لازوال دھنوں کا خالق موسیقار کمال احمد
اداکار رنگیلا کی فلم ’’ دیا اور طوفان ‘‘ کو بلاک بسٹر کامیابی حاصل ہوئی
پاکستان کی فلم انڈسٹری میں چند ہی موسیقار ایسے آئے ہیں جنھوں نے اردو اور پنجابی فلموں میں بے مثال دھنوں کا جادو جگایا ہے۔
ان میں ایک نام موسیقار کمال احمد کا بھی ہے جس کی کئی فلموں نے یکے بعد دیگرے نگار فلم ایوارڈز اور دیگر فلمی ایوارڈز حاصل کیے، نور جہاں، مہدی حسن، مہناز، رونا لیلیٰ اورگلوکارہ ناہید کو کمال احمد کی موسیقی نے ایک ممتاز گلوکارہ کا مقام دیا۔ اس کے ایک گیت کی وجہ سے جس کے بول تھے:
گا میرے منوا گاتا جا رے
جانا ہے ہمکا دور
اداکار رنگیلا کی فلم '' دیا اور طوفان '' کو بلاک بسٹر کامیابی حاصل ہوئی اور وہ نہ صرف گلوکار، اداکار مشہور ہوا بلکہ بحیثیت فلم ساز اور ہدایت کار بھی فلمی دنیا میں کافی عرصے تک راج کرتا رہا۔ موسیقار کمال احمد سے میری لاہور میں بڑی ملاقاتیں رہی تھیں جب کہ لاہور کی فلم ' صبح کا تارا' جس کا فلم ساز، ہدایت کار و اداکار رنگیلا تھا اس فلم کے گیت لکھنے کا بھی مجھے موقعہ ملا تھا۔
موسیقار کمال احمد نے بتایا کہ رنگیلا کی اور اس کی دوستی فلمی دنیا میں آنے سے بہت پہلے کی تھی جب وہ سڑک چھاپ تھا اور وہ بھی اپنی روزی روٹی کے لیے لاہور میں ایورنیو فلم اسٹوڈیو کے نزدیک ایک کچی آبادی میں ایک چھوٹے سے کمرے میں چند موسیقی کے شوقین نوجوانوں کو موسیقی سکھاتا تھا، ان نوجوانوں میں ایک سعید خان (بعد کا اداکار رنگیلا) بھی جسے گانے کا بڑا شوق تھا وہ دن بھر روزی کی تلاش میں رہنے کے بعد شام کمال احمد کے چھوٹے سے کمرے میں آتا تھا اور پھر رات دیر گئے اپنے گانے کا شوق پورا کیا کرتا تھا۔
ایک دن اس نے کمال احمد سے کہا کہ وہ کوئی ایسا گیت کمپوز کرے میرے حساب سے جسے میں آسانی سے گا سکوں تو کمال احمد نے خود ہی شاعری کی اور ایک گیت لکھا تھا وہ گیت قارئین کی دلچسپی کے لیے لکھ رہا ہوں:
گا میرے منوا گاتا جا رے
جانا ہے ہمکا دور
گا میرے منوا گاتا جا رے
ٹھمک ٹھمک نہ ہی چل رے بہلوا
اپنی ڈگریا ہے دور۔۔۔گا میرے منوا گاتا جا رے
دکھ سکھ ساتھی ہیں جیون/نہ گھبرا او پیارے
سوئے بھاگ ہمارے/مالک پہ تو چھوڑ دے ڈوری/ جو اس کو منظور/ گا میرے منوا گاتا جارے/ جانا ہے ہم کا دور/ گا میرے منوا گاتا جا رے
یہ گیت رنگیلا کو بہت پسند آیا۔ ایک دن رنگیلا نے کمال احمد سے کہا '' میرے یار، اگر تجھے پہلی فلم دنیا میں پہلے موسیقار کی حیثیت سے موقع مل گیا تو وعدہ کر تو یہ گیت میرے سواکسی اور سے نہیں گوائے گا اور اگر مالک نے میری پہلے سن لی اور میں فلموں میں اداکاری کرنے لگوں گا تو یہ میرا تجھ سے وعدہ ہے میں اپنی ذاتی فلم بناؤں گا اور تجھے ہی موسیقار لوں گا ''۔
