مسئلہ فلسطین اور عالمی اداروں کی بے اعتنائی
خضر عدنان کی شہادت نے مکار اور فریبی دنیا کا چہرہ ہمارے سامنے عیاں کر دیا ہے
مسئلہ فلسطین کی بات ہو تو یقینی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ عالمی اداروں نے کبھی مثبت کردار ادا کیا ہی نہیں ہے۔ ہمیشہ عالمی اداروں پر استعماری قوتوں کی اجارہ داری رہی ہے۔
اقوام متحدہ کا قیام بھی دوسری جنگ عظیم کے بعد اس لیے عمل میں لایا گیا تھا ، کیونکہ طاقت کے زور پر سب کچھ حاصل کرنے والے مغربی ریاستیں چاہتی تھیں کہ دنیا کو کنٹرول کرنے کا ایک منظم نظام ہونا چاہیے اور اس نظام کی کنجی ان کے ہاتھوں میں رہے کہ جب چاہے، جہاں چاہے اس نظام کے ذریعہ کنٹرول حاصل کریں۔
بعد ازاں دنیا میں ایسی متعدد مثالیں سامنے آئی ہیں کہ طاقت کے نشے میں دھت استعماری قوتوں کو شیلٹر فراہم کرنے والے یہی عالمی ادارے ہی تھے اور خاص طور پر اقوام متحدہ۔ اقوام متحدہ کی پہلی جنگ عظیم کے بعد پیدا ہونے والی شکل کو دیکھ کر ہی شاعر مشرق علامہ اقبال نے اس ادارے کو کفن چوروں کی انجمن کہا تھا۔
حال ہی میں مقبوضہ فلسطین کے ایک عظیم رہنما اور تحریک آزادی فلسطین کے مجاہد خضر عدنان جوکہ گزشتہ 86دنوں سے غاصب صہیونیوں کی قید میں تھے اور قید میں رہتے ہوئے احتجاجی طور پر بھوک ہڑتال کر رکھی تھی۔
انھوں نے بھوک ہڑتال اس لیے کی تھی کیونکہ ماضی میں کئی ایک مرتبہ ان کو غاصب صہیونیوں نے بلا جواز گرفتارکیا اور قید کیا لیکن ان پرکوئی جرم ثابت نہ تھا۔ ان کا صرف اور صرف ایک ہی جرم تھا کہ وہ فلسطینی ہیں اور اپنے وطن کی آزادی چاہتے تھے، وہ غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کو ناجائز اور غیر قانونی تصور کرتے تھے یہی ان کا جرم تھا۔
غاصب صیہونیوں نے جب خضر عدنان کو گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا تو انھوں نے پہلا سوال یہی اٹھایا کہ '' آخر کیوں قید کیا گیا ہے ؟ '' اس سوال کا جواب تو غاصب صیہونی حکومت کے پاس موجود نہ تھا لہٰذا خضر عدنان نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ بھوک ہڑتال کے ذریعے اپنی بلا جواز گرفتاری کے خلاف احتجاج کریں گے۔
تقریبا تین ماہ تک بھوک ہڑتال پر رہنے والے اس فلسطینی قیدی کی دنیا بھر میں سوشل میڈیا پر گونج سنی گئی۔ دنیا بھر کے لوگوں نے خضر عدنان سے یکجہتی کے لیے ان کی اسپتال سے نشر ہونے والی تصاویر کو اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس پر لگانا شروع کیا اور عالمی اداروں کے مردہ ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی لیکن یہ مردہ ضمیر ٹس سے مس نہ ہوا،آخر کار خضر عدنان دو مئی کو جام شہادت نوش کر گئے۔
بعض اوقات مسئلہ فلسطین کی بات ہو تو عالمی اداروں میں موجود نام نہاد دانشور اور تجزیہ کاروں کی طرف سے فلسطینی عوام کے خلاف اٹھایا جانے والے ایک اعتراض بہت ہی کامن ہے، وہ یہ ہے کہ فلسطینی عوام صیہونیوں کو قتل کرتے ہیں اور ان پر حملے کرتے ہیں۔ یعنی سادہ الفاظ میں کہا جائے تو کہا جاتا ہے کہ فلسطینی مزاحمت کیوں کرتے ہیں؟ فلسطینیوں نے مسلح جدوجہد کا راستہ کیوں اختیار کیا ہے ؟
