کووڈ 19 اور لاک ڈاؤن کے روز و شب
یوم مزدور کے حوالے سے پاکستان کے معاشی نظام کو ایک ظالمانہ نظام قرار دیا ہے
'' لاک ڈاؤن کے روز و شب '' پروفیسر ہارون الرشید کی تصنیف ہے، اس کی خصوصیت یہ ہے کہ جب کووڈ19 جیسی وبا عذاب کی طرح پوری دنیا میں پھیل چکی تھی، ہر شخص اس سے نجات حاصل کرنے کی تگ و دو میں تھا لیکن نجات ڈھونڈنے سے بھی حاصل نہ تھی، بے شمار لوگ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تھے، گھر خالی شہر اور کوچے ویران ہوگئے تھے، لاشوں کی اجتماعی تدفین عمل میں آنے لگی اور لوگ مصافحہ اور معانقہ کرنے سے پرہیز کرنے لگے۔ ایسی ہی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے پروفیسر ہارون الرشید نے ڈائری لکھنا شروع کی اور پھر اس ڈائری کو کتابی شکل میں میڈیا گرافکس نے شایع کیا۔ سال اشاعت 2021 ہے، 3 جنوری 2021 کو پروفیسر ہارون الرشید کے دستخط کے ساتھ خاکسار کو موصول ہوئی اور اب جب کہ میں اس کتاب پر لکھنے بیٹھی ہوں تو پروفیسر صاحب اس دنیائے آب و گل سے کوچ کرچکے ہیں۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ (آمین)
انھوں نے اپنے دیباچے (پہلا) میں لکھا ہے کہ بہت مشکل اور تکلیف دہ موضوع ہے جسے میں نے اپنی ڈائری کے لیے منتخب کیا ہے، یہ ایک مرض کورونا وائرس کی کہانی ہے، جو دسمبر 2019 میں چین کے صوبے اوہان سے شروع ہوا۔ یہ ایک عجیب مرض یا وبا ہے جو بڑی سرعت کے ساتھ ایک دوسرے میں منتقل ہوتی جا رہی ہے۔
طبی ماہرین کا مشورہ ہے کہ اس سے بچاؤ کی واحد صورت یہ ہے کہ لوگوں کا ایک دوسرے سے ملنا جلنا بند کردیا جائے۔ چین میں تو صرف تین ہزار اموات ہوئیں اور دس ہفتوں میں اس نے وبا پر قابو پا لیا۔ یورپین ممالک خاص طور پر اٹلی، فرانس، جرمنی اور برطانیہ وغیرہ میں ایک طوفان کی صورت پھیلتی چلی گئی۔
انھوں نے ان حقائق سے بھی اپنے قارئین کو آگاہ کیا ہے کہ اس مرض نے ان ترقی یافتہ ممالک کو جو مشرقی ممالک کو حقیر و ذلیل سمجھتے تھے اتنا عاجز کیا کہ انھیں خدا یاد آنے لگا۔ ہر طرف سے اذان کی آوازیں بلند ہونے لگیں، اسپین جہاں پانچ سو سال سے مساجد میں تالے پڑے تھے، ان تالوں کو کھول کر اذانوں اور نماز کی اجازت دے دی گئی۔لاکھوں لوگ لقمہ اجل اور لاکھوں متاثر ہوئے اور سب سے زیادہ ہلاکتیں امریکا میں ہوئیں، شاید اسی وجہ سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قرآن مجید کی تلاوت کی اور اس کا ترجمہ سننے کے بعد کہا کہ '' اسلام ایک سچا مذہب ہے۔'' پروفیسر ہارون الرشید کی یہ ڈائری یا روزنامچہ صفحہ 11 سے شروع ہوتا ہے اور صفحہ 268 پر اس ترجمے کے ساتھ اختتام کو پہنچتا ہے:
'' اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد لیا کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں ان کی نسبت یہ نہ کہنا کہ وہ مرے ہوئے ہیں (وہ مردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں مگر تم نہیں جانتے اور ہم نقصان سے تمہاری آزمائش کریں گے تو صبر کرنے والوں کو بشارت سنا دو۔ ان لوگوں پر جب کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔'' (151 تا 156۔ سورۃ البقرہ)
انھوں نے اپنے روزنامچے کی ابتدا 23 مارچ 2020 سے کی ہے۔ 23 جولائی 2023 تک کورونا کے باعث جو حالات، واقعات منظر عام پر آئے اس کا مختصراً ذکر کیا ہے۔ اس طرح اس ڈائری میں 4 ماہ کی مکمل روداد شامل ہے۔مصنف نے پہلے باب میں اپنے گھریلو حالات اور سعادت مند اولاد خصوصاً زاہد رشید کا تذکرہ ان کے کام کاج کے حوالے سے کئی بار کیا ہے ،زاہد رشید نے اپنی والدہ کی غیر موجودگی میں کھانا اور دواؤں کی ذمے داری بخوبی انجام دی اور دوست احباب سے فون پر بات ہوتی رہی۔
مصنف نے 7 اپریل 2020 بروز جمعہ کو ہونے والے واقعات اور روز مرہ کی ہونے والی باتوں کو اپنی ڈائری کا حصہ بنایا ہے۔ اولاد کے تعارف میں پروفیسر صاحب نے اپنی اولادِ کثیر اور افلاس کا بھی ذکر کیا ہے، اپنی بیٹیوں کے معاشی مسائل سے بھی ایک باپ کی حیثیت سے ان کا دل دکھتا ہے، اقبال کا ایک شعر بھی درج کیا ہے:
وہی میری کم نصیبی وہی تیری بے نیازی
مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمالِ نے نوازی
ایک اور شعر علامہ اقبال کا جو ہارون الرشید کے صبر و شکر کی داستان سنا رہا ہے، لیکن دل غم زدہ ہے:
تری بندہ پروری سے مرے دن گزر رہے ہیں
نہ گلہ ہے دوستوں کا نہ شکایتِ زمانہ
5 اپریل 2020 کی ڈائری ہمیں اس بات سے آگاہ کرتی ہے کہ پوری دنیا میں تقریباً 63 ہزار ہلاکتیں ہوچکی ہیں، برطانیہ میں 600 اموات اور امریکا میں تین ہزار لوگ داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ہیں۔ کورونا وائرس کی تباہ کاریوں نے معاشی صورت حال اور لاک ڈاؤن کی تلخ یادوں کو ڈائری میں لفظوں کی شکل میں قید کردیا گیا ہے۔ اپنی اولاد کے ساتھ اپنی اہلیہ کی فرض شناسی کے بھی قدر دان ہیں۔اپنے بچوں کو دعائیں دیتے ہوئے ایک سرد آہ بھر کر کہتے ہیں: ''ہمارا کیا ہے، ہم تو اپنی زندگی گزار چکے، کٹھنائیوں، تنگیوں اور مصائب سے کبھی چھٹکارا نہ ملا۔
گردش ایام تیرا شکریہ
ہم نے ہر پہلو سے دنیا دیکھ لی
یوم مزدور کے حوالے سے پاکستان کے معاشی نظام کو ایک ظالمانہ نظام قرار دیا ہے۔ سرکاری ملازمین عیش کرتے ہیں، بڑی بڑی تنخواہیں ملتی ہیں، ریٹائر ہوتے ہیں تو تنخواہوں سے زیادہ پنشن، عیش ہی عیش۔ اس کے مقابلے میں غیر سرکاری ملازمین کا یہ حال ہے کہ تنخواہیں کم اور وقت زیادہ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد خالی ہاتھ، اشک شوئی کے لیے اولڈ ایج بینیفٹ کارڈ۔ انھی چار ماہ میں رمضان اور عید کا چاند بھی نظر آگیا۔
عید کے دن تاریخ24 مئی 2020 اور اتوار کا دن تھا۔ موسموں کا حال اور ساتھ میں پی آئی اے کے الم ناک حادثے کا ذکر بھی ڈائری میں محفوظ ہو گیا ہے۔ 13 جولائی کا دن بجلی کے بل کے حوالے سے دکھ بھرا تھا کہ بل دس ہزار روپے کا تھا۔ خرچ کم بل زیادہ۔ 10 اگست کو انھوں نے یہ خوشخبری دی کہ لاک ڈاؤن کا مکمل خاتمہ۔ پروفیسر کی ڈائری گویا کورونا اور اس کے روز و شب کی ایک ایسی دستاویز ہے جس میں ان کے اپنے گھر کے معمولات کے ساتھ دنیا بھر کے حالات سے آگاہی ہوتی ہے۔
انھوں نے اپنے دیباچے (پہلا) میں لکھا ہے کہ بہت مشکل اور تکلیف دہ موضوع ہے جسے میں نے اپنی ڈائری کے لیے منتخب کیا ہے، یہ ایک مرض کورونا وائرس کی کہانی ہے، جو دسمبر 2019 میں چین کے صوبے اوہان سے شروع ہوا۔ یہ ایک عجیب مرض یا وبا ہے جو بڑی سرعت کے ساتھ ایک دوسرے میں منتقل ہوتی جا رہی ہے۔
طبی ماہرین کا مشورہ ہے کہ اس سے بچاؤ کی واحد صورت یہ ہے کہ لوگوں کا ایک دوسرے سے ملنا جلنا بند کردیا جائے۔ چین میں تو صرف تین ہزار اموات ہوئیں اور دس ہفتوں میں اس نے وبا پر قابو پا لیا۔ یورپین ممالک خاص طور پر اٹلی، فرانس، جرمنی اور برطانیہ وغیرہ میں ایک طوفان کی صورت پھیلتی چلی گئی۔
انھوں نے ان حقائق سے بھی اپنے قارئین کو آگاہ کیا ہے کہ اس مرض نے ان ترقی یافتہ ممالک کو جو مشرقی ممالک کو حقیر و ذلیل سمجھتے تھے اتنا عاجز کیا کہ انھیں خدا یاد آنے لگا۔ ہر طرف سے اذان کی آوازیں بلند ہونے لگیں، اسپین جہاں پانچ سو سال سے مساجد میں تالے پڑے تھے، ان تالوں کو کھول کر اذانوں اور نماز کی اجازت دے دی گئی۔لاکھوں لوگ لقمہ اجل اور لاکھوں متاثر ہوئے اور سب سے زیادہ ہلاکتیں امریکا میں ہوئیں، شاید اسی وجہ سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قرآن مجید کی تلاوت کی اور اس کا ترجمہ سننے کے بعد کہا کہ '' اسلام ایک سچا مذہب ہے۔'' پروفیسر ہارون الرشید کی یہ ڈائری یا روزنامچہ صفحہ 11 سے شروع ہوتا ہے اور صفحہ 268 پر اس ترجمے کے ساتھ اختتام کو پہنچتا ہے:
'' اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد لیا کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں ان کی نسبت یہ نہ کہنا کہ وہ مرے ہوئے ہیں (وہ مردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں مگر تم نہیں جانتے اور ہم نقصان سے تمہاری آزمائش کریں گے تو صبر کرنے والوں کو بشارت سنا دو۔ ان لوگوں پر جب کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔'' (151 تا 156۔ سورۃ البقرہ)