شباب کیرانوی صاحب نے ہی سعید خان کا فلمی نام رنگیلا رکھا، رنگیلا فلمی دنیا کا مشہور اداکار بن گیا تھا۔ ایک فلم میں یہ مزاحیہ کردار کر رہا تھا اس فلم کے مرکزی کردار اعجاز اور نغمہ تھے وہ فلم ہٹ ہوئی اور اس فلم کی شوٹنگ کے دوران رنگیلا نے دونوں آرٹسٹوں کو اپنی فلم بنانے کی خواہش کا اظہار کیا اور فلم کی کہانی سنائی فلم کا نام بھی رکھ دیا تھا '' دیا اور طوفان۔'' وہ شاید رنگیلا کی دعا کی قبولیت کا وقت تھا۔ اعجاز اور نغمہ دونوں نے رنگیلا کی فلم میں کام کرنے پر حامی بھر لی۔ یہ خوش خبری رنگیلا نے کمال احمد کو سنائی اور پھر فلم سیٹ پر آگئی، کمال احمد ہی اس فلم کا موسیقار تھا۔
فلم کے سارے گانے سپرہٹ ہوئے اور فلم کا ایک خاص گیت '' گا میرے منوا گاتا جا رے '' نے کامیابی کی دھوم مچا دی تھی۔ موسیقار کمال احمد کو شہرت رنگیلا کی فلم دیا اور طوفان سے ملی تھی۔ پھر رنگیلا کی دوسری فلم رنگیلا کے نام سے بنی تھی جس میں گلوکارہ تصور خانم کی آواز میں ایک گیت کو بڑی شہرت ملی تھی ، رنگیلا پروڈکشن ہی کی فلم دل اور دنیا میں موسیقار کمال احمد نے نئی گلوکارہ رونا لیلیٰ سے ایک گیت گوایا تھا۔ اور تصور خانم کے گائے ہوئے
وے سب توں سوہنیاں
ہائے وے من مونیاں
پھر موسیقار کمال احمد سنگیتا پروڈکشن سے وابستہ ہوگئے تھے اور سنگیتا کی فلم '' تیرے میرے سپنے '' میں ملتان سے نئی نئی لاہور آئی ہوئی۔ ریڈیو کی گلوکارہ ناہید اختر کی آواز میں ایک گیت ریکارڈ کرایا تھا جس کے بول تھے:
میں ہو گئی دلدار کی، ہونے لگی چبھن پیار
دل میں کانٹا سا چبھ چبھ گیا
تیرے میرے سپنے کے اس گیت کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی اور گلوکارہ ناہید اختر کا یہ پہلا گیت سپرہٹ ہوا تھا اور حسن اتفاق کہ یہ گیت میرا لکھا ہوا تھا اور فلم تیرے میرے سپنے نے پلاٹینم جوبلی منائی تھی۔ پھر سنگیتا پروڈکشن کی ہی ایک فلم عشق عشق جس میں ندیم، کویتا مرکزی کردار میں تھے میرا ہی لکھا ہوا ایک گیت جو مہدی حسن نے گایا تھا بہت ہی مقبول ہوا تھا جس کے بول تھے:
نیناں رے نیناں تم ہی برے
تم سے برا نہ کوئے
آپ ہی پریت لگائے رے پگلے
آپ ہی بیٹھا روئے
میرے لکھے ہوئے اور موسیقار کمال احمد کے کمپوز کیے ہوئے اس گیت کو ہندوستان کے موسیقار ہمیش ریشمیا نے اپنی فلم عشق ڈینجرس میں کاپی کیا تھا۔ موسیقار کمال احمد نے کئی سو فلموں میں موسیقی دی تھی اور ان میں بہت سی فلمیں پنجابی زبان کی بھی تھیں اور ہر فلم کا میوزک ہٹ ہوا تھا۔ کمال احمد نے ایک دو پشتو فلموں میں بھی موسیقی دی تھی اور پشتو فلم بینوں کے بھی دل جیت لیے تھے جس پنجابی بشیرا سے جس کے ہدایت کار اسلم ڈار تھے پنجابی فلموں کے سرتاج ہیرو سلطان راہی کو شہرت ملی تھی وہ سلطان راہی کی ابتدا کی فلم تھی جس کی موسیقی بھی کمال احمد نے دی تھی اور ہر گیت سپرہٹ تھا۔
موسیقار کمال احمد کو 1984 سے لے کر 1992 تک باکمال موسیقار کا خطاب دیا گیا تھا اور بطور بہترین موسیقار چھ مرتبہ نگار پبلک فلم ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔ آج موسیقار کمال احمد اس دنیا میں نہیں ہیں مگر ان کی بنائی ہوئی دل نواز دھنیں فلمی دنیا کا ایک قیمتی سرمایا اور فلمی موسیقی کی سروں سے جگمگاتی ہوئی ایک تاریخ ہیں اور فضاؤں میں ان کی دھنوں کا آج بھی جادو بکھرا ہوا ہے۔
ان میں ایک نام موسیقار کمال احمد کا بھی ہے جس کی کئی فلموں نے یکے بعد دیگرے نگار فلم ایوارڈز اور دیگر فلمی ایوارڈز حاصل کیے، نور جہاں، مہدی حسن، مہناز، رونا لیلیٰ اورگلوکارہ ناہید کو کمال احمد کی موسیقی نے ایک ممتاز گلوکارہ کا مقام دیا۔ اس کے ایک گیت کی وجہ سے جس کے بول تھے:
گا میرے منوا گاتا جا رے
جانا ہے ہمکا دور
اداکار رنگیلا کی فلم '' دیا اور طوفان '' کو بلاک بسٹر کامیابی حاصل ہوئی اور وہ نہ صرف گلوکار، اداکار مشہور ہوا بلکہ بحیثیت فلم ساز اور ہدایت کار بھی فلمی دنیا میں کافی عرصے تک راج کرتا رہا۔ موسیقار کمال احمد سے میری لاہور میں بڑی ملاقاتیں رہی تھیں جب کہ لاہور کی فلم ' صبح کا تارا' جس کا فلم ساز، ہدایت کار و اداکار رنگیلا تھا اس فلم کے گیت لکھنے کا بھی مجھے موقعہ ملا تھا۔
موسیقار کمال احمد نے بتایا کہ رنگیلا کی اور اس کی دوستی فلمی دنیا میں آنے سے بہت پہلے کی تھی جب وہ سڑک چھاپ تھا اور وہ بھی اپنی روزی روٹی کے لیے لاہور میں ایورنیو فلم اسٹوڈیو کے نزدیک ایک کچی آبادی میں ایک چھوٹے سے کمرے میں چند موسیقی کے شوقین نوجوانوں کو موسیقی سکھاتا تھا، ان نوجوانوں میں ایک سعید خان (بعد کا اداکار رنگیلا) بھی جسے گانے کا بڑا شوق تھا وہ دن بھر روزی کی تلاش میں رہنے کے بعد شام کمال احمد کے چھوٹے سے کمرے میں آتا تھا اور پھر رات دیر گئے اپنے گانے کا شوق پورا کیا کرتا تھا۔
ایک دن اس نے کمال احمد سے کہا کہ وہ کوئی ایسا گیت کمپوز کرے میرے حساب سے جسے میں آسانی سے گا سکوں تو کمال احمد نے خود ہی شاعری کی اور ایک گیت لکھا تھا وہ گیت قارئین کی دلچسپی کے لیے لکھ رہا ہوں:
گا میرے منوا گاتا جا رے
جانا ہے ہمکا دور
گا میرے منوا گاتا جا رے
ٹھمک ٹھمک نہ ہی چل رے بہلوا
اپنی ڈگریا ہے دور۔۔۔گا میرے منوا گاتا جا رے
دکھ سکھ ساتھی ہیں جیون/نہ گھبرا او پیارے
سوئے بھاگ ہمارے/مالک پہ تو چھوڑ دے ڈوری/ جو اس کو منظور/ گا میرے منوا گاتا جارے/ جانا ہے ہم کا دور/ گا میرے منوا گاتا جا رے
یہ گیت رنگیلا کو بہت پسند آیا۔ ایک دن رنگیلا نے کمال احمد سے کہا '' میرے یار، اگر تجھے پہلی فلم دنیا میں پہلے موسیقار کی حیثیت سے موقع مل گیا تو وعدہ کر تو یہ گیت میرے سواکسی اور سے نہیں گوائے گا اور اگر مالک نے میری پہلے سن لی اور میں فلموں میں اداکاری کرنے لگوں گا تو یہ میرا تجھ سے وعدہ ہے میں اپنی ذاتی فلم بناؤں گا اور تجھے ہی موسیقار لوں گا ''۔
شباب کیرانوی صاحب نے ہی سعید خان کا فلمی نام رنگیلا رکھا، رنگیلا فلمی دنیا کا مشہور اداکار بن گیا تھا۔ ایک فلم میں یہ مزاحیہ کردار کر رہا تھا اس فلم کے مرکزی کردار اعجاز اور نغمہ تھے وہ فلم ہٹ ہوئی اور اس فلم کی شوٹنگ کے دوران رنگیلا نے دونوں آرٹسٹوں کو اپنی فلم بنانے کی خواہش کا اظہار کیا اور فلم کی کہانی سنائی فلم کا نام بھی رکھ دیا تھا '' دیا اور طوفان۔'' وہ شاید رنگیلا کی دعا کی قبولیت کا وقت تھا۔ اعجاز اور نغمہ دونوں نے رنگیلا کی فلم میں کام کرنے پر حامی بھر لی۔ یہ خوش خبری رنگیلا نے کمال احمد کو سنائی اور پھر فلم سیٹ پر آگئی، کمال احمد ہی اس فلم کا موسیقار تھا۔
