سب اچھا کی رپورٹ کیسے دیں
اللہ کرے مستقبل میں کوئی اچھی رپورٹ سننے کو مل جائے فی الحال تو ہم آپ کو سب اچھا کی رپورٹ نہیں دے سکتے
آپ خود سوچئے کہ ہم آپ کو سب اچھا کی رپورٹ بھلا کیسے دے سکتے ہیں' ملک میں پھیلی افراتفری اور انتشار پوری قوم کے سامنے ہے ' یہ چند جتھے جو قومی املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں ' ہمیں نہیں معلوم کہ ان کا لیڈر کیا چاہتا ہے ' جہاں ملک و قوم کے محافظوں پر نہ صرف کیچڑ اچھالا جائے بلکہ جن کی حفاظت یہ محافظین وطن کرتے ہیں یہ جتھے ان پر ٹوٹ پڑیں تو پھر ان کا کیا علاج ہو سکتا ہے۔
ملک میں عجیب سی کیفیت ہے ' کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا زندہ قوموں کی یہی جمہوریت اور آزادی کی یہی علامت ہوا کرتی ہے ' اس سیاسی افراتفری اور بھونچال کے بعد تو پوری قوم کی نظریں اقوام عالم کے سامنے ندامت سے جھک گئی ہیں کہ ہم کیسی قوم ہیں کہ ہمیں پرامن احتجاج کا قرینہ اور سلیقہ تک نہیں آتا اور اپنے ہی ملک کو گھائل کرنے پر کچھ شرپسند عناصر تلے ہوئے ہیں۔
آج ملک اپنے ہی چند ناعاقبت اندیش باسیوں کی ان اوچھی حرکتوں پر ماتم کناں ہے ' اب ایسی صورتحال میں ہم لکھاری بھلا کیا کر سکتے ہیں' ہمیں تو اکثر ملکی پالیسیاں بنانے والے اور ان پالیسیوں پر عملدرآمد کرانے والے اداروں کے اعلیٰ اور ذمے دار حکام کہتے ہیں کہ جناب حوصلہ افزاء تحریریں رقم کریں' عوام کو نئی امنگوں اور نئی تمناؤں کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کا درس دیں' ناامیدی نہ پھیلائیں ' لوگوں کے چہروں پر خوشیاں بکھیریں' قوم کے دامن مسرتوں اور راحتوں سے بھر دیں۔
یہ نہ کریں' وہ نہ کریں' ایسا کریں' ویسا نہ کریں ' ہم آپ کو بتائیں گے کہ کیا لکھنا ہے ' کیا نہیں لکھنا ' اور ایک ہم ہیں کہ دن رات اس خوف سے گھلے جارہے ہیں کہ آخر قبر میں بھی اور روز حشر بھی تو ہم نے اللہ کو منہ دکھانا ہے اور اگر خالق دو جہاں کی طرف سے یہ سوال اٹھ گیا کہ ہم نے آپکو علم و قلم دونوں سے نو ازا جب کہ آپ نے نہ تو علم کی قدر کی اور نہ ہی قلم کے تقدس کا خیال رکھا تو پھر کیا جواب دیں گے۔
اس لیے ہم نے سوچا ہے کہ وہی لکھیں گے جو اپنے مشاہدہ میں ہو گا ' سچ اور پورا سچ چاہے گردن کیوں نہ اڑا دی جائے ' جس معاشرہ میں ہم بادل ناخواستہ زندہ ہیں وہاں رہ کر ہم "سب اچھا" کی رپورٹ بھلا کیسے دے سکتے ہیں' کل ہی احباب میں سے کسی نے کسی کی آڈیو کلپ ہمیں واٹس ایپ کیا' انھوں نے اپنے مشاہدہ میں آنے والے جس واقعہ کا ذکر کیا اسے سن کر کلیجہ پھٹ سا گیا فرما رہے تھے کہ شہر اقتدار کی پرشکوہ جامع مسجد فیصل کے قریب کسی چوراہے میں ان کی گاڑی رکی' ایک معصوم سی جواں سالہ بچی نے ان کے سامنے دست طلب دراز کیا۔
موصوف نے عام بھکارن سمجھ کر جب اس کی استدعا رد کی تو بچی کی طرف سے جواب ملا ' انکل آپ ہم جیسے مفلس و بے بس بچیوں کو عصمت دری پر مجبور نہ کریں' بھوک اور افلاس کا عملاّ خاتمہ نہ ہوا تو کئی شریف النفس گھرانوں کی معصوم بچیاں پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے اپنی عزت و عصمت لٹانے پر مجبور ہو جائیں گی ' یہ آڈیو کلپ سنتے ہی ہماری تو آنکھیں ہی پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
آئیے ہم آپ کے سامنے اس نام نہاد اسلامی معاشرہ کا اجمالی خاکہ پیش کرتے ہیں' اس معاشرہ میں ہمیں جو نظر آتا ہے دراصل وہ بالکل اس کے برعکس ہے ' یہاں جھوٹ ' فریب ' دھوکے بازی ' خیانت اور تمام معاشی' معاشرتی اور سماجی خرابیاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ جنھیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنا اب ضروری ہو چکا ہے ' یہاں سارے لچے لفنگے ' بدمعاش و بدقماش ایک دوسرے کو تحفظ دینے میں مصروف ہیں ' ہر سیاسی دور اہل سیاست کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے' چہرے بدل بدل کر آنے والے برسر اقتدار سیاستدان دراصل اگلے پچھلوں کے مفادات کو تحفظ دیتے رہتے ہیں۔
قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہم دیکھ رہے ہیں وہی ظالم اور لٹیرے ہم پر مسلط چلے آرہے ہیں ' سب یہی کہتے ہیں کہ ایک نہ ایک دن ان کا انجام بہت برا ہو گا مگر 75 سالوں سے یہی لوگ مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جارہے ہیں ' کیسا مکافات عمل ہے کہ ان کا اللہ کی طرف سے محاسبہ ہی نہیں ہوتا ' نسل در نسل ملک کو کھا پی کر ڈکار دینے والے ہم پر ایک تسلسل کے ساتھ حکمرانی کر تے چلے آرہے ہیں۔ حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ فرما چکے ہیں کہ ؎
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
بات دراصل یہ ہے کہ ہم بے حس اور ناکارہ ہو چکے ہیں' پاگلوں کی طرح ہر کسی کے پیچھے چل پڑتے ہیں' عقل نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے ہمارے سروں میں۔ بھیڑ بکریوں کا ریوڑ ہے یہ قوم ۔ افسوس صد افسوس ان بکریوں پر کبھی چھری پھرتی ہے ' کبھی ان کا سودا ہوتا ہے ' کبھی انھیں بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے ' مزے میں ہر دور کا چرواہا ہے جو بھیڑیا کے مفادات کا خوب تحفظ کرتا ہے ' عیش کرتا ہے دندناتا پھرتا ہے اور ایک یہ ان پڑھ اور جاہل بکریاں جو نہ تو چرواہے کے آگے سر اٹھا سکتی ہیں نہ ہی اس دشت و صحرا میں کوئی انقلاب برپا کر سکتی ہیں' چپ چاپ دکھ سہہ رہی ہیں ' ان کی میں میں سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں' چرواہا اور اس کے حواری مزے میں ہیں اور رہیں گے ' ہم جیسے محب وطن ' مخلص اور نیک جذبے رکھنے والے اس طرح سر پیٹتے رہ جائیں گے ' روئیں گے ' چلائیں گے ' قوم کو غیرت دلائیں گے مگر مسلسل بے حسی دیکھ کر آخر چپ ہی ہو جائیں گے، ہم بھلا کیسے "سب اچھا" کی رپورٹ دے سکتے ہیں۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک دور میں قوم کا عظیم رہنما اگلے دور میں سب سے بڑا مجرم قرار دے دیا جاتا ہے اور اگر واقعی وہ مجرم ہے تو اسے پوری قوم کے سامنے بے نقاب کرنا ریاست کی ذمے داری ہے تاکہ قوم اپنے رہنما منتخب کرنے میں کوئی ایسی بڑی غلطی نہ کر بیٹھے کہ جس کا خمیازہ صدیوں تک بگھتنا پڑے۔ قوم کو بھی چاہیے کہ وہ کسی کی اندھی تقلید نہ کرے۔ قوم کی جان ان سیاسی بونوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوٹ جائے جو سالہا سال سے قوم کو دھوکا دیتے رہے ہیںاور ہم ہیں کہ ابھی تک خواب غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
اللہ کرے مستقبل میں کوئی اچھی رپورٹ سننے کو مل جائے فی الحال تو ہم آپ کو سب اچھا کی رپورٹ نہیں دے سکتے ' جب ملک کے جمہوری اور پارلیمانی ادارے چپ سادھ لیں تو پھر نگاہیں کسی ایک عظیم ادارے کی طرف مرکوز ہوتی ہیں اور اگر وہ ادارہ بھی ایسی صورتحال کا کوئی سخت نوٹس نہ لیں تو ہم سب اچھا کی رپورٹ ہر گز نہیں دے سکتے ۔
ملک میں عجیب سی کیفیت ہے ' کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا زندہ قوموں کی یہی جمہوریت اور آزادی کی یہی علامت ہوا کرتی ہے ' اس سیاسی افراتفری اور بھونچال کے بعد تو پوری قوم کی نظریں اقوام عالم کے سامنے ندامت سے جھک گئی ہیں کہ ہم کیسی قوم ہیں کہ ہمیں پرامن احتجاج کا قرینہ اور سلیقہ تک نہیں آتا اور اپنے ہی ملک کو گھائل کرنے پر کچھ شرپسند عناصر تلے ہوئے ہیں۔
آج ملک اپنے ہی چند ناعاقبت اندیش باسیوں کی ان اوچھی حرکتوں پر ماتم کناں ہے ' اب ایسی صورتحال میں ہم لکھاری بھلا کیا کر سکتے ہیں' ہمیں تو اکثر ملکی پالیسیاں بنانے والے اور ان پالیسیوں پر عملدرآمد کرانے والے اداروں کے اعلیٰ اور ذمے دار حکام کہتے ہیں کہ جناب حوصلہ افزاء تحریریں رقم کریں' عوام کو نئی امنگوں اور نئی تمناؤں کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کا درس دیں' ناامیدی نہ پھیلائیں ' لوگوں کے چہروں پر خوشیاں بکھیریں' قوم کے دامن مسرتوں اور راحتوں سے بھر دیں۔
یہ نہ کریں' وہ نہ کریں' ایسا کریں' ویسا نہ کریں ' ہم آپ کو بتائیں گے کہ کیا لکھنا ہے ' کیا نہیں لکھنا ' اور ایک ہم ہیں کہ دن رات اس خوف سے گھلے جارہے ہیں کہ آخر قبر میں بھی اور روز حشر بھی تو ہم نے اللہ کو منہ دکھانا ہے اور اگر خالق دو جہاں کی طرف سے یہ سوال اٹھ گیا کہ ہم نے آپکو علم و قلم دونوں سے نو ازا جب کہ آپ نے نہ تو علم کی قدر کی اور نہ ہی قلم کے تقدس کا خیال رکھا تو پھر کیا جواب دیں گے۔
اس لیے ہم نے سوچا ہے کہ وہی لکھیں گے جو اپنے مشاہدہ میں ہو گا ' سچ اور پورا سچ چاہے گردن کیوں نہ اڑا دی جائے ' جس معاشرہ میں ہم بادل ناخواستہ زندہ ہیں وہاں رہ کر ہم "سب اچھا" کی رپورٹ بھلا کیسے دے سکتے ہیں' کل ہی احباب میں سے کسی نے کسی کی آڈیو کلپ ہمیں واٹس ایپ کیا' انھوں نے اپنے مشاہدہ میں آنے والے جس واقعہ کا ذکر کیا اسے سن کر کلیجہ پھٹ سا گیا فرما رہے تھے کہ شہر اقتدار کی پرشکوہ جامع مسجد فیصل کے قریب کسی چوراہے میں ان کی گاڑی رکی' ایک معصوم سی جواں سالہ بچی نے ان کے سامنے دست طلب دراز کیا۔
موصوف نے عام بھکارن سمجھ کر جب اس کی استدعا رد کی تو بچی کی طرف سے جواب ملا ' انکل آپ ہم جیسے مفلس و بے بس بچیوں کو عصمت دری پر مجبور نہ کریں' بھوک اور افلاس کا عملاّ خاتمہ نہ ہوا تو کئی شریف النفس گھرانوں کی معصوم بچیاں پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے اپنی عزت و عصمت لٹانے پر مجبور ہو جائیں گی ' یہ آڈیو کلپ سنتے ہی ہماری تو آنکھیں ہی پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
آئیے ہم آپ کے سامنے اس نام نہاد اسلامی معاشرہ کا اجمالی خاکہ پیش کرتے ہیں' اس معاشرہ میں ہمیں جو نظر آتا ہے دراصل وہ بالکل اس کے برعکس ہے ' یہاں جھوٹ ' فریب ' دھوکے بازی ' خیانت اور تمام معاشی' معاشرتی اور سماجی خرابیاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ جنھیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنا اب ضروری ہو چکا ہے ' یہاں سارے لچے لفنگے ' بدمعاش و بدقماش ایک دوسرے کو تحفظ دینے میں مصروف ہیں ' ہر سیاسی دور اہل سیاست کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے' چہرے بدل بدل کر آنے والے برسر اقتدار سیاستدان دراصل اگلے پچھلوں کے مفادات کو تحفظ دیتے رہتے ہیں۔
قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہم دیکھ رہے ہیں وہی ظالم اور لٹیرے ہم پر مسلط چلے آرہے ہیں ' سب یہی کہتے ہیں کہ ایک نہ ایک دن ان کا انجام بہت برا ہو گا مگر 75 سالوں سے یہی لوگ مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جارہے ہیں ' کیسا مکافات عمل ہے کہ ان کا اللہ کی طرف سے محاسبہ ہی نہیں ہوتا ' نسل در نسل ملک کو کھا پی کر ڈکار دینے والے ہم پر ایک تسلسل کے ساتھ حکمرانی کر تے چلے آرہے ہیں۔ حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ فرما چکے ہیں کہ ؎
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
بات دراصل یہ ہے کہ ہم بے حس اور ناکارہ ہو چکے ہیں' پاگلوں کی طرح ہر کسی کے پیچھے چل پڑتے ہیں' عقل نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے ہمارے سروں میں۔ بھیڑ بکریوں کا ریوڑ ہے یہ قوم ۔ افسوس صد افسوس ان بکریوں پر کبھی چھری پھرتی ہے ' کبھی ان کا سودا ہوتا ہے ' کبھی انھیں بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے ' مزے میں ہر دور کا چرواہا ہے جو بھیڑیا کے مفادات کا خوب تحفظ کرتا ہے ' عیش کرتا ہے دندناتا پھرتا ہے اور ایک یہ ان پڑھ اور جاہل بکریاں جو نہ تو چرواہے کے آگے سر اٹھا سکتی ہیں نہ ہی اس دشت و صحرا میں کوئی انقلاب برپا کر سکتی ہیں' چپ چاپ دکھ سہہ رہی ہیں ' ان کی میں میں سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں' چرواہا اور اس کے حواری مزے میں ہیں اور رہیں گے ' ہم جیسے محب وطن ' مخلص اور نیک جذبے رکھنے والے اس طرح سر پیٹتے رہ جائیں گے ' روئیں گے ' چلائیں گے ' قوم کو غیرت دلائیں گے مگر مسلسل بے حسی دیکھ کر آخر چپ ہی ہو جائیں گے، ہم بھلا کیسے "سب اچھا" کی رپورٹ دے سکتے ہیں۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک دور میں قوم کا عظیم رہنما اگلے دور میں سب سے بڑا مجرم قرار دے دیا جاتا ہے اور اگر واقعی وہ مجرم ہے تو اسے پوری قوم کے سامنے بے نقاب کرنا ریاست کی ذمے داری ہے تاکہ قوم اپنے رہنما منتخب کرنے میں کوئی ایسی بڑی غلطی نہ کر بیٹھے کہ جس کا خمیازہ صدیوں تک بگھتنا پڑے۔ قوم کو بھی چاہیے کہ وہ کسی کی اندھی تقلید نہ کرے۔ قوم کی جان ان سیاسی بونوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوٹ جائے جو سالہا سال سے قوم کو دھوکا دیتے رہے ہیںاور ہم ہیں کہ ابھی تک خواب غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
اللہ کرے مستقبل میں کوئی اچھی رپورٹ سننے کو مل جائے فی الحال تو ہم آپ کو سب اچھا کی رپورٹ نہیں دے سکتے ' جب ملک کے جمہوری اور پارلیمانی ادارے چپ سادھ لیں تو پھر نگاہیں کسی ایک عظیم ادارے کی طرف مرکوز ہوتی ہیں اور اگر وہ ادارہ بھی ایسی صورتحال کا کوئی سخت نوٹس نہ لیں تو ہم سب اچھا کی رپورٹ ہر گز نہیں دے سکتے ۔