انھوں نے اپنے روزنامچے کی ابتدا 23 مارچ 2020 سے کی ہے۔ 23 جولائی 2023 تک کورونا کے باعث جو حالات، واقعات منظر عام پر آئے اس کا مختصراً ذکر کیا ہے۔ اس طرح اس ڈائری میں 4 ماہ کی مکمل روداد شامل ہے۔مصنف نے پہلے باب میں اپنے گھریلو حالات اور سعادت مند اولاد خصوصاً زاہد رشید کا تذکرہ ان کے کام کاج کے حوالے سے کئی بار کیا ہے ،زاہد رشید نے اپنی والدہ کی غیر موجودگی میں کھانا اور دواؤں کی ذمے داری بخوبی انجام دی اور دوست احباب سے فون پر بات ہوتی رہی۔
مصنف نے 7 اپریل 2020 بروز جمعہ کو ہونے والے واقعات اور روز مرہ کی ہونے والی باتوں کو اپنی ڈائری کا حصہ بنایا ہے۔ اولاد کے تعارف میں پروفیسر صاحب نے اپنی اولادِ کثیر اور افلاس کا بھی ذکر کیا ہے، اپنی بیٹیوں کے معاشی مسائل سے بھی ایک باپ کی حیثیت سے ان کا دل دکھتا ہے، اقبال کا ایک شعر بھی درج کیا ہے:
وہی میری کم نصیبی وہی تیری بے نیازی
مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمالِ نے نوازی
ایک اور شعر علامہ اقبال کا جو ہارون الرشید کے صبر و شکر کی داستان سنا رہا ہے، لیکن دل غم زدہ ہے:
تری بندہ پروری سے مرے دن گزر رہے ہیں
نہ گلہ ہے دوستوں کا نہ شکایتِ زمانہ
5 اپریل 2020 کی ڈائری ہمیں اس بات سے آگاہ کرتی ہے کہ پوری دنیا میں تقریباً 63 ہزار ہلاکتیں ہوچکی ہیں، برطانیہ میں 600 اموات اور امریکا میں تین ہزار لوگ داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ہیں۔ کورونا وائرس کی تباہ کاریوں نے معاشی صورت حال اور لاک ڈاؤن کی تلخ یادوں کو ڈائری میں لفظوں کی شکل میں قید کردیا گیا ہے۔ اپنی اولاد کے ساتھ اپنی اہلیہ کی فرض شناسی کے بھی قدر دان ہیں۔اپنے بچوں کو دعائیں دیتے ہوئے ایک سرد آہ بھر کر کہتے ہیں: ''ہمارا کیا ہے، ہم تو اپنی زندگی گزار چکے، کٹھنائیوں، تنگیوں اور مصائب سے کبھی چھٹکارا نہ ملا۔
گردش ایام تیرا شکریہ
ہم نے ہر پہلو سے دنیا دیکھ لی
یوم مزدور کے حوالے سے پاکستان کے معاشی نظام کو ایک ظالمانہ نظام قرار دیا ہے۔ سرکاری ملازمین عیش کرتے ہیں، بڑی بڑی تنخواہیں ملتی ہیں، ریٹائر ہوتے ہیں تو تنخواہوں سے زیادہ پنشن، عیش ہی عیش۔ اس کے مقابلے میں غیر سرکاری ملازمین کا یہ حال ہے کہ تنخواہیں کم اور وقت زیادہ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد خالی ہاتھ، اشک شوئی کے لیے اولڈ ایج بینیفٹ کارڈ۔ انھی چار ماہ میں رمضان اور عید کا چاند بھی نظر آگیا۔
عید کے دن تاریخ24 مئی 2020 اور اتوار کا دن تھا۔ موسموں کا حال اور ساتھ میں پی آئی اے کے الم ناک حادثے کا ذکر بھی ڈائری میں محفوظ ہو گیا ہے۔ 13 جولائی کا دن بجلی کے بل کے حوالے سے دکھ بھرا تھا کہ بل دس ہزار روپے کا تھا۔ خرچ کم بل زیادہ۔ 10 اگست کو انھوں نے یہ خوشخبری دی کہ لاک ڈاؤن کا مکمل خاتمہ۔ پروفیسر کی ڈائری گویا کورونا اور اس کے روز و شب کی ایک ایسی دستاویز ہے جس میں ان کے اپنے گھر کے معمولات کے ساتھ دنیا بھر کے حالات سے آگاہی ہوتی ہے۔