ہزار سال پرانی نصیحت
امیر تیمور کو لکھے گئے خط سے مقتدر طبقے کو رہنمائی حاصل کرنی چاہیے
امیر تیمور کا پورا نام امیر تیمور گورگانی تھا۔ چودھویں صدی کا ایک راسخ العقیدہ مسلمان اور عظیم فاتح' جس نے ترک منگول سلطنت کی بنیاد رکھی۔ چند صدیاں پہلے ' قدیم روایات کے مطابق اس کی سلطنت ' ایشیا' یورپ اور افریقہ کے چند حصوں پر قائم تھی۔ گورکانی اتنا ہی ظالم تھا ' جتنا اس زمانے کے بادشاہ ہوا کرتے تھے۔
ویسے ہر زمانے میں طاقتور فریق' انسانی کھوپڑیوں کے مینار ہی ترتیب دیتا آیا ہے۔ اس روش میں ہزاروں برسوں سے کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ امیر تیمور کو علم حاصل کرنے کا جنون بھی تھا۔
تزک تیموری میں درج ہے کہ وہ علماء اور دانا لوگوں سے رائے لیتا رہتا تھا۔ وہ اسے اپنی فتوحات کی بنیاد قرار دیتا ہے۔ اس نے ایک مذہبی اور جید عالم کے ہاتھ پر بیعت بھی کر رکھی تھی۔ ایک دن امیر نے اسے خط لکھا اور دریافت کیا کہ حکومت کیسے کی جائے۔ جواب حد درجہ نایاب تھا ۔
''میں نے امور ملک گیری و حکمرانی اور دشمن کی شکست اور دشمن کو اپنے دام میں لا کر مخالفوں کو دوست بنا لینے اور دوستوں اور دشمنوںسے میل جول اور برتاؤ کی تدبیر و رائے یہ قرار دی کہ بغیر سوچے اور مشورہ کیے ہوئے کوئی کام نہ کروں۔ کیوں کہ میرے پیر نے مجھے تحریر کیا تھا کہ
ابو المنصور تیمور! تم کاروبار سلطنت میں چار باتوں کو ہمیشہ لازم کر لینا۔ مشورہ باہمی' ذاتی رائے' دور اندیشی اور بیدار مغزی ۔ کیوں کہ جو سلطنت بادشاہ کی زبردست ذاتی رائے اور مشیروں کی نیک صلا ح سے خالی ہو وہ بالکل اسی جاہل شخص کے مشابہ ہے جس کے تمام افعال و اقوال سراپا غلط ہوتے ہیںاور اس کی باتیں اور اس کے کام از اول تا آخر پشیمانی اور ندامت ہی کا سبب بنتے ہیں۔
اس لیے بہتر یہی ہے کہ اپنی سلطنت کے کاروبار کو چلانے میں دانا لوگوں کے مشورے اور اپنی تدبیر پر عمل کرو تاکہ آخر میں پچھتانا نہ پڑے۔ تم کو بھی خوب یادہے کہ سلطنت کے کاموں میں ایک حصہ برداشت اور تحمل کا ہے اور دوسرا حصہ جاننے اور سمجھنے کے بعد غافل اورنادان بننے کا' مگر پختہ ارادہ' صبر' پامردی و استقلال' دور اندیشی اورانجام بینی کے ذریعے سارے کام سدھر جاتے ہیں۔ والسلام!!