چلیں ! یہاں پر رک کر ہم کچھ دیر کے لیے بے ضمیر عالمی اداروں میں موجود نام نہاد دانشوروں اور تجزیہ کاروں کی اس بات کو مان لیتے ہیں کہ فلسطینیوں کی غلطی ہے کہ وہ مسلح جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہ بات کچھ دیر کو ماننے کے ساتھ ساتھ ہمیں اتنا حق دینا چاہیے کہ ہم ان عالمی اداروں سے سوال کریں کہ اب خضر عدنان کیوں آخر کار صیہونیوں کی قید میں شہید ہوگئے ؟ کیا خضر عدنان صیہونیوں کی قید میں مسلح جدوجہد کر رہے تھے ؟ اگر وہ پر امن تھے تو پھر کیوں عالمی اداروں کا مردہ ضمیر نہیں جاگ اٹھا ؟
اس سوال کا جواب جس طرح غاصب صیہونی حکومت کے پاس نہیں ہے اسی طرح عالمی اداروں میں موجود ان نام نہاد دانشوروں اور ماہرین کے پاس بھی نہیں ہے،کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ عالمی اداروں میں موجود لوگوں کے معیار دہرے ہیں۔ ان اداروں میں موجود حکومتیں، غاصب صیہونی حکومت کی سرپرستی کرتی ہیں۔ امریکا ہی سالانہ اربوں ڈالر اسرائیل کی فوجی مدد کی غرض سے دیتا ہے۔
نہ جانے کیوں امریکی عوام اپنی حکومت سے نہیں پوچھتے کہ ان کا ادا کردہ ٹیکس کیوں غاصب صیہونی حکومت کی خدمت میں کیوں خرچ کیا جاتا ہے ؟ مجھے یقین ہے کہ آنے والا وقت امریکی عوام میں اس شعور کو بیدار کر دے گا اور امریکی عوام سمیت یورپی ممالک کی عوام اور اقوام اپنی اپنی حکومتوں سے اس طرح کے جواب ضرور طلب کریں گی۔
مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ مغربی دنیا کی اقوام کے اپنی حکومتوں کے سامنے اٹھائے جانے والے سوالوں میں سرفہرست سوال یہ ضرور ہوگا کہ صیہونیوں کی قید میں کس طرح ایک نہتے اور بے گناہ انسان خضرعدنان کو شہید کیا گیا۔
یہ سوال ضرور اٹھے گا کہ مغربی حکومتیں جو انسانی حقوق کا راگ الاپتے نہیں تھکتی ہیں، آخر کار کیوں خضر عدنان کے معاملہ پر خاموش تماشائی بنی ہوئی تھیں۔ صرف بات یہاں تک نہ تھی بلکہ خضر عدنان کی شہادت کے بعد بھی مغرب کی یہ حکومتیں جو انسانی حقوق کا راگ الاپ الاپ کر دنیا کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرتی ہیں، اس ظلم پر خاموش رہتی ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ خضر عدنان کی شہادت نے مکار اور فریبی دنیا کا چہرہ ہمارے سامنے عیاں کر دیا ہے۔ خضر عدنان کی شہادت نے عالمی اداروں کے کھوکھلے نعروں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ دنیا کو بتا دیا ہے کہ ان عالمی اداروں کی جانب سے جمہوریت اور انسانی حقوق کے نعروں میں کسی قسم کی کوئی سچائی باقی نہیں ہے۔ خضر عدنان نے عالمی اداروں کی مکاری اور فریب کاری کو کھول کر رکھ دیا ہے۔
خضر عدنان تو شہید ہو گئے لیکن ان کا مشن فلسطین سے لے کر پاکستان اور دنیا کے تمام ممالک میں جاری رہے گا، شہید کبھی مرتا نہیں ہے۔ شہید خضر عدنان ہمیشہ حریت پسندوں کے دلوں میں آباد رہیں گے، جب جب شہید خضر عدنان کا نام آئے گا دنیا کے انسانوں کا خون پینے والے عالمی ادارے اپنے وجود سے نفرت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ خضر عدنان کی شہادت فلسطین اور القدس شریف کی آزادی کے راستے کا ایک جز ہے۔
عالمی اداروں کی اس قدر بے حسی اور مجرمانہ کردار کو دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ عالمی ادارے استعماری قوتوں کی کاسہ لیسی کرنے کی وجہ سے اپنی اہمیت اور افادیت کھو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ اس میں سرفہرست ہے۔