ترکیہ انتخابات اور عمران خان و طیب اردوان کا تقابل
عمران خان صاحب تو اپنے اس قول سے پھر چکے ہیں کہ اُن کی رجیم چینج میں امریکی ہاتھ کارفرما تھا
پنجاب میں کسی نے 14مئی کو عام انتخابات کروانے کا اعلان کیا تھا، مگر یہ اعلان بوجوہ عمل کی شکل اختیار تو نہ کرسکا لیکن آج 14مئی2023 بروز اتوار جب یہ کالم لکھا جارہا ہے ، ترکیہ میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کا معرکہ بپا ہے ۔جب یہ سطور شایع ہوں گی، ممکن ہے مذکورہ ترکیہ انتخابات کے کچھ نتائج بھی سامنے آ چکے ہوں۔
یہ انتخابات ترکیہ کے طاقتور صدر، 69سالہ رجب طیب اردوان، اور ترکیہ کی 6 سیاسی جماعتوں کے اتحاد( نیشنل الائنس) کے 73 سالہ سربراہ ،کیمال کلچ در اولو،کے درمیان معرکے اور مقابلے کا نام ہیں۔ طیب اردوان پچھلے20برس سے ترکیہ کے طاقتور صدر چلے آ رہے ہیں ۔
وہ دو عشرے قبل جب اقتدار میں آئے تھے ، ترکیہ شدید مالی و اقتصادی مسائل اور کمر شکن مہنگائی کے شکنجوں میں جکڑا تھا۔ ڈالر کے مقابل ترکیہ کرنسی ( لیرا) زمین سے جا لگی تھی ۔ آج 20برس بعد جب طیب اردوان نئے سرے سے اقتدار حاصل کرنے اور پارلیمانی و صدارتی انتخابات جیتنے کے لیے میدان میں اُترے ہیں تو آج بھی ترکیہ شدید مہنگائی کی گرفت میں ہے۔
لیرا بے قدر ہو چکا ہے، بے روزگاری عروج پر ہے اورڈالر پہنچ سے دُور ۔جناب عمران خان اور جناب طیب اردوان کے درمیان دوستی اور محبت خاصی مضبوط رہی ہے؛ چنانچہ اِس مناسب موقع پر دونوں شخصیات کا تقابل ضروری ہے۔
طیب اردوان کے 20سالہ دَورِ اقتدار میں اپوزیشن، سیاست دان اور سیاسی جماعتیں زیرعتاب رہیں۔ عمران خان نے اپنے ساڑھے تین سالہ دَور میں اپوزیشن سیاستدانوں سے جو سلوک کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ 20برسوں میں ترکیہ میڈیا اور اخباری ادارے شدید پابندیوں کی زد میں رہے ہیں ۔
کئی ترکیہ صحافی ملازمتوں سے محروم کر دیے گئے۔یہی کچھ جناب عمران خان نے اپنے دَور میں پاکستانی میڈیا سے بھی ویسا ہی سلوک کیا۔ اِن20برسوں کے دوران ترکیہ صدر نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ دو نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں: (1) ملک میں اسلامی اقداروروایات کو فروغ دیا ہے (2) ترکیہ افواج کی بالا دستی کا خاتمہ کرتے ہوئے اسے منتخب حکومت کے ماتحت کیا ہے (3) عمران خان بھی طیب اردوان کے تتبع میں پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لا کر اپنی مقصد براری کے لیے مسلسل کوشاں ہیں۔
انھوں نے 12مئی 2023 کو اسلام آباد میں مبینہ طور پر پاکستان آرمی چیف بارے جو قابل گرفت بیان دیا ہے، اِسے بھی اِسی ذیل کا بیان سمجھا جانا چاہیے۔ عمران خان کے اِس بیان بارے وزیر اعظم جناب شہباز شریف نے جواب دیتے ہُوئے بروقت کہا ہے : '' آرمی چیف کے خلاف عمران خان کی ہرزہ سرائی فوج کے خلاف اُن کی بیمار ذہنیت کی عکاس ہے ۔''
عمران خان کے دَورِ وزارتِ عظمیٰ میں بھی کہیں کہیں اسرائیل کے حق میں نیم دروں، نیم بروں آوازیں اُٹھیں لیکن شدید ردِ عمل کے نتیجے میں فوری دب کر رہ گئیں ( ایسی آوازیں صدر جنرل پرویز مشرف کے دَور میں بھی اُٹھی تھیں لیکن دب گئیں) جناب عمران خان بھی ایک تسلسل اور ہدف کے تحت اسلامی تاریخ اور اقدار کا نام لیتے رہے اور اِسے اپنے سیاسی مقاصد و مفادات کے لیے بروئے کار لانے کی دانستہ اور بھرپور کوششیں کرتے رہے ۔
یہ کوششیں اب بھی جاری ہیں جب کہ اُن کی نجی زندگی اِن اقدار و روایات سے مطابقت نہیں رکھتی ۔جناب عمران خان اور اُن کے عزیزوں پر بھی اپنے اقتدار کے دوران کئی مالی بے ضابطگیوں کے الزامات لگے ہیں جن میں سے ابھی تک کوئی الزام عدالت کے رُوبرو ثابت نہیں ہو سکا ہے۔ اِسی طرح طیب اردوان کے چند قریبی عزیز و اقارب پر مالی بے ضابطگیوں کی تہمتیں تو لگیں، لیکن کوئی ایک بھی عدالت میں ثابت نہیں ہو سکی ہے۔
طیب اردوان صاحب کی طرح جناب عمران خان بھی ، مبینہ طور پر، کم از کم 20برسوں کے لیے اقتدار میں رہنے کا پروگرام لے کر اقتدار کے ایوانوں میں آئے تھے لیکن یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی ۔
اِس ناکامی میں اُن کی اپنی نااہلیوں اور بے احتیاطیوں نے بنیادی اور اساسی کردار ادا کیا۔ قوم نے تو اُن پر اعتبار کیا تھا لیکن اُن کے فیصلوں، اقدامات اور پالیسیوں نے عوامی اعتبار و اعتماد کو ہوا میں اُڑا کررکھ دیا۔ عالم اسلام پر سعودی عرب کے گہرے اثرو رسوخ کو کم کرنے کے لیے طیب اردوان، مہاتیر محمداور عمران خان نے اکٹھے ہو کر منصوبہ بنایا تو سہی لیکن یہ منصوبہ اُڑان بھرنے سے پہلے ہی زمیں بوس ہو گیا ۔
حالانکہ سعودی ولی عہد ، شہزادہ محمد بن سلمان، نے تو جناب عمران خان سے بڑی محبت کے مظاہرے کیے تھے۔ خان صاحب نے مگر اپنے مزاج کے عین مطابق ان محبتوں کی قدر نہیں کی ۔نتیجہ یہ نکلا کہ خان صاحب کے دَور میں سعودی عرب اور پاکستان کے سفارتی و مالیاتی تعلقات زمین پر آ رہے ۔ اب بڑی مشکل اور کوششوں کے بعد یہ تعلقات پٹڑی پر چڑھے ہیں ۔
عجب اتفاق ہے کہ اگر عمران خان کی سیاسی جماعت کا نام 'تحریکِ انصاف'' ہے تو طیب اردوان کی پارٹی کا نام بھی تقریباً یہی ہے : تحریکِ انصاف و ترقی (جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی) مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کے سہارے اور اشارے پرروز بروز طاقتور ہوتے عمران خان کو اقتدار سے بآسانی ہٹانا جب ممکن نہ رہا تو پاکستان کی درجن بھر سیاسی جماعتیں ''پی ڈی ایم'' کے پلیٹ فارم پر متحد ہوئیں اور عدم اعتماد کی تحریک کی طاقت سے خان صاحب کو اقتدار سے باہر نکال پھینکا۔ بعینہ جب 20سال سے ترکیہ اقتدار پر فائز جناب طیب اردوان کو اقتدار سے ہٹانا ممکن نہ رہا تو ترکیہ کی نصف درجن سیاسی جماعتیں یکجا ہُوئیں ۔
اب اِن نصف درجن سیاسی جماعتوں کا اتحاد ( نیشنل الائنس) 14مئی 2023 کے پارلیمانی و صدارتی انتخابات کے یُدھ میں طیب اردوان کو ہرانا اور شکست دینا چاہتا ہے۔ اِس اتحاد کے سربراہ 73 سالہ Kemal Kilicdaroglu (کیمال کلچ در اولو) ہیں۔
کیمال صاحب کا کمال یہ ہے کہ وہ خالصتاً سیکولر خیالات و نظریات کے حامل سیاستدان ہیں۔ صلح جُو اور عدم تشدد پر عمل پیرا ہونے کی بنیاد پر مغرب والے انھیں ''ترکیہ کا گاندھی''کہتے ہیں ۔ پیشے کے اعتبار سے وزارتِ خزانہ کے سابق سینئر عہدیدار اور یونیورسٹی پروفیسر رہے ہیں۔ وہ نصف درجن سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے بَل پر طیب اردوان کے مقابل کھڑے ہیں اور انھیں اجتماعی طاقت سے اقتدار اور سیاست سے باہر نکالنے کے آرزُومند ہیں۔
جس طرح عمران خان اپنے مقابل کھڑے اتحاد (پی ڈی ایم) بارے کہتے ہیں کہ انھیں ''بیرونی امداد ''( اور امریکی اشیرواد) حاصل ہے اور اِسی الزام کے تحت وہ ''پی ڈی ایم '' کی حکومت کو ''امپورٹڈ'' حکومت کہتے ہیں ، اِسی طرح طیب اردوان بھی اپنے مخالف نصف درجن سیاسی جماعتوں کے اتحاد( نیشنل الائنس) بارے بیان دیتے ہیں کہ اِن اتحادی جماعتوں کو غیر ملکی ( خصوصاً امریکی ) اشیرواد حاصل ہے۔
عمران خان صاحب تو اپنے اس قول سے پھر چکے ہیں کہ اُن کی رجیم چینج میں امریکی ہاتھ کارفرما تھا لیکن طیب اردوان ابھی تک اپنے مخالف اتحاد پر لگائے جانے والے الزام پرقائم ہیں۔ طیب اردوان نے صدارتی و پارلیمانی انتخابات کے انعقاد سے تین دن پہلے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں45فیصد اضافہ کرنے کا اعلان کرکے ترپ کا پتّہ پھینکا ہے، لیکن اِس کے باوصف '' نیشنل الائنس'' اور'' جسٹس پارٹی'' میں سے کسی ایک کی کامیابی کے واضح امکانات کم کم ہیں۔ دونوں دھڑوں کے پلڑے یکساں ہیں ۔
یہ انتخابات ترکیہ کے طاقتور صدر، 69سالہ رجب طیب اردوان، اور ترکیہ کی 6 سیاسی جماعتوں کے اتحاد( نیشنل الائنس) کے 73 سالہ سربراہ ،کیمال کلچ در اولو،کے درمیان معرکے اور مقابلے کا نام ہیں۔ طیب اردوان پچھلے20برس سے ترکیہ کے طاقتور صدر چلے آ رہے ہیں ۔
وہ دو عشرے قبل جب اقتدار میں آئے تھے ، ترکیہ شدید مالی و اقتصادی مسائل اور کمر شکن مہنگائی کے شکنجوں میں جکڑا تھا۔ ڈالر کے مقابل ترکیہ کرنسی ( لیرا) زمین سے جا لگی تھی ۔ آج 20برس بعد جب طیب اردوان نئے سرے سے اقتدار حاصل کرنے اور پارلیمانی و صدارتی انتخابات جیتنے کے لیے میدان میں اُترے ہیں تو آج بھی ترکیہ شدید مہنگائی کی گرفت میں ہے۔
لیرا بے قدر ہو چکا ہے، بے روزگاری عروج پر ہے اورڈالر پہنچ سے دُور ۔جناب عمران خان اور جناب طیب اردوان کے درمیان دوستی اور محبت خاصی مضبوط رہی ہے؛ چنانچہ اِس مناسب موقع پر دونوں شخصیات کا تقابل ضروری ہے۔
طیب اردوان کے 20سالہ دَورِ اقتدار میں اپوزیشن، سیاست دان اور سیاسی جماعتیں زیرعتاب رہیں۔ عمران خان نے اپنے ساڑھے تین سالہ دَور میں اپوزیشن سیاستدانوں سے جو سلوک کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ 20برسوں میں ترکیہ میڈیا اور اخباری ادارے شدید پابندیوں کی زد میں رہے ہیں ۔
