Chat gpt اور ماحولیات

ایک اندازے کے مطابق یہ روزانہ کم از کم 3.8 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ زمین پر ہمارے آپ کے لیے اگل رہا ہے


Shaikh Jabir May 14, 2023
[email protected]

نومبر 2022 سے اب تک چیٹ جی پی ٹی نے جو دھوم مچائی ہے، شاید ہی کسی کے حصے میں آئی ہو۔اپنی رونمائی کے صرف 7 دنوں میں اس کے صارفین کی تعداد 10لاکھ سے بھی تجاوز کر گئی۔

اپنی ریلیز کے صرف 30 دنوں میں اِس کے استعمال کنندگان کی تعداد 57 لاکھ سے بھی تجاوز کر گئی۔یہاں تک کہ جنوری 2023 میں چیٹ جی پی ٹی کے ماہانہ فعال صارفین کی تعداد 10کروڑ تک جا پہنچی۔نتیجے کے طور پر اوپن اے آئی(چیٹ جی پی ٹی کا تخلیق کار ادارہ) کا ویب ٹریفک 59 کروڑ تک پہنچ گیا۔تیز رفتار ترین مقبولیت کے ریکارڈ توڑتے ہوئے چیٹ جی پی ٹی کے صارفین کی تعداد فروری 2023 میں 1 ارب تک جا پہنچی۔

ایک اندازے کے مطابق اب یہ تعداد سوا ارب کے لگ بھگ ہو سکتی ہے۔ ایک اور اندازے کے مطابق چیٹ جی پی ٹی روزانہ ایک کروڑ سے زائد جوابات دیتا ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ یہ صرف انگریزی ہی میں نہیں 100 سے زائد زبانوں میں جوابات دیتا ہے۔ اِس کامیابی کے حصول کے نتیجے میں اوپن اے آئی، 2024 تک اپنا ریونیو 1 ارب ڈالر سے زائد دیکھ رہا ہے۔

مصنوعی ذہانت ہمیں اور ہمارے آس پاس کی دنیا کو بڑی تیزی سے تبدیل کر رہی ہے،اگرچہ یہ ابھی تجرباتی مراحل میں ہے لیکن اِس نے چیزوں کو بڑی تیزی سے تبدیل کرنا شروع کر دیا ہے اور قریباً ہر شعبہ زندگی میں۔چیٹ جی پی ٹی نہ صرف یہ کہ طلبہ کی ممد و معاون ہے بلکہ یہ ہمیں کالم بھی لکھ کر دے سکتی ہے اور وہ بھی ہماری قومی زبان اردو میں۔ یہ ہی نہیں آپ کسی خاص لکھنے والے کے انداز کو نقل کرنے کا کہیں گے تو یہ بھی بڑی حد تک ممکن ہے۔

طلبہ میں بھی چیٹ جی پی ٹی کا استعمال اسی تیز رفتاری سے مقبول ہوا۔ طلبہ کی ایک بڑی تعداد پڑھائی لکھائی سے لے کر نقل کرنے تک ہر جگہ مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ فوربس'' کے مطابق 43 فی صد طلبہ نے اِس ٹول کے استعمال کا اعتراف کیا۔گائے پر مضمون لکھنا ہو یا ڈاکٹریٹ کا مقالہ یہ موضوعات کے انتخاب،عنوانات کی ترتیب سے لے کر ہر ہر جگہ یہ الٰہ دین کے چراغ کے جن کی طرح طلبہ کا خدمت گار بنا ہوا ہے۔

کچھ طلبہ کا کہنا ہے کہ یہ آپ کے لیے ایک اچھے استاد کا نعم البدل ہے۔ آپ کو انگریزی پڑھنی ہو یا ریاضی فزکس،کیمسٹری کے مشکل سوالات یہ آپ کو سب کچھ سکھانے پڑھانے اور سمجھانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ۔جی ہاں آپ اسے صرف معلومات کا ذریعہ نہ سمجھیں یہ حیرت انگیز ہے۔

گزشتہ برس کے اواخر کا ذکر ہے جب معروف انگریزی روزنامے ''دی گارڈئین''کے نامہ نگاروں کو شدید حیرت سے دوچار ہونا پڑا جب انھوں نے دیکھا کہ مصنوعی ذہانت کے استعمال سے پورے پورے مضامین مصنفین کے ناموں اور دن تاریخ سمیت موجود تھے، وہ مضامین جو ''گارڈئین''نے کبھی شایع بھی نہیں کیے۔

''دی گارڈئین''کے ایڈیٹوریل انوویشن کے سربراہ کرس موران نے کہتے ہیں کہ اِس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے کہ مصنوعی ذہانت حقائق و واقعات کی تخلیق کا رجحان رکھتی ہے۔ مصادر کی تخلیق اُس وقت گھمبیر ہو جاتی ہے جب آپ کا تعلق معتبر ادارے سے ہو۔جیسا کہ معتبر صحافی کے کہے کا ایک دنیا اعتبار کرتی ہے تو اسے حقیقت کو فسانے سے الگ رکھنا ہوتا ہے۔اِن حوالوں سے '' کیٹ کریفورڈ ''کی رائے کو بھی دیکھا جانا چاہیے۔اُن کی کتاب ''اطلس آف اے آئی'' اپنے موضوع پر اہم ترین ہے۔