یہ خط گویا ایک رہنما تھا جس نے مجھے راہ راست دکھائی اور بتا دیا کہ سلطنت کے کاموں میں نو حصے تدبیر و مشورہ کے ذریعہ ہوتے ہیں اور صرف ایک حصہ تلوار کے وسیلہ سے''۔یہ جملے تزک تیموری میں درج ہیں۔ اور آج تک حد درجہ اہم ہیں۔ امیر تیمور کی سلطنت کو دیکھیے تو موجودہ پاکستان حد درجہ محدود سا نظر آتا ہے۔ مگر ہمارے اپنے سنگین ترین مسائل حل نہ کرنے کی جبلت ہزاروں سال پرانی محسوس ہوتی ہے۔
ابتدائی جملوں کو آج کل کے موجودہ بحران پر ثابت کر لیں۔ تو حل کی طرف جانے میں قدرے آسانی ہو جائے گی۔ حیرت انگیز نکتہ یہ بھی ہے کہ ہمارے مسائل 1947سے یکساں کیفیت کے رہے ہیں۔ ہماری قیادت کی نااہلی بھی اسی ڈگر پر قائم ہے ۔ بار بار لکھ چکا ہوں کہ قائداعظم کے علاوہ کسی سربراہ نے ریاست کے قائم ہونے کے جواز پر غور و فکر و عمل نہیں کیا۔ مقتدر طبقے کے حد درجہ ادنیٰ فیصلے آج بھی اس طرح کے ہیں۔
جس طرز کے ملک کے ابتدائی دور میں تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور کا آخری حصہ دیکھیے۔ پی این اے کن افراد پر مشتمل تھی۔ حیران رہ جائیں گے کہ ستر کی دہائی کی پی این اے' موجودہ پی ڈی ایم کی ابتدائی شکل تھی۔ وہ تحریک جس کے نتیجے میں ملک ضیاء الحق کے مارشل لا کی نذر ہو گیا۔ آج بھی ویسا ہی خطرہ منڈلا رہا ہے۔ پچاس برس پہلے' اسٹیبلشمنٹ ' پی این اے کے پیچھے تھی اور آج بھی پی ڈی ایم کے پیچھے ہے۔
ماضی میں پی ڈی ایم کی قیادت الیکشن کے نتائج تسلیم نہیں کر رہی تھی اور آج بھی وہ الیکشن میں جانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ علم ہے کہ الیکشن کے نتائج میں ان کو شکست کا خوف ہے۔ ایک بات مت بھولیے۔ پی این اے کے حوصلے بلند کرنے میں ایک غیر ملکی طاقتور ترین ملک کا ہاتھ تھا۔ اور آج بھی حالات مختلف نہیں ہیں۔ پہلے ہدف ذوالفقار علی بھٹو تھا اور آج عمران خان ہے۔ اس بات پر مزید سوچنے کی ضرورت ہے کیونکہ اصل نشانہ ہمارے ملک کی ترقی ہے۔
بین الاقوامی طاقتوروں کو ایک ترقی یافتہ پاکستان حد درجہ کھٹکتا ہے۔ اس لیے ایک فالج زدہ ملک ان کے ارادوں کو زیادہ بہتر طریقے سے پورے کر سکتا ہے۔ یہ المیہ اور سچ' ملک کو مکمل طور پر غیر فعال اور بوسیدہ کر چکا ہے۔
ماضی سے نکل کر ذرا امیر تیمور کے مرشد کے مشورہ پر غور فرمائیے۔ کیا اس پر آج کاربند ہوا جا سکتا ہے۔ کیا آج اس زاویہ سے کوئی حل نکالنا ممکن ہے۔ طالب علم کا خیال ہے کہ چند تبدیلیوں کے ساتھ آج بھی ہماری بچت کا فارمولا اسی قدیم نصیحت میں موجود ہے۔
غور فرمائیے۔ کیا ہمارے تمام متحارب فریقین باہمی مشاورت کے لیے تیار ہیں۔ ہرگز نہیں ۔ بالکل نہیں۔ جماعت اسلامی اتنی سیاسی قوت نہیں رکھتی تھی کہ وہ سیاسی جنات کے درمیان مشاورت کا ڈول ڈال سکے۔ چند ہفتے پہلے بھی میری یہی رائے تھی کہ باہمی مشاورت کے لیے جو سیاسی پختگی چاہیے' ہمارا مقتدر طبقہ اس بصیرت کا حامل نہیں ہے۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ ہم پوری دنیا کے لیے مذاق بن چکے ہیں۔
ہماری حکومت کسی قسم کا عوامی مسئلہ حل کرنے سے فارغ نظر آ رہی ہے۔ مگر اس قوت کو پہچانیے جو باہمی مشاورت نہیں ہونے دینا چاہتی۔ دوسرے عنصر یعنی ذاتی رائے کی طرف آئیے۔ مقتدر طبقہ کی کوئی ذاتی رائے نہیں ہے۔ کسی غور و فکر سے عاری فیصلے کرنے کی بنیادی وجہ ہے ہی یہی' کہ ان کی کوئی اپنی رائے نہیں ہے۔ اگر وزیراعظم طاقتورملک کے ایک اہلکار کو ملنے کے لیے ان کے سفارت خانہ پہنچ جائے۔
اندازہ فرما لیجیے کہ وہ کس سطح پر سوچ رہا ہے۔ دراصل ایک ان دیکھا مگر حد درجہ مضبوط فیصلہ یہ ہے کہ مقتدر طبقے کو معاشی وسائل کو لوٹنے کی سرکاری سرپرستی حاصل ہو گی۔ اور یہ حقیقت میں ہو رہا ہے۔ کرپشن کافی چھوٹا لفظ ہے۔ مقتدر طبقہ' ایک درندہ کی طرح ملکی معیشت پر حاوی ہے۔ دوراندیشی اور بیدار مغزی پر کیا بات کی جائے۔ گمان ہے کہ امیر تیمور کو لکھا گیا یہ خط شاید ہمارے لیے تھا۔
خط میں موجود نکتہ کہ ملک کا کاروبار چلانے کے لیے دانا انسانوں سے مشاورت اور اپنی تدبیر پر عمل کرنا'حددرجہ اہم ہے۔ موجودہ اور سابقہ حکمرانوں کو دیکھیے' ان کے اردگرد ' دانشور لوگ کم ہی نظر آئیں گے۔ دراصل نرگسیت کا مارا ہوا طبقہ' اپنی فہم تو رکھتا نہیں۔ اس کے برعکس ' اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی صلاحیت سے عاری بھی ہے۔
ہمارا مقتدر طبقہ دانا لوگوں سے حد درجہ دور رہنے میں عافیت سمجھتا ہے۔ اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے کے رجحان نے حکمرانوں کو عوام کے بنیادی مسائل تک پہنچنے اور حل کرنے کی استطاعت سے ہی محروم کر دیا ہے۔ وہ غربت کے خاتمے کا حل' ایک یا چند ہزار روپے کا وظیفہ سمجھتے ہیں۔
یہ نہیں کہتے کہ کارخانے لگاؤ۔ معیشت کو مضبوط کرو تاکہ نجی شعبہ لوگوں کو روزگار دے سکے۔ وہ قرضے کے حصول کو اتنا ناممکن بنا دیتے ہیں کہ کوئی انسان' جائز طریقے سے امیر ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ویسے برا نا منایئے گا۔ غریب آدمی کے حالات بہتر کرنے کی اکثر منصوبے ' دراصل انھیں مسلسل غربت میں رکھنے کا ہی ایک طریقہ ہے۔ جائز معاشی بہتری کے بغیر اس طرح کی اسکیمیں قومی خرانے کے لیے صرف اور صرف بوجھ ہیں۔
موجودہ دور میں لوگوں کا اجتماعی شعور' پارلیمنٹ کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے۔ مگر ہمارا موجودہ نظام اس کلیے کے برعکس کام کر رہا ہے۔ پارلیمنٹ میں مضبوط فریق حزب اختلاف ہوتا ہے۔ مگر ہماری قومی اسمبلی ' اس سے بالکل متضاد ہے۔
