عمران خان کی مقبولیت میں اتحادیوں کا کردار
عمران خان کے بے بنیاد اور آئے دن بدلتے بیانیوں کے توڑ میں اتحادی حکومت ناکام رہی ہے
سابق وزیر اعظم عمران خان کی ایک سال سے جاری انتخابی مہم، بیانیوں اور اعلانات سے ایسے لگ رہا ہے جیسے اقتدار اس سے قبل ان کو ملا ہی نہیں تھا اور پاکستان تحریک انصاف حکومت کی پونے چار سال کی کارکردگی میں گڈ گورننس کا کوئی وجود تھا نہ عوام کے مسائل حل کرنے کی کوئی صلاحیت تھی، بلکہ عمران خان صرف اپنے سیاسی مخالفین سے انتقام لینے، انھیں چور ڈاکو قرار دینے اور سب ہی کو گرفتار کرانے کے لیے وزیر اعظم بنے تھے۔
ملک کے معاشی معاملات، خارجہ پالیسی، دہشت گردی روکنے اور ملک میں بدامنی و مہنگائی و بے روزگاری روکنے کی ذمے داری وزیر اعظم کی تھی ہی نہیں۔
عوام کی بھلائی یا انھیں ریلیف دینے کا کام پی ٹی آئی کی حکومت کا تھا ہی نہیں، جب کہ وزراء کا کام بھی معاملات بگاڑنا تھا جو انھوں نے احسن طریقے سے نبھایا۔ سی پیک ختم کرانے اور جائیدادیں بڑھانے کے لیے سی پیک اتھارٹی کا سربراہ بنایا گیا تھا۔ ملکی معیشت کو تباہ کرنے اور ریکارڈ غیر ملکی قرضے لینے کے لیے وزیروں نے خوب کام کیا۔
وزراء کا کام وزیر اعظم کی خوشامد، الٹے سیدھے بیانات اور بے بنیاد دعوے کرنا تھا اور ان سب نے اپنی اپنی ذمے داریاں خوب نبھائیں اور عمران حکومت نے مہنگائی کو اتنے عروج پر پہنچایا کہ خود وزیر اعظم نے اعتراف کیا کہ ایسے حالات میں انتخابات ہوتے تو پی ٹی آئی بری شکست سے دوچار ہوتی اور ایک وزیر کے بقول مزید تباہی کے لیے عمران حکومت میں بارودی سرنگیں کامیابی سے بچھا دی گئی تھیں اور گزشتہ سال اپریل میں قاسم سوری کے فیصلے اور وزیر اعظم کے کہنے پر صدر مملکت نے اسمبلیاں توڑنے کا جو اعلان کیا تھا۔
اس پر عمل ہو جاتا اور نئے الیکشن ہو جاتے تو پی ٹی آئی نے بری طرح ہی ہارنا تھا۔عمران خان کے بقول انھیں پہلے ہی پتا چل گیا تھا کہ امریکا انھیں ہٹانا چاہتا ہے کیونکہ امریکی صدر نے انھیں فون تک کرنا گوارا نہیں کیا تھا جس سے عمران خان سمجھ گئے کہ امریکا انھیں ہٹانا چاہتا ہے اس لیے انھوں نے اپنے اقتدار ہی میں سائفر لہرایا تھا جس کا کوئی وجود تھا نہ امریکا کے نزدیک عمران خان اتنے اہم تھے کہ امریکا انھیں ہٹاتا کیونکہ وہ مخلوط حکومت کے کمزور وزیر اعظم تھے جنھیں اتحادی ملا کر اقتدار دلایا گیا تھا مگر وہ اتحادیوں کو بھی ساتھ لے کر نہیں چلے کیونکہ انھیں اپنے اتحادیوں کی ناراضگی کی فکر تھی نہ ان سے کیے گئے وعدوں کا پاس تھا۔
اس لیے اتحادی نہ بننے والے اختر مینگل پہلے ہی انھیں چھوڑ گئے تھے بعد میں تمام اتحادی عمران خان سے الگ ہوگئے اور عمران خان کی توقع کے عین خلاف اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار ہوگئی تو ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئینی طور پر کامیاب ہوگئی۔
انھوں نے اقتدار جاتا دیکھ کر دھمکی بھی دی تھی کہ مجھے ہٹایا تو زیادہ خطرناک ہو جاؤں گا اور انھوں نے اپنی منفی سیاست سے خود کو ملک و قوم کے لیے خطرناک ثابت بھی کردیا ہے۔ اقتدار سے ہٹانے کا الزام امریکا سے ہوتا ہوا اسٹیبلشمنٹ تک لایا گیا جس میں اپوزیشن رہنماؤں کو بھی شامل کیا گیا۔
امریکا بلاشبہ اپنے مفادات دیکھتا ہے اور اس کی پالیسی کے پاکستانی مخالف ہیں اس لیے امریکا پر عمران خان کا الزام کامیاب رہا اور وہ عوام کو یہ تاثر دینے میں کامیاب رہے کہ انھیں قبل از وقت ہٹانے کی سازش کی گئی حالانکہ یہ سازش نہیں عمران خان کی ذہنی اختراع تھی اور عوام ان کا دور بھول کر یہ یقین کر بیٹھے کہ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی نے اقتدار میں آ کر اپنے مقدمات ختم کرانے کے لیے اقتدار حاصل کیا ہے۔
اتحادی حکومت کو بھی نیب کے اختیارات کم کرنے، نیب کے مقدمات ختم اور کمزور کرنے کے لیے قانون سازی کرنے کی جلدی تھی جب کہ ایک سال گزر جانے کے بعد بھی وزیر اعظم شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی، رانا ثنا اللہ و دیگر پر اب بھی مقدمات چل اور عمران خان کے بنائے گئے تمام ملزمان حکومت میں ہوتے ہوئے بھی عدالتی سماعتوں پر عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں۔
ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ بنا کر، ملک میں مہنگائی کا نیا ریکارڈ قائم کرا کر اور سب سے اہم یہ کہ عمران خان کے بے بنیاد اور آئے دن بدلتے بیانیوں کے توڑ میں اتحادی حکومت ناکام رہی ہے۔ عوام کو اپوزیشن ویسے بھی اچھی لگتی ہے۔
پی ٹی آئی کے حامی طبقے کے مطابق عمران خان پر مقدمات کی بھرمار بھی عوام کو پسند نہیں آئی۔ عمران خان کے خلاف درج مقدمات میں حکومت نے عمران خان کو گرفتار نہیں کیا بس حکومت کا زور مقدمات کے اندراج پر رہا اور ریکارڈ توڑ مہنگائی، بے بنیاد دعوؤں نے عوام کو مزید مشتعل کر رکھا ہے۔
عمران خان جلد سے جلد الیکشن کرانے اور عوام اس خوش فہمی میں کہ نئے الیکشن سے مہنگائی ختم ہو جائے گی موجودہ حکومت سے جان چھڑانا چاہتے ہیں جب کہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ عوام کو عمران خان کی حکومتی کارکردگی سے زیادہ مہنگائی سے نفرت ہے جس کی ذمے دار بلاشبہ موجودہ حکومت ہے مگر حکومت کو عوام کی کوئی فکر نہیں ہے۔