آپ کا خیال ہے کہ سیاسی، معاشی اور معاشرتی وجوہ سے دانستہ طور پر مصنوعی ذہانت آپ کو غلط، غیر مصدقہ یاگمراہ کن معلومات فراہم کر سکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ مجھے چیٹ جی پی ٹی نے ایک ''انسائیڈر جرنلسٹ ''کا بتایاجن کا نام ہے ''لیکس فرائیڈ مین'' یہ ایک ''پوڈ کاسٹر'' ہیں۔ کیٹ اپنی کتاب میں بتاتی ہیں کہ چیٹ جی پی ٹی نے جتنے بھی حوالے اور لنک دیے وہ غلط تھے۔ یہ ایک قطعی علیحدہ موضوع ہے جس پر آیندہ کبھی بات ہو گی ابھی قارئین کو بتانا یہ مقصود ہے کہ مصنوعی ذہانت اور اُس کے نتائج یہاں تک کہ حوالہ جات تک غلط ہونے کے قرائن موجود ہیں۔

اب آتے ہیں اس سوال کی جانب کہ کیا ''چیٹ جی پی ٹی'' ماحول کے لیے اور انسانوں کے لیے خطرناک ہے۔ ابھی ہم اِس موضوع پر بھی بات نہ کرنا چاہیں گے جس کا آغاز بیلجیئم میں ایک فرد کی خود کشی سے ہوا۔ خبروں کے مطابق بیلجیئم کے ایک صاحب نے مصنوعی ذہانت کے ''چیٹ بوٹ''سے 6 ہفتوں تک زمینی ما حولیاتی تباہی پر بات چیت کی اور پھر اطلاعات کے مطابق چیٹ بوٹ کی باتوں میں آ کر خود کشی کر لی۔ چیٹ بوٹ نے اُسے مسلسل اکسایا کہ تم ماحولیات اور دنیا کو بچانے کے لیے اپنی قربانی دے دو، اور اُس نے اپنی جان لے لی۔

بیلجیئم کی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ایک سنگین معاملہ ہے اور اسے سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔وہ مصنوعی ذہانت کے استعمال کو ایک حقیقی خطرے کے طور پر دیکھنے کا ذکر کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک صاحب ہیں ''گیری مارکس'' آپ پروفیسر ہیں اور مصنوعی ذہانت کے بڑے نقاد، آپ کا کچھ ماہ قبل ہی ''وائرڈ'' نامی رسالے میں ایک مضمون شایع ہوا جس میں حضرت نے واضح الفاظ میں لکھا کہ چیٹ بوٹ کسی کے لیے بھی اتنا شدید نقصان دہ ہو سکتے ہیں کہ وہ اسے خودکشی پر بھی مجبور کر سکتے ہیں۔

چیٹ جی پی ٹی، بارڈ، بنگ،الیزا یا کسی بھی چیٹ بوٹ یا مصنوعی ذہانت کے اِس قسم کے کیا نقصان ہیں، ہمارے پاکستانی معاشرے اور ہمارے بچوں پر اِس کے کیا مضر اثرات پڑنے جا رہے ہیں یہ سب الگ موضوعات ہیں ابھی تو یہ دیکھنا ہے کہ یہ زمین اور ماحولیات کے لیے کتنا خطرناک ہے اور ہماری زمین کو اور ہماری آنے والی نسلوں کو کتنا نقصان پہنچ رہا ہے۔

ہم آپ جو چیٹ جی پی کو معصوم سمجھ کر استعمال کیے جا رہے ہیں ایک اندازے کے مطابق یہ روزانہ کم از کم 3.8 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ زمین پر ہمارے آپ کے لیے اگل رہا ہے۔ایک اندازے کے مطابق اپنے سسٹم کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے اسے 7 لاکھ لٹر سے بھی زائد پانی درکار ہے۔اس کی تربیت کے لیے936میگا واٹ آورز کی بجلی درکار ہوتی ہے۔ اندازہ کیجیے یہ کتنی زیادہ بجلی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق ہمارے آپ کے نہیں، یورپ کے ایک لاکھ گھروں کا روزانہ کا بجلی کا خرچ۔دھیان رہے یہ اعداد و شمار ناقابل یقین رفتار سے بڑھ رہے ہیں۔ دنیا بھر میںکروڑوں افراد موبائل، ٹیبلیٹ، کمپیوٹر وغیرہ استعمال کر رہے ہیں۔ ان کا استعمال اوسطاً 7 گھنٹے روزانہ کا ہے۔ایک گھنٹے کے استعمال کے لیے تقریباً 3گیگا بائٹ چاہیے۔

خیال کریں اس توانائی کے حصول کے لیے کتنا کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتا ہو گا۔3.2 کلو گرام۔ ایک گھنٹہ وڈیو اسٹریمنگ، میوزک ایک صارف اور 3.2 کلو کاربن ڈائی آکسا ئیڈ ہمیشہ کے لیے فضا میں۔ یہ صرف چند حقائق ہیں۔ غور کیجیے ہم ترقی کے سفر پر کہاں جا رہے ہیں۔یہ ترقی ہے یا زمین کی تباہی ہم مصنوعی ذہانت کے فوائد گنتے اور سمیٹتے ہوئے اس کے ہاتھوں اپنے ہی سانسوں کو گھونٹ لینا بھولے جا رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں