پاکستان کا سیاسی مستقبل
پاکستان کی سیاست میں ہر گزرتے دن کے ساتھ مایوسی اور تلخی بڑھ رہی ہے
پاکستان کی سیاست میں ہر گزرتے دن کے ساتھ مایوسی اور تلخی بڑھ رہی ہے۔ ایک طرف کمزور معاشی حالات اور ڈیفالٹ کے سنگین خطرات دوسری سیاسی ماحول میں بڑھتی تلخیاں اور نفرت جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد ان کے حامی سڑکوں پر نکل آئے اور سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ کے ساتھ حساس اداروں کی تنصیبات پر حملے کیے۔ پرتشدد مظاہروں اور احتجاج سے کئی افراد کی قیمتی جانیں ضایع ہوئیں اور اربوں روپے کی املاک کو نقصان پہنچا۔ حالات کی سنگینی کے پیش نظر پنجاب، خیبر پختونخوا اور اسلام آباد میں فوج طلب کی گئی۔
سیاسی سرگرمیاں اور پر امن احتجاج ہر شہری کا بنیادی آئینی حق ہے، لیکن عمران خان کی گرفتاری کے خلاف ہونے والے پرتشدد ردعمل کی کوئی توجیح پیش کرنا ممکن نہیں۔ سرکاری املاک اور حساس تنصیبات پر شرپسندوں کے حملے انتہائی قابل مذمت ہیں، ایسے شرپسندوں کو گرفتار کر کے نہ صرف قانون کے کٹہرے میں لایا جائے بلکہ ملکی املاک کو ہونے والے نقصان کا ازالہ بھی ان شرپسندوں سے ہی کروانا چاہیے۔
پر تشدد مظاہروں اور حساس تنصیبات پر حملوں کے باوجود ریاستی اداروں نے انتہائی تحمل، بردباری، صبر اور برداشت سے کام لیا اور ردعمل نہ دے کر شرپسندوں کی جانب سے عوام سے ٹکراؤ کی سازش کو ناکام بنایا۔ پرتشدد مظاہروں سے نمٹنے کے لیے حکومت کا رد عمل انتہائی مایوس کن عاقبت نا اندیشی پر مبنی تھا۔ ایک طرف حکومتی وزرا کے تند و تیز بیانات اور دھمکیوں نے آگ کو مزید بڑھکایا دوسری جانب تحریک انصاف کے جلسوں اور ریلیوں پر دفعہ 144 کے ذریعے مسلسل پابندیاں لگا کر سیاسی ماحول میں موجود کشیدگی کو مزید بڑھاوا دیا۔
رہی سہی کسر تحریک انصاف کی قیادت کے خلاف سخت ترین کریک ڈاؤن اور طاقت کے بے جا استعمال نے پوری کردی۔ سپریم کورٹ کے عمران خان کی گرفتاری کے طریقہ کار کو غیر قانونی قرار دینے کے بعد حکومت کی فہم و فراست اور تلخی بھرے سیاسی ماحول میں حالات کی نزاکت کو سمجھنے کی صلاحیت پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔
میرے خیال میں ان حالات کی ذمے دار صرف تحریک انصاف نہیں بلکہ پوری سیاسی قیادت ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت سپریم کورٹ سے موقع ملنے کے باوجود انتخابات کی متفقہ تاریخ طے کرنے میں بالکل ناکام ہوئی۔ سیاسی قیادت کی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے پیدا ہونے والی سیاسی تقسیم نفرت کا روپ دھار کر سماج میں نچلی سطح پر منتقل ہوچکی ہے۔
دو روز کے دوران ہونے والے احتجاج اور پر تشدد واقعات سے جہاں ملک میں سیاسی کشیدگی اور بحران میں اضافہ ہوا تو وہیں اس صورتحال نے ملک کے معاشی شعبے کو بھی بظاہر متاثر کیا۔ پاکستان کی معاشی صورتحال آئی ایم ایف پروگرام کی غیر یقینی اور تاخیر کی وجہ سے پہلے ہی پتلی تھی، رہی سہی کسر پر تشدد احتجاج سے پیدا ہونے والی سیاسی اور سیکیورٹی صورتحال نے پوری کردی۔
بد امنی اور سیاسی غیر یقینی کی وجہ سے صرف 48 گھنٹوں کے دوران ڈالر کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح 300 روپے تک پہنچ گئی۔ انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے صرف ٹیلی کام سیکٹر کو 48 گھنٹوں میں 86 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ انٹرنیٹ کی بندش سے حکومت کو ٹیکس کی مد میں 28 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔
سافٹ ویئر بنانے والی کمپنیوں اور انٹرنیٹ پر فری لانسنگ کے ذریعے روزگار کمانے والوں کو 2 روز کے دوران 10 ارب روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ امن و امان کی صورت حال اور مظاہروں کا براہ راست اثر پاکستان کی اسٹاک ایکسچینج پر پڑتا ہے۔ غیر یقینی سیاسی حالات اور معاشی صورتحال کی وجہ سے پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں پہلے ہی کاروباری رجحان منفی تھا۔ عمران خان کی گرفتاری اور پر تشدد مظاہروں نے اسٹاک ایکسچینج میں کاروباری سرگرمیوں کو مزید منفی کر دیا۔
عمران خان کی گرفتاری کے ایک گھنٹے بعد کراچی اسٹاک مارکیٹ کا انڈیکس ساڑھے چار سو پوائنٹس سے گِر گیا اور بدھ کو اس میں مزید تین سو پوائنٹس کی کمی واقع ہوئی۔ صرف دو روز کے دوران اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاروں کا اربوں روپیہ ڈوب گیا۔ انٹرنیٹ کی بندش اور پرتشدد مظاہروں کی وجہ سے بے بینکاری نظام بالکل ٹھپ ہوگیا، یوں کاروباری برادری کو کم و بیش 200 ارب روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
سیاسی غیر یقینی اور پر تشدد مظاہروں نے ملکی معیشت کو تو منفی طور پر متاثر کیا ہے۔ اس کے اثرات اور مہنگائی کی صورت عام آدمی پر بھی اثرانداز ہوں گے۔ ڈالر کے ریٹ میں اضافے سے مہنگائی کی ایک نئی لہر پیدا ہوگی جس سے براہ راست اثر تنخواہ دار اور مڈل کلاس طبقے پر پڑے گا۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والے احتجاج اور پرتشدد مظاہروں کی ایک بڑی وجہ موجودہ حکومت کی خراب معاشی پالیسیاں ایک بدترین مہنگائی بھی تھی۔
پی ڈی ایم حکومت مہنگائی کے خاتمے کا نعرہ لے کر اقتدار میں آئی تھی لیکن اتحادی حکومت کی ناقص پالیسیوں اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک میں مہنگائی نے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ مہنگائی اور خراب معاشی صورتحال کا غم و غصہ بھی عوام نے حکومت کے خلاف پر تشدد مظاہروں کی صورت نکالا۔
اگر ابھی بھی سیاسی قیادت نے ہوش کے ناخن نہ لیے اور سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لیے ضد اور ہٹ دھرمی کو نہ چھوڑا تو معاشی تباہی تو یقینی ہے ، ڈر ہے کہیں عوام سیاسی قیادت کے کنٹرول سے نکل کر معاملات کو اپنے ہاتھ میں نہ لے لے۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد ان کے حامی سڑکوں پر نکل آئے اور سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ کے ساتھ حساس اداروں کی تنصیبات پر حملے کیے۔ پرتشدد مظاہروں اور احتجاج سے کئی افراد کی قیمتی جانیں ضایع ہوئیں اور اربوں روپے کی املاک کو نقصان پہنچا۔ حالات کی سنگینی کے پیش نظر پنجاب، خیبر پختونخوا اور اسلام آباد میں فوج طلب کی گئی۔
سیاسی سرگرمیاں اور پر امن احتجاج ہر شہری کا بنیادی آئینی حق ہے، لیکن عمران خان کی گرفتاری کے خلاف ہونے والے پرتشدد ردعمل کی کوئی توجیح پیش کرنا ممکن نہیں۔ سرکاری املاک اور حساس تنصیبات پر شرپسندوں کے حملے انتہائی قابل مذمت ہیں، ایسے شرپسندوں کو گرفتار کر کے نہ صرف قانون کے کٹہرے میں لایا جائے بلکہ ملکی املاک کو ہونے والے نقصان کا ازالہ بھی ان شرپسندوں سے ہی کروانا چاہیے۔
پر تشدد مظاہروں اور حساس تنصیبات پر حملوں کے باوجود ریاستی اداروں نے انتہائی تحمل، بردباری، صبر اور برداشت سے کام لیا اور ردعمل نہ دے کر شرپسندوں کی جانب سے عوام سے ٹکراؤ کی سازش کو ناکام بنایا۔ پرتشدد مظاہروں سے نمٹنے کے لیے حکومت کا رد عمل انتہائی مایوس کن عاقبت نا اندیشی پر مبنی تھا۔ ایک طرف حکومتی وزرا کے تند و تیز بیانات اور دھمکیوں نے آگ کو مزید بڑھکایا دوسری جانب تحریک انصاف کے جلسوں اور ریلیوں پر دفعہ 144 کے ذریعے مسلسل پابندیاں لگا کر سیاسی ماحول میں موجود کشیدگی کو مزید بڑھاوا دیا۔
رہی سہی کسر تحریک انصاف کی قیادت کے خلاف سخت ترین کریک ڈاؤن اور طاقت کے بے جا استعمال نے پوری کردی۔ سپریم کورٹ کے عمران خان کی گرفتاری کے طریقہ کار کو غیر قانونی قرار دینے کے بعد حکومت کی فہم و فراست اور تلخی بھرے سیاسی ماحول میں حالات کی نزاکت کو سمجھنے کی صلاحیت پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔
میرے خیال میں ان حالات کی ذمے دار صرف تحریک انصاف نہیں بلکہ پوری سیاسی قیادت ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت سپریم کورٹ سے موقع ملنے کے باوجود انتخابات کی متفقہ تاریخ طے کرنے میں بالکل ناکام ہوئی۔ سیاسی قیادت کی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے پیدا ہونے والی سیاسی تقسیم نفرت کا روپ دھار کر سماج میں نچلی سطح پر منتقل ہوچکی ہے۔
دو روز کے دوران ہونے والے احتجاج اور پر تشدد واقعات سے جہاں ملک میں سیاسی کشیدگی اور بحران میں اضافہ ہوا تو وہیں اس صورتحال نے ملک کے معاشی شعبے کو بھی بظاہر متاثر کیا۔ پاکستان کی معاشی صورتحال آئی ایم ایف پروگرام کی غیر یقینی اور تاخیر کی وجہ سے پہلے ہی پتلی تھی، رہی سہی کسر پر تشدد احتجاج سے پیدا ہونے والی سیاسی اور سیکیورٹی صورتحال نے پوری کردی۔
بد امنی اور سیاسی غیر یقینی کی وجہ سے صرف 48 گھنٹوں کے دوران ڈالر کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح 300 روپے تک پہنچ گئی۔ انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے صرف ٹیلی کام سیکٹر کو 48 گھنٹوں میں 86 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ انٹرنیٹ کی بندش سے حکومت کو ٹیکس کی مد میں 28 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔
سافٹ ویئر بنانے والی کمپنیوں اور انٹرنیٹ پر فری لانسنگ کے ذریعے روزگار کمانے والوں کو 2 روز کے دوران 10 ارب روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ امن و امان کی صورت حال اور مظاہروں کا براہ راست اثر پاکستان کی اسٹاک ایکسچینج پر پڑتا ہے۔ غیر یقینی سیاسی حالات اور معاشی صورتحال کی وجہ سے پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں پہلے ہی کاروباری رجحان منفی تھا۔ عمران خان کی گرفتاری اور پر تشدد مظاہروں نے اسٹاک ایکسچینج میں کاروباری سرگرمیوں کو مزید منفی کر دیا۔
عمران خان کی گرفتاری کے ایک گھنٹے بعد کراچی اسٹاک مارکیٹ کا انڈیکس ساڑھے چار سو پوائنٹس سے گِر گیا اور بدھ کو اس میں مزید تین سو پوائنٹس کی کمی واقع ہوئی۔ صرف دو روز کے دوران اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاروں کا اربوں روپیہ ڈوب گیا۔ انٹرنیٹ کی بندش اور پرتشدد مظاہروں کی وجہ سے بے بینکاری نظام بالکل ٹھپ ہوگیا، یوں کاروباری برادری کو کم و بیش 200 ارب روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
سیاسی غیر یقینی اور پر تشدد مظاہروں نے ملکی معیشت کو تو منفی طور پر متاثر کیا ہے۔ اس کے اثرات اور مہنگائی کی صورت عام آدمی پر بھی اثرانداز ہوں گے۔ ڈالر کے ریٹ میں اضافے سے مہنگائی کی ایک نئی لہر پیدا ہوگی جس سے براہ راست اثر تنخواہ دار اور مڈل کلاس طبقے پر پڑے گا۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والے احتجاج اور پرتشدد مظاہروں کی ایک بڑی وجہ موجودہ حکومت کی خراب معاشی پالیسیاں ایک بدترین مہنگائی بھی تھی۔
پی ڈی ایم حکومت مہنگائی کے خاتمے کا نعرہ لے کر اقتدار میں آئی تھی لیکن اتحادی حکومت کی ناقص پالیسیوں اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک میں مہنگائی نے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ مہنگائی اور خراب معاشی صورتحال کا غم و غصہ بھی عوام نے حکومت کے خلاف پر تشدد مظاہروں کی صورت نکالا۔
اگر ابھی بھی سیاسی قیادت نے ہوش کے ناخن نہ لیے اور سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لیے ضد اور ہٹ دھرمی کو نہ چھوڑا تو معاشی تباہی تو یقینی ہے ، ڈر ہے کہیں عوام سیاسی قیادت کے کنٹرول سے نکل کر معاملات کو اپنے ہاتھ میں نہ لے لے۔