تحریک انصاف کے ارکان اس اجتماعی بحث اور غور وفکر میں شامل ہی نہیں۔ تو بتایئے کہ عوام کے مشاورتی فیصلے کس طور پر سامنے آئیں گے۔ اس کے علاوہ دو صوبوں میں صوبائی اسمبلی کا وجود ہی نہیں۔ وہاں ایک عبوری سیٹ اپ قائم ہے۔ جب جمہور کی آواز ہی نہیں ہو گی تو خیر کے فیصلے کیسے سامنے آئیں گے۔ پھر گھیراؤ جلاؤ اور پکڑ دھکڑ نے نظام کو مزید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔
بین الاقومی سطح پر ہماری ساکھ کو حد درجہ نقصان پہنچا ہے۔ مگر یہاں کسی کو بالکل کوئی فکر نہیں۔ معیشت برباد ہو گئی۔ مگر پھر بھی حد درجہ سرکاری عیاشیاں جاری ہیں۔
سوچنا چاہیے کہ ہم برباد' نا شاد اور نامراد کیوں ہیں! امیر تیمور کو لکھے گئے خط سے مقتدر طبقے کو رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ شاید کوئی حل نکل آئے۔ پر قیامت تو دیکھیے۔ ہم ہزار سال پرانی نصیحت پر عمل پیرا ہونے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔ اس صورت حال میں انجام کو بھی سامنے رکھیے۔ شاید سبق مل جائے۔
ویسے ہر زمانے میں طاقتور فریق' انسانی کھوپڑیوں کے مینار ہی ترتیب دیتا آیا ہے۔ اس روش میں ہزاروں برسوں سے کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ امیر تیمور کو علم حاصل کرنے کا جنون بھی تھا۔
تزک تیموری میں درج ہے کہ وہ علماء اور دانا لوگوں سے رائے لیتا رہتا تھا۔ وہ اسے اپنی فتوحات کی بنیاد قرار دیتا ہے۔ اس نے ایک مذہبی اور جید عالم کے ہاتھ پر بیعت بھی کر رکھی تھی۔ ایک دن امیر نے اسے خط لکھا اور دریافت کیا کہ حکومت کیسے کی جائے۔ جواب حد درجہ نایاب تھا ۔
''میں نے امور ملک گیری و حکمرانی اور دشمن کی شکست اور دشمن کو اپنے دام میں لا کر مخالفوں کو دوست بنا لینے اور دوستوں اور دشمنوںسے میل جول اور برتاؤ کی تدبیر و رائے یہ قرار دی کہ بغیر سوچے اور مشورہ کیے ہوئے کوئی کام نہ کروں۔ کیوں کہ میرے پیر نے مجھے تحریر کیا تھا کہ
ابو المنصور تیمور! تم کاروبار سلطنت میں چار باتوں کو ہمیشہ لازم کر لینا۔ مشورہ باہمی' ذاتی رائے' دور اندیشی اور بیدار مغزی ۔ کیوں کہ جو سلطنت بادشاہ کی زبردست ذاتی رائے اور مشیروں کی نیک صلا ح سے خالی ہو وہ بالکل اسی جاہل شخص کے مشابہ ہے جس کے تمام افعال و اقوال سراپا غلط ہوتے ہیںاور اس کی باتیں اور اس کے کام از اول تا آخر پشیمانی اور ندامت ہی کا سبب بنتے ہیں۔
اس لیے بہتر یہی ہے کہ اپنی سلطنت کے کاروبار کو چلانے میں دانا لوگوں کے مشورے اور اپنی تدبیر پر عمل کرو تاکہ آخر میں پچھتانا نہ پڑے۔ تم کو بھی خوب یادہے کہ سلطنت کے کاموں میں ایک حصہ برداشت اور تحمل کا ہے اور دوسرا حصہ جاننے اور سمجھنے کے بعد غافل اورنادان بننے کا' مگر پختہ ارادہ' صبر' پامردی و استقلال' دور اندیشی اورانجام بینی کے ذریعے سارے کام سدھر جاتے ہیں۔ والسلام!!
