیا کرے گی بعد میں اور تو اور دلہن بیگم کے مہندی لگنا بھی کسی معرکے سے کم نہ ٹھیرا ان کی دوستوں اور کزن کو یہ ٹاسک دیا گیا کہ اتنا شور شرابا کرنا ہے کہ وہ سو نہ سکے، لیکن سب ہار گئی اور وہ باوجود کوشش کہ نہ جاگ سکی، بڑی مشکل سے ہم جولیوں نے اس کے ہاتھ پاؤں پکڑ پکڑ کر مہندی نہ صرف مکمل کرائی، بلکہ مہندی والیوں کے مزید نخرے بھی سہنے پڑے۔
شادی کا وقت جان کر دن کا وقت رکھا گیا کہ کہیں محترمہ اسٹیج پر ہی نہ سو جائیں اور اس کی رخصتی تک سب قریبی عزیز کی نظریں اسی کا طواف کرتی رہیں کہ 'وداع' کے وقت امی کو اس کے دور جانے کا دکھ کم یہ پریشانی زیادہ تھی کہ سسرال میں جا کر کیا کرے گی، اگرچہ انھیں اس کمزوری کا بتا دیا گیا تھا، لیکن کمزوری کس شدت کی ہے، اسے انھیں آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔
قسمت اچھی تھی اس کی کہ اس کی اس کمزوری کا سسرال والوں نے کبھی مسئلہ نہیں بنایا، دعوتیں ہو یا کوئی اور موقع اسے جہاں جگہ ملتی وہ سو جاتی اس کے شوہر نام دار پر بھی آفرین ہے کہ اس نے بھی کبھی برا نہیں مانا، ہنی مون سے جلدی واپسی پر سب حیران تھے کہ کیا وجہ ہوئی، تو صاحب نے ہنس ہنس کر جو قصہ سنائے تو سب سے دل چسپ سارہ کی نیند سے متعلق تھے، ایک تصویر میں مارگلہ کی پہاڑی پر وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر سو رہی ہیں، تو دوسری میں موٹروے پر بنے ہوئے پوائنٹس میں کرسی پر ڈھیر ہیں اورسامنے میز پر چائے دھری ہے۔ وہ کہنے لگے یار کہاں کہاں سنبھالتا اسے نیند میں اس لیے بہتر یہ تھا واپس آجائیں۔
وقت گزر گیا اور سال بھر بعد سارہ کی گود میں ننھا شہزادہ آگیا، پہلا دن تو اسپتال میں گزرگیا امی اس فکر میں کہ اسے اپنی نیند پر قابو نہیں اسپتال سے اپنے ساتھ ہی گھر لائیں سسرال نہیں جانے دیا رات کو امی نے اسے دودھ دیا اور اس سے کہا سوجاؤ، میں یہیں لیٹوں گی تمھارے ساتھ تاکہ بچے کا خیال رکھ سکوں، وہ دودھ پیتی ہی نیند کی وادی میں کھو گئی، امی نے ایک آہ بھر کر دیکھا اور سوچا ماں بن گئی، لیکن نیند پر قابو پانا نہیں آیا۔
جانے کیا کرے گی گھر جا کر اور ساتھ ہی 'کاٹ' میں لیٹے ہوئے بچے کو چوم کر خود نماز کی نیت باندھ لی، ابھی انھوں نے ایک رکعت ہی ادا کی تھی کہ بچے کی دھیمی سی رونے کی آواز آئی، وہ جلدی جلدی نماز مکمل کرنے کا سوچ ہی رہیں تھی کہ سارہ پھرتی سے جاگ گئی۔ وہ سارہ جو سر پر ڈھول کی آواز پر نہیں اٹھ پاتی تھی، بچے کی خفیف سی آواز پر اس کی مامتا نے اسے فوری جگا دیا۔ انھوں نے سکون سے نماز مکمل کی سلام پھیر کر سارہ کی طرف دیکھا، انھیں اپنی بیٹی پر اس لمحہ بے پناہ پیار آیا اور ان کے سارے خدشات دور ہوگئے، انھیں یقین ہوگیا کہ مامتا نے نیند کو شکست دے دی۔
امی کبھی کبھار کیا اکثر ہی اس پر جھنجھلا جاتی تھیں، امی اس کے لیے انتہائی فکر مند رہتی تھیں، بچپن ہی سے وہ نیند کی بے انتہا کچی تھی، نیند کا غلبہ ایسا طاری ہوتا کہ نہ مقام دیکھتی اور نہ وقت۔ بس اُسے سونا ہوتا چاہے، پھر وہ شادی ہال ہو یا کوئی پارک۔