کئی ترکیہ صحافی ملازمتوں سے محروم کر دیے گئے۔یہی کچھ جناب عمران خان نے اپنے دَور میں پاکستانی میڈیا سے بھی ویسا ہی سلوک کیا۔ اِن20برسوں کے دوران ترکیہ صدر نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ دو نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں: (1) ملک میں اسلامی اقداروروایات کو فروغ دیا ہے (2) ترکیہ افواج کی بالا دستی کا خاتمہ کرتے ہوئے اسے منتخب حکومت کے ماتحت کیا ہے (3) عمران خان بھی طیب اردوان کے تتبع میں پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لا کر اپنی مقصد براری کے لیے مسلسل کوشاں ہیں۔
انھوں نے 12مئی 2023 کو اسلام آباد میں مبینہ طور پر پاکستان آرمی چیف بارے جو قابل گرفت بیان دیا ہے، اِسے بھی اِسی ذیل کا بیان سمجھا جانا چاہیے۔ عمران خان کے اِس بیان بارے وزیر اعظم جناب شہباز شریف نے جواب دیتے ہُوئے بروقت کہا ہے : '' آرمی چیف کے خلاف عمران خان کی ہرزہ سرائی فوج کے خلاف اُن کی بیمار ذہنیت کی عکاس ہے ۔''
عمران خان کے دَورِ وزارتِ عظمیٰ میں بھی کہیں کہیں اسرائیل کے حق میں نیم دروں، نیم بروں آوازیں اُٹھیں لیکن شدید ردِ عمل کے نتیجے میں فوری دب کر رہ گئیں ( ایسی آوازیں صدر جنرل پرویز مشرف کے دَور میں بھی اُٹھی تھیں لیکن دب گئیں) جناب عمران خان بھی ایک تسلسل اور ہدف کے تحت اسلامی تاریخ اور اقدار کا نام لیتے رہے اور اِسے اپنے سیاسی مقاصد و مفادات کے لیے بروئے کار لانے کی دانستہ اور بھرپور کوششیں کرتے رہے ۔
یہ کوششیں اب بھی جاری ہیں جب کہ اُن کی نجی زندگی اِن اقدار و روایات سے مطابقت نہیں رکھتی ۔جناب عمران خان اور اُن کے عزیزوں پر بھی اپنے اقتدار کے دوران کئی مالی بے ضابطگیوں کے الزامات لگے ہیں جن میں سے ابھی تک کوئی الزام عدالت کے رُوبرو ثابت نہیں ہو سکا ہے۔ اِسی طرح طیب اردوان کے چند قریبی عزیز و اقارب پر مالی بے ضابطگیوں کی تہمتیں تو لگیں، لیکن کوئی ایک بھی عدالت میں ثابت نہیں ہو سکی ہے۔
طیب اردوان صاحب کی طرح جناب عمران خان بھی ، مبینہ طور پر، کم از کم 20برسوں کے لیے اقتدار میں رہنے کا پروگرام لے کر اقتدار کے ایوانوں میں آئے تھے لیکن یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی ۔
اِس ناکامی میں اُن کی اپنی نااہلیوں اور بے احتیاطیوں نے بنیادی اور اساسی کردار ادا کیا۔ قوم نے تو اُن پر اعتبار کیا تھا لیکن اُن کے فیصلوں، اقدامات اور پالیسیوں نے عوامی اعتبار و اعتماد کو ہوا میں اُڑا کررکھ دیا۔ عالم اسلام پر سعودی عرب کے گہرے اثرو رسوخ کو کم کرنے کے لیے طیب اردوان، مہاتیر محمداور عمران خان نے اکٹھے ہو کر منصوبہ بنایا تو سہی لیکن یہ منصوبہ اُڑان بھرنے سے پہلے ہی زمیں بوس ہو گیا ۔
