کراچی کے سرکاری اسکولوں کا بُرا حال انرولمنٹ بھی کم ہوگئی
اسکول شماری کی یہ رپورٹ ابھی مخفی ہے اورمحکمہ اسکول ایجوکیشن کی جانب سے اسے تاحال جاری نہیں کیاگیا ہے
کراچی کے سرکاری اسکولوں کا بُرا حال ہے جب کہ انرولمنٹ بھی کم ہوگئی ہے۔
کراچی کے سرکاری اسکولوں میں طلبہ کی انرولمنٹ کم ہورہی ہے اور گزشتہ و حالیہ اسکول شماری کے تقابلی جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ اسکولوں سے 65ہزاربچے ڈراپ آئوٹ ہوگئے ہیں جبکہ non viable ناقابل استعمال اسکولوں کے بند کیے جانے اوراسے ریکارڈ سے خارج کرنے کے بعد کراچی میں 1914سرکاری اسکول رہ گئے ہیں جس میں سے 1749فعال ہیں اورکراچی کے تمام اضلاع کے سرکاری اسکولوں کی مجموعی انرولمنٹ 3لاکھ 95ہزار522ہے اورکل 1914سرکاری اسکولوں میں سے 657اسکول پینے کے پانی،542بجلی،380بیت الخلا، 1588 تجربہ گاہوں ،1710لائبریری اور1528کمپیوٹرلیب کی سہولیات سے محروم ہیں جبکہ 21اسکول شیلٹر لس یا چھتوں کے بغیر ہیں۔
اس بات کا انکشاف محکمہ اسکول ایجوکیشن کی جانب سے آخری بار سال 2021/22میں کرائی گئی اسکول شماری school censusاورگزشتہ اسکول شماری 2019کے تقابلی جائزے میں ہواہے تاہم اسکول شماری کی یہ رپورٹ ابھی مخفی ہے اورمحکمہ اسکول ایجوکیشن کی جانب سے اسے تاحال جاری نہیں کیاگیا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ اسکول شماری 2019 کے مطابق کراچی کے سرکاری اسکولوں کی گزشتہ انرولمنٹ 4لاکھ 59بتائی گئی تھی جومحکمہ اسکول ایجوکیشن کے ذیلی ادارے ریفارم سپورٹ یونٹ کی جاری کردہ رپورٹ میں بھی موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مہنگائی کی وجہ سے اسکولوں میں بچوں کا ڈراپ آؤٹ بڑھ گیا
علاوہ ازیں وزیرتعلیم سندھ کے قریبی ذرائع سے موصولہ اسکول شماری کی ہ2021/22کی حالیہ مخفی رکھی گئی رپورٹ کے مطابق کراچی کے سرکاری اسکولوں میں 395522کل انرولمنٹ میں سے 1لاکھ 86ہزار938بوائز جبکہ 2 لاکھ 8ہزار584گرلزہیں۔
رپورٹ کے مطابق کراچی کے سرکاری تعلیمی اداروں میں (students/class room ratio)یاطلبہ کلاس رومز تناسب 33،اسٹوڈینٹس/ٹیچر ریشو 27، اسٹوڈینٹ /اسکول ریشو207اورٹیچر/اسکول ریشو8ہے یعنی اوسطاًایک کلاس روم میں 33طلبہ ہوتے ہیں 27طلبہ کوپڑھانے کے لیے ایک استاد ہے اوسطاًہراسکول میں 207طلبہ اورہر اسکول میں 8اساتذہ ہیں اورکل 14855اساتذہ کراچی کے سرکاری اسکولوں میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
سب سے خراب اسکول /ٹیچرریشوضلع کیماڑی میں ہے جہاں اوسطاًہراسکول میں 5اساتذہ موجودہیں جبکہ اساتذہ کایہ تناسب ضلع جنوبی کے اسکولوں میں 14کی اوسط سے ہے اس طرح ٹیچر/اسٹوڈینٹ ریشوکے حوالے سے ضلع کیماڑی اورضلع غربی کا تناسب 36ہے جبکہ کراچی شرقی میں ٹیچر/اسٹوڈینٹ ریشو 21ہے جوبظاہرسب سے بہترہے
اس رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ بند اسکول ضلع ملیر میں ہیں جن کی تعداد90ہے جبکہ سب سے زیادہ فعال 525اسکول بھی اسی ضلع میں ہیںملیر کے سرکاری تعلیمی اداروں میں سے 302میں پینے کاپانی موجود ہے 313میں بجلی،420میں بیت الخلا،43میں سائنس لیبس جبکہ 204میں لائبریری ہیں