اکثر تو امی کی کوشش ہوتی، جہاں دیر ہونے کا اندیشہ ہو، اسے ساتھ نہ لے کر جائیں، بلکہ کسی کے پاس چھوڑ کر جائیں، سب کو لگتا تھا کہ وہ وقت کے ساتھ اپنی اس کمزوری پر قابو پالے گی، لیکن اب جب کہ شادی کے دن قریب تھے، اس کا یہی عالم تھا اور امی کا تو سوچ کر ہی خون خشک ہو رہا تھا کہ یہ کیا کرے گی بعد میں اور تو اور دلہن بیگم کے مہندی لگنا بھی کسی معرکے سے کم نہ ٹھیرا ان کی دوستوں اور کزن کو یہ ٹاسک دیا گیا کہ اتنا شور شرابا کرنا ہے کہ وہ سو نہ سکے، لیکن سب ہار گئی اور وہ باوجود کوشش کہ نہ جاگ سکی، بڑی مشکل سے ہم جولیوں نے اس کے ہاتھ پاؤں پکڑ پکڑ کر مہندی نہ صرف مکمل کرائی، بلکہ مہندی والیوں کے مزید نخرے بھی سہنے پڑے۔
شادی کا وقت جان کر دن کا وقت رکھا گیا کہ کہیں محترمہ اسٹیج پر ہی نہ سو جائیں اور اس کی رخصتی تک سب قریبی عزیز کی نظریں اسی کا طواف کرتی رہیں کہ 'وداع' کے وقت امی کو اس کے دور جانے کا دکھ کم یہ پریشانی زیادہ تھی کہ سسرال میں جا کر کیا کرے گی، اگرچہ انھیں اس کمزوری کا بتا دیا گیا تھا، لیکن کمزوری کس شدت کی ہے، اسے انھیں آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔
قسمت اچھی تھی اس کی کہ اس کی اس کمزوری کا سسرال والوں نے کبھی مسئلہ نہیں بنایا، دعوتیں ہو یا کوئی اور موقع اسے جہاں جگہ ملتی وہ سو جاتی اس کے شوہر نام دار پر بھی آفرین ہے کہ اس نے بھی کبھی برا نہیں مانا، ہنی مون سے جلدی واپسی پر سب حیران تھے کہ کیا وجہ ہوئی، تو صاحب نے ہنس ہنس کر جو قصہ سنائے تو سب سے دل چسپ سارہ کی نیند سے متعلق تھے، ایک تصویر میں مارگلہ کی پہاڑی پر وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر سو رہی ہیں، تو دوسری میں موٹروے پر بنے ہوئے پوائنٹس میں کرسی پر ڈھیر ہیں اورسامنے میز پر چائے دھری ہے۔ وہ کہنے لگے یار کہاں کہاں سنبھالتا اسے نیند میں اس لیے بہتر یہ تھا واپس آجائیں۔
وقت گزر گیا اور سال بھر بعد سارہ کی گود میں ننھا شہزادہ آگیا، پہلا دن تو اسپتال میں گزرگیا امی اس فکر میں کہ اسے اپنی نیند پر قابو نہیں اسپتال سے اپنے ساتھ ہی گھر لائیں سسرال نہیں جانے دیا رات کو امی نے اسے دودھ دیا اور اس سے کہا سوجاؤ، میں یہیں لیٹوں گی تمھارے ساتھ تاکہ بچے کا خیال رکھ سکوں، وہ دودھ پیتی ہی نیند کی وادی میں کھو گئی، امی نے ایک آہ بھر کر دیکھا اور سوچا ماں بن گئی، لیکن نیند پر قابو پانا نہیں آیا۔
جانے کیا کرے گی گھر جا کر اور ساتھ ہی 'کاٹ' میں لیٹے ہوئے بچے کو چوم کر خود نماز کی نیت باندھ لی، ابھی انھوں نے ایک رکعت ہی ادا کی تھی کہ بچے کی دھیمی سی رونے کی آواز آئی، وہ جلدی جلدی نماز مکمل کرنے کا سوچ ہی رہیں تھی کہ سارہ پھرتی سے جاگ گئی۔ وہ سارہ جو سر پر ڈھول کی آواز پر نہیں اٹھ پاتی تھی، بچے کی خفیف سی آواز پر اس کی مامتا نے اسے فوری جگا دیا۔ انھوں نے سکون سے نماز مکمل کی سلام پھیر کر سارہ کی طرف دیکھا، انھیں اپنی بیٹی پر اس لمحہ بے پناہ پیار آیا اور ان کے سارے خدشات دور ہوگئے، انھیں یقین ہوگیا کہ مامتا نے نیند کو شکست دے دی۔