حالانکہ سعودی ولی عہد ، شہزادہ محمد بن سلمان، نے تو جناب عمران خان سے بڑی محبت کے مظاہرے کیے تھے۔ خان صاحب نے مگر اپنے مزاج کے عین مطابق ان محبتوں کی قدر نہیں کی ۔نتیجہ یہ نکلا کہ خان صاحب کے دَور میں سعودی عرب اور پاکستان کے سفارتی و مالیاتی تعلقات زمین پر آ رہے ۔ اب بڑی مشکل اور کوششوں کے بعد یہ تعلقات پٹڑی پر چڑھے ہیں ۔
عجب اتفاق ہے کہ اگر عمران خان کی سیاسی جماعت کا نام 'تحریکِ انصاف'' ہے تو طیب اردوان کی پارٹی کا نام بھی تقریباً یہی ہے : تحریکِ انصاف و ترقی (جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی) مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کے سہارے اور اشارے پرروز بروز طاقتور ہوتے عمران خان کو اقتدار سے بآسانی ہٹانا جب ممکن نہ رہا تو پاکستان کی درجن بھر سیاسی جماعتیں ''پی ڈی ایم'' کے پلیٹ فارم پر متحد ہوئیں اور عدم اعتماد کی تحریک کی طاقت سے خان صاحب کو اقتدار سے باہر نکال پھینکا۔ بعینہ جب 20سال سے ترکیہ اقتدار پر فائز جناب طیب اردوان کو اقتدار سے ہٹانا ممکن نہ رہا تو ترکیہ کی نصف درجن سیاسی جماعتیں یکجا ہُوئیں ۔
اب اِن نصف درجن سیاسی جماعتوں کا اتحاد ( نیشنل الائنس) 14مئی 2023 کے پارلیمانی و صدارتی انتخابات کے یُدھ میں طیب اردوان کو ہرانا اور شکست دینا چاہتا ہے۔ اِس اتحاد کے سربراہ 73 سالہ Kemal Kilicdaroglu (کیمال کلچ در اولو) ہیں۔
کیمال صاحب کا کمال یہ ہے کہ وہ خالصتاً سیکولر خیالات و نظریات کے حامل سیاستدان ہیں۔ صلح جُو اور عدم تشدد پر عمل پیرا ہونے کی بنیاد پر مغرب والے انھیں ''ترکیہ کا گاندھی''کہتے ہیں ۔ پیشے کے اعتبار سے وزارتِ خزانہ کے سابق سینئر عہدیدار اور یونیورسٹی پروفیسر رہے ہیں۔ وہ نصف درجن سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے بَل پر طیب اردوان کے مقابل کھڑے ہیں اور انھیں اجتماعی طاقت سے اقتدار اور سیاست سے باہر نکالنے کے آرزُومند ہیں۔
جس طرح عمران خان اپنے مقابل کھڑے اتحاد (پی ڈی ایم) بارے کہتے ہیں کہ انھیں ''بیرونی امداد ''( اور امریکی اشیرواد) حاصل ہے اور اِسی الزام کے تحت وہ ''پی ڈی ایم '' کی حکومت کو ''امپورٹڈ'' حکومت کہتے ہیں ، اِسی طرح طیب اردوان بھی اپنے مخالف نصف درجن سیاسی جماعتوں کے اتحاد( نیشنل الائنس) بارے بیان دیتے ہیں کہ اِن اتحادی جماعتوں کو غیر ملکی ( خصوصاً امریکی ) اشیرواد حاصل ہے۔
عمران خان صاحب تو اپنے اس قول سے پھر چکے ہیں کہ اُن کی رجیم چینج میں امریکی ہاتھ کارفرما تھا لیکن طیب اردوان ابھی تک اپنے مخالف اتحاد پر لگائے جانے والے الزام پرقائم ہیں۔ طیب اردوان نے صدارتی و پارلیمانی انتخابات کے انعقاد سے تین دن پہلے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں45فیصد اضافہ کرنے کا اعلان کرکے ترپ کا پتّہ پھینکا ہے، لیکن اِس کے باوصف '' نیشنل الائنس'' اور'' جسٹس پارٹی'' میں سے کسی ایک کی کامیابی کے واضح امکانات کم کم ہیں۔ دونوں دھڑوں کے پلڑے یکساں ہیں ۔