فلم کے سارے گانے سپرہٹ ہوئے اور فلم کا ایک خاص گیت '' گا میرے منوا گاتا جا رے '' نے کامیابی کی دھوم مچا دی تھی۔ موسیقار کمال احمد کو شہرت رنگیلا کی فلم دیا اور طوفان سے ملی تھی۔ پھر رنگیلا کی دوسری فلم رنگیلا کے نام سے بنی تھی جس میں گلوکارہ تصور خانم کی آواز میں ایک گیت کو بڑی شہرت ملی تھی ، رنگیلا پروڈکشن ہی کی فلم دل اور دنیا میں موسیقار کمال احمد نے نئی گلوکارہ رونا لیلیٰ سے ایک گیت گوایا تھا۔ اور تصور خانم کے گائے ہوئے
وے سب توں سوہنیاں
ہائے وے من مونیاں
پھر موسیقار کمال احمد سنگیتا پروڈکشن سے وابستہ ہوگئے تھے اور سنگیتا کی فلم '' تیرے میرے سپنے '' میں ملتان سے نئی نئی لاہور آئی ہوئی۔ ریڈیو کی گلوکارہ ناہید اختر کی آواز میں ایک گیت ریکارڈ کرایا تھا جس کے بول تھے:
میں ہو گئی دلدار کی، ہونے لگی چبھن پیار
دل میں کانٹا سا چبھ چبھ گیا
تیرے میرے سپنے کے اس گیت کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی اور گلوکارہ ناہید اختر کا یہ پہلا گیت سپرہٹ ہوا تھا اور حسن اتفاق کہ یہ گیت میرا لکھا ہوا تھا اور فلم تیرے میرے سپنے نے پلاٹینم جوبلی منائی تھی۔ پھر سنگیتا پروڈکشن کی ہی ایک فلم عشق عشق جس میں ندیم، کویتا مرکزی کردار میں تھے میرا ہی لکھا ہوا ایک گیت جو مہدی حسن نے گایا تھا بہت ہی مقبول ہوا تھا جس کے بول تھے:
نیناں رے نیناں تم ہی برے
تم سے برا نہ کوئے
آپ ہی پریت لگائے رے پگلے
آپ ہی بیٹھا روئے
میرے لکھے ہوئے اور موسیقار کمال احمد کے کمپوز کیے ہوئے اس گیت کو ہندوستان کے موسیقار ہمیش ریشمیا نے اپنی فلم عشق ڈینجرس میں کاپی کیا تھا۔ موسیقار کمال احمد نے کئی سو فلموں میں موسیقی دی تھی اور ان میں بہت سی فلمیں پنجابی زبان کی بھی تھیں اور ہر فلم کا میوزک ہٹ ہوا تھا۔ کمال احمد نے ایک دو پشتو فلموں میں بھی موسیقی دی تھی اور پشتو فلم بینوں کے بھی دل جیت لیے تھے جس پنجابی بشیرا سے جس کے ہدایت کار اسلم ڈار تھے پنجابی فلموں کے سرتاج ہیرو سلطان راہی کو شہرت ملی تھی وہ سلطان راہی کی ابتدا کی فلم تھی جس کی موسیقی بھی کمال احمد نے دی تھی اور ہر گیت سپرہٹ تھا۔
موسیقار کمال احمد کو 1984 سے لے کر 1992 تک باکمال موسیقار کا خطاب دیا گیا تھا اور بطور بہترین موسیقار چھ مرتبہ نگار پبلک فلم ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔ آج موسیقار کمال احمد اس دنیا میں نہیں ہیں مگر ان کی بنائی ہوئی دل نواز دھنیں فلمی دنیا کا ایک قیمتی سرمایا اور فلمی موسیقی کی سروں سے جگمگاتی ہوئی ایک تاریخ ہیں اور فضاؤں میں ان کی دھنوں کا آج بھی جادو بکھرا ہوا ہے۔