اک طرفہ تماشہ ہے …

انتشار اور تصادم اس ملک کے لیے بہت ضرر رساں اور مہلک ثابت ہوسکتا ہے

mnoorani08@hotmail.com

پچھلے ایک ہفتے میں جو کچھ بھی ہوا، اس سے ایک جانب اس قوم کا نقصان تو بہت ہوا لیکن ساتھ ہی ساتھ غیر ملکی دشمنوں کو بھی مسرت اور شادمانی کا سنہری موقعہ مل گیا۔

عالمی قوتیں ایک عرصہ سے ہمارے سلامتی کے محافظ اداروں کو کمزور کرنے پر تلی ہوئی تھیں اُن کی یہ خواہش بھی ہم نے آج پوری کر دی۔ بحیثیت ایک قومی ادارہ ہمارا یہی شعبہ ابھی تک مستحکم تھا، باقی تمام شعبوں کو تو ہم نے کمزور کر دیا ہے۔ عسکری شعبہ صرف ایک ایسا شعبہ ہے جو متحد و منظم ہونے کی ساتھ ساتھ اتحاد و یگانت کی بہترین مثال تصور کیا جاتا ہے۔

اس کے خلاف ہمارے کچھ لوگوں نے دانستہ طور پر پے در پے حملے کر کے جس قسم کا تصور دیا ہے اس نے پوری قوم کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔یہ حملے کسی دہشت گرد یا غیر ملکی دشمنوں نے نہیں کیے بلکہ ہمارے اپنے لوگوں نے ہی کیے اور اُن حملوں کے وجہ بھی کیا تھی اگر اُن پر غور کیا جائے تو ان حملوں کے ماسٹر مائنڈوں کا ایجنڈہ بھی واضح ہو کر مکمل طور پر عیاں اوربے نقاب ہو جاتا ہے۔

نیب نے 60 ارب روپے کی کرپشن کے ایک الزام میں سابق وزیر اعظم کو طلب کر رکھا تھا مگر اُن کے مسلسل نہ آنے پر مجبوراً باقاعدہ وارنٹ کے ساتھ گرفتار کیا گیا تو اس شخص کے حامیوں اور ورکروں نے صرف دو گھنٹوں میں سارے ملک میں جلاؤ گھیراؤ شروع کر دیا۔ نیب پچھلے دور میں بھی ایسا ہی کیا کرتا تھا ۔ نوے نوے دنوں تک صرف الزام لگا کر اپنی کسٹڈی میں رکھ لیتا تھا۔

نیب قوانین کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے سامنے معاملہ نوے دنوں کے بعد ہی لایا جاسکتا تھا اور اس وقت ہماری عدلیہ کا رویہ بھی آج سے مختلف تھا۔ خان صاحب چاہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ پہلے کی طرح آج بھی اُن کی بھر پور حمایت کرے اور انھیں اگلے عام انتخابات میں جتوا کر دوبارہ برسر اقتدار لے آئے ، مگر اس کی جانب سے ایسے کسی اشارے اور عندیہ کے نہ آنے کی وجہ سے خان صاحب کا رویہ سخت ہوتا جا رہا ہے۔

خان صاحب آج اتنے پاور فل اور طاقتور ہو کر اُسی قوت کو آنکھیں دکھا رہے ہیں جس نے 2011 ء میں اُن کی پرورش کرکے انھیں مقبول ومعروف سیاسی شخصیت بنادیا ورنہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ 2011 ء سے پہلے وہ کیا کچھ تھے ، وہ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ اُن کی ذاتی کوششوں کا نتیجہ ہے یا یہ اُن کی کرشماتی شخصیت کے سبب ہے تو شاید وہ سخت غلط فہمی میں ہیں۔


1996 سے 2011 تک وہ عام سے سیاستدان تھے اور عوام انھیں دو سیٹوں سے بڑا سیاستدان ماننے کو تیار نہ تھے۔ انھیں تو احسان مند ہونا چاہیے جنھوں نے انھیں سیاسی ناکامیوں کے دلدل سے نکال کر وزیر اعظم کے اعلیٰ منصب پر فائز کروا دیا۔ وہ اب بھی یہی چاہتے ہیں کہ وہ قوتیں آج بھی اُن کی حمایت کریں ورنہ وہ اُسے چھٹی کا دودھ یاد دلا دیں گے۔

خان صاحب کو گرفتار کرکے حکومت یا نیب نے بظاہر لگتا ہے غلطی کی ہے۔ بلاوجہ سارے ملک کو انتشارکی آگ میں جھونک دیا گیا ہے ۔ خان صاحب کو دوبارہ ایک نئی طاقت دیکر کھڑا کر دیا گیا ہے۔

چند گھنٹوں میں ضمانتوں پر ضمانت ہو گئی ۔ حکومت اگر اب کوئی نیا مقدمہ دائر کرنے کا سوچ رہی ہے تو ایسا کرنے سے پہلے سوچ لے کہ اس کیس میں بھی ضمانت پہلے سے موجود ہے۔

اب بھلا ان حالات میں کون مقدمہ دائرکرے گا۔ عدل و انصاف فراہم کرنے میں ہمارا ریکارڈ پہلے بھی کوئی اتنا شاندار نہیں رہا ہے لیکن انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے مختلف اُصول اور طریقہ کار ساری دنیا میں صرف ہمارے یہاں ہی قائم ہیں۔

مولانا فضل الرحمن اور حکومت نے ملکر دھرنے کا پروگرام بنایا ہے ، ہماری نظر میں یہ بھی ایک غیر دانش مندانہ فیصلہ ہے۔ ایسا کرنے سے رویے ہرگز نہیں بدلیں گے ۔ حکومت اس سے پہلے جو کچھ پارلیمنٹ میں کررہی تھی وہ درست طریقہ تھا لیکن کسی عمارت پر چڑھائی کا منصوبہ بنانا درست اور صائب فیصلہ نہیں ہے۔

انتشار اور تصادم اس ملک کے لیے بہت ضرر رساں اور مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔ ملک کی معاشی صورتحال ابھی اس کی متحمل نہیں ہو سکتی ہے۔ ویسے بھی IMF کوئی معاہدہ کرنے سے ابھی تک گریزاں ہے اور ہم ڈیفالٹ کرجانے کے خطروں سے باہر نہیں نکل پا رہے ہیں۔ ایسے میں ملک میں انتشار پھیلا کے ہم جلتی آگ پر تیل ڈالنے کا کام کررہے ہونگے۔ اس کشیدہ صورتحال میں اہل دانش ، سمجھدار اور محب وطن طبقوں کو اب اپنی ذمے داری پوری کرنی چاہیے اور آگے بڑھ کر اس انتشار کی آگ کو بجھانا چاہیے۔

جماعت اسلامی تمام جماعتوں کو ایک میز پر بٹھا کر ملکی مفاد میں اتحاد ویگانگت اورہم آہنگی قائم کرنے کی جو کوششیں کررہی تھی وہ بھی نجانے کہاں غائب ہوگئیں۔ ساری قوم اب صرف اس نعرے کی حقیقی تصویر بنی ہوئی ہے کہ'' ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے۔'' یاد رکھیے جس قوم کی کوئی منزل نہ ہو اور وہ شخصیت پرستی میں اس قدر اندھی ہوجائے وہ قومیں پھر اپنا وجود بھی قائم نہیں رکھ پاتی ہیں۔
Load Next Story