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں دو کروڑ 30 لاکھ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں، وزیر تعلیم
"ایکسپریس " نے جب کراچی کے سرکاری اسکولوں کی مذکورہ صورتحال پر سیکریٹری محکمہ اسکول ایجوکیشن غلام اکبر لغاری سے دریافت کیا تو انھوں نے مذکورہ صورتحال کو تسلیم کیا سیکریٹری ایجوکیشن کا کہنا تھا کہ "ہمارے بجٹ کا 85 فیصد حصہ محکمے کے تدریسی و غیر تدریسی ملازمین کی تنخواہوں میں خرچ ہوجاتا ہے باقی 16 فیصد میں مختلف پروجیکٹ کی گرانٹ بھی شامل ہوتی ہے۔
اسی محدود بجٹ میں ہم اسکولوں کو سہولیات دیتے ہیں جن اسکولوں کے بارے میں رپورٹ ہوتی ہے کہ وہاں صورتحال زیادہ ابتر ہے وہاں پہلے کام کراتے ہیں ہم پورے سندھ کے اسکولوں میں فنڈز کو مساوی طور پر تقسیم کرتے ہیں سیکریٹری محکمہ اسکول ایجوکیشن کا مزید کہنا تھا کہ اسکولوں کی اس صورتحال سے ہم آگاہ ہیں تاہم بجٹ کی کمی سے مشکلات ہیں۔
دوسری جانب اسکول شماری رپورٹ کے مطابق کراچی سینٹرل میں فعال 338سرکاری اسکولوں میں سے 285میں پینے کا پانی 300 میں بجلی،313میں بیت الخلا،82میں سائنس لیب اور60میں لائبریریزہیں، کراچی ایسٹ کے 169سرکاری اسکولوں میں سے 151میں پینے کا پانی، 155میں بجلی،157میں بیت الخلا،42میں سائنس لیبس اور23میں لائبریریز ہیں، کیماڑی کے 201فعال سرکاری اسکولوں میں سے 115میں پینے کا پانی، 155میں بجلی،169بیت الخلا،23میں لیبس اور17میں لائبریریزہیں۔
کورنگی کے 219 سرکاری اسکولوں میں 178میں پینے کا پانی، 195 میں بجلی،206میں بیت الخلا،69میں سائنس لیبس اور35میں لائبریریز ہیں، ضلع سائوتھ میں فعال 132سرکاری اسکولوں میں سے 126میں پینے کاپانی، 129میں بجلی،129میں بیت الخلا،51میں سائنس لیبس،36میں لائبریری موجود ہیں جبکہ ویسٹ کے 165 فعال سرکاری اسکولوں میں سے 100میں پینے کاپانی،125میں بجلی،140میں بیت الخلا،16میں سائنس لیبس جبکہ 7میں لائبریریز ہیں۔
واضح رہے کہ سب سے زیادہ 84686طلبہ ضلع وسطی کیسرکاری اسکولوں میں پڑھتے ہیں جبکہ سب سے کم 37348طلبہ ضلع غربی کے سرکاری اسکولوں میں جاتے ہیں کورنگی میں 74ہزار،ملیر میں 66983،جنوبی میں 46530،کیماڑی میں 39ہزاراورشرقی میں 46ہزارطلبہ سرکاری اسکولوں میں زیرتعلیم ہیں
سرکاری اسکولوں میں سہولیات کے فقدان کے بارے میں طلبہ کی رائے
کراچی کے سرکاری اسکولوں میں سہولیات کے فقدان کے حوالے سے جب طلبہ کے خیالات جاننے کی کوشش کی تو گورنمنٹ بوائز ابراہیم علی بھائی اسکول فیڈرل بی ایریا کے پانچویں جماعت کے طالب علم علی حسن کا کہنا تھا کہ ان کے اسکول میں کھیلنے کے لیے پلے گراونڈ نہیں ہے پلے گراونڈ میں عمارتی ملبہ اور کچرا پڑا ہوا ہے ہم کہاں کھیلیں۔
اسی جماعت کے ایک طالب کامران کا کہنا تھا کہ ہم ٹوٹی ہوئی ڈسک پر بیٹھتے ہیں آج یہیں بیٹھ کر امتحان بھی دے رہے ہیں ایک اور طالب علم نسیم کا کہنا تھا کہ اسکول کے بیت الخلاء اس قابل نہیں کہ ہم وہاں جائیں واش روم کے دروازے ہیں نہیں اور اگر ہیں تو ٹوٹے ہوئے ہیں جبکہ واش روم میں اس قدر گندگی ہے کہ انھیں استعمال نہیں کیا جاسکتا"
ڈراپ آئوٹ پر اسکول پرنسپل کی رائے
علاوہ ازیں ملیر کے ایک سرکاری اسکول کے صدر معلم سے جب اسکولوں میں طلبہ ڈراپ آئوٹ کے ریکارڈ کے حوالے سے "ایکسپریس" نے دریافت کیا تو نام ظاہر