یہ خط گویا ایک رہنما تھا جس نے مجھے راہ راست دکھائی اور بتا دیا کہ سلطنت کے کاموں میں نو حصے تدبیر و مشورہ کے ذریعہ ہوتے ہیں اور صرف ایک حصہ تلوار کے وسیلہ سے''۔یہ جملے تزک تیموری میں درج ہیں۔ اور آج تک حد درجہ اہم ہیں۔ امیر تیمور کی سلطنت کو دیکھیے تو موجودہ پاکستان حد درجہ محدود سا نظر آتا ہے۔ مگر ہمارے اپنے سنگین ترین مسائل حل نہ کرنے کی جبلت ہزاروں سال پرانی محسوس ہوتی ہے۔
ابتدائی جملوں کو آج کل کے موجودہ بحران پر ثابت کر لیں۔ تو حل کی طرف جانے میں قدرے آسانی ہو جائے گی۔ حیرت انگیز نکتہ یہ بھی ہے کہ ہمارے مسائل 1947سے یکساں کیفیت کے رہے ہیں۔ ہماری قیادت کی نااہلی بھی اسی ڈگر پر قائم ہے ۔ بار بار لکھ چکا ہوں کہ قائداعظم کے علاوہ کسی سربراہ نے ریاست کے قائم ہونے کے جواز پر غور و فکر و عمل نہیں کیا۔ مقتدر طبقے کے حد درجہ ادنیٰ فیصلے آج بھی اس طرح کے ہیں۔
جس طرز کے ملک کے ابتدائی دور میں تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور کا آخری حصہ دیکھیے۔ پی این اے کن افراد پر مشتمل تھی۔ حیران رہ جائیں گے کہ ستر کی دہائی کی پی این اے' موجودہ پی ڈی ایم کی ابتدائی شکل تھی۔ وہ تحریک جس کے نتیجے میں ملک ضیاء الحق کے مارشل لا کی نذر ہو گیا۔ آج بھی ویسا ہی خطرہ منڈلا رہا ہے۔ پچاس برس پہلے' اسٹیبلشمنٹ ' پی این اے کے پیچھے تھی اور آج بھی پی ڈی ایم کے پیچھے ہے۔
ماضی میں پی ڈی ایم کی قیادت الیکشن کے نتائج تسلیم نہیں کر رہی تھی اور آج بھی وہ الیکشن میں جانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ علم ہے کہ الیکشن کے نتائج میں ان کو شکست کا خوف ہے۔ ایک بات مت بھولیے۔ پی این اے کے حوصلے بلند کرنے میں ایک غیر ملکی طاقتور ترین ملک کا ہاتھ تھا۔ اور آج بھی حالات مختلف نہیں ہیں۔ پہلے ہدف ذوالفقار علی بھٹو تھا اور آج عمران خان ہے۔ اس بات پر مزید سوچنے کی ضرورت ہے کیونکہ اصل نشانہ ہمارے ملک کی ترقی ہے۔
بین الاقوامی طاقتوروں کو ایک ترقی یافتہ پاکستان حد درجہ کھٹکتا ہے۔ اس لیے ایک فالج زدہ ملک ان کے ارادوں کو زیادہ بہتر طریقے سے پورے کر سکتا ہے۔ یہ المیہ اور سچ' ملک کو مکمل طور پر غیر فعال اور بوسیدہ کر چکا ہے۔
ماضی سے نکل کر ذرا امیر تیمور کے مرشد کے مشورہ پر غور فرمائیے۔ کیا اس پر آج کاربند ہوا جا سکتا ہے۔ کیا آج اس زاویہ سے کوئی حل نکالنا ممکن ہے۔ طالب علم کا خیال ہے کہ چند تبدیلیوں کے ساتھ آج بھی ہماری بچت کا فارمولا اسی قدیم نصیحت میں موجود ہے۔
غور فرمائیے۔ کیا ہمارے تمام متحارب فریقین باہمی مشاورت کے لیے تیار ہیں۔ ہرگز نہیں ۔ بالکل نہیں۔ جماعت اسلامی اتنی سیاسی قوت نہیں رکھتی تھی کہ وہ سیاسی جنات کے درمیان مشاورت کا ڈول ڈال سکے۔ چند ہفتے پہلے بھی میری یہی رائے تھی کہ باہمی مشاورت کے لیے جو سیاسی پختگی چاہیے' ہمارا مقتدر طبقہ اس بصیرت کا حامل نہیں ہے۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ ہم پوری دنیا کے لیے مذاق بن چکے ہیں۔
ہماری حکومت کسی قسم کا عوامی مسئلہ حل کرنے سے فارغ نظر آ رہی ہے۔ مگر اس قوت کو پہچانیے جو باہمی مشاورت نہیں ہونے دینا چاہتی۔ دوسرے عنصر یعنی ذاتی رائے کی طرف آئیے۔ مقتدر طبقہ کی کوئی ذاتی رائے نہیں ہے۔ کسی غور و فکر سے عاری فیصلے کرنے کی بنیادی وجہ ہے ہی یہی' کہ ان کی کوئی اپنی رائے نہیں ہے۔ اگر وزیراعظم طاقتورملک کے ایک اہلکار کو ملنے کے لیے ان کے سفارت خانہ پہنچ جائے۔
اندازہ فرما لیجیے کہ وہ کس سطح پر سوچ رہا ہے۔ دراصل ایک ان دیکھا مگر حد درجہ مضبوط فیصلہ یہ ہے کہ مقتدر طبقے کو معاشی وسائل کو لوٹنے کی سرکاری سرپرستی حاصل ہو گی۔ اور یہ حقیقت میں ہو رہا ہے۔ کرپشن کافی چھوٹا لفظ ہے۔ مقتدر طبقہ' ایک درندہ کی طرح ملکی معیشت پر حاوی ہے۔ دوراندیشی اور بیدار مغزی پر کیا بات کی جائے۔ گمان ہے کہ امیر تیمور کو لکھا گیا یہ خط شاید ہمارے لیے تھا۔
خط میں موجود نکتہ کہ ملک کا کاروبار چلانے کے لیے دانا انسانوں سے مشاورت اور اپنی تدبیر پر عمل کرنا'حددرجہ اہم ہے۔ موجودہ اور سابقہ حکمرانوں کو دیکھیے' ان کے اردگرد ' دانشور لوگ کم ہی نظر آئیں گے۔ دراصل نرگسیت کا مارا ہوا طبقہ' اپنی فہم تو رکھتا نہیں۔ اس کے برعکس ' اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی صلاحیت سے عاری بھی ہے۔
ہمارا مقتدر طبقہ دانا لوگوں سے حد درجہ دور رہنے میں عافیت سمجھتا ہے۔ اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے کے رجحان نے حکمرانوں کو عوام کے بنیادی مسائل تک پہنچنے اور حل کرنے کی استطاعت سے ہی محروم کر دیا ہے۔ وہ غربت کے خاتمے کا حل' ایک یا چند ہزار روپے کا وظیفہ سمجھتے ہیں۔
یہ نہیں کہتے کہ کارخانے لگاؤ۔ معیشت کو مضبوط کرو تاکہ نجی شعبہ لوگوں کو روزگار دے سکے۔ وہ قرضے کے حصول کو اتنا ناممکن بنا دیتے ہیں کہ کوئی انسان' جائز طریقے سے امیر ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ویسے برا نا منایئے گا۔ غریب آدمی کے حالات بہتر کرنے کی اکثر منصوبے ' دراصل انھیں مسلسل غربت میں رکھنے کا ہی ایک طریقہ ہے۔ جائز معاشی بہتری کے بغیر اس طرح کی اسکیمیں قومی خرانے کے لیے صرف اور صرف بوجھ ہیں۔
موجودہ دور میں لوگوں کا اجتماعی شعور' پارلیمنٹ کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے۔ مگر ہمارا موجودہ نظام اس کلیے کے برعکس کام کر رہا ہے۔ پارلیمنٹ میں مضبوط فریق حزب اختلاف ہوتا ہے۔ مگر ہماری قومی اسمبلی ' اس سے بالکل متضاد ہے۔
تحریک انصاف کے ارکان اس اجتماعی بحث اور غور وفکر میں شامل ہی نہیں۔ تو بتایئے کہ عوام کے مشاورتی فیصلے کس طور پر سامنے آئیں گے۔ اس کے علاوہ دو صوبوں میں صوبائی اسمبلی کا وجود ہی نہیں۔ وہاں ایک عبوری سیٹ اپ قائم ہے۔ جب جمہور کی آواز ہی نہیں ہو گی تو خیر کے فیصلے کیسے سامنے آئیں گے۔ پھر گھیراؤ جلاؤ اور پکڑ دھکڑ نے نظام کو مزید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔
بین الاقومی سطح پر ہماری ساکھ کو حد درجہ نقصان پہنچا ہے۔ مگر یہاں کسی کو بالکل کوئی فکر نہیں۔ معیشت برباد ہو گئی۔ مگر پھر بھی حد درجہ سرکاری عیاشیاں جاری ہیں۔
سوچنا چاہیے کہ ہم برباد' نا شاد اور نامراد کیوں ہیں! امیر تیمور کو لکھے گئے خط سے مقتدر طبقے کو رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ شاید کوئی حل نکل آئے۔ پر قیامت تو دیکھیے۔ ہم ہزار سال پرانی نصیحت پر عمل پیرا ہونے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔ اس صورت حال میں انجام کو بھی سامنے رکھیے۔ شاید سبق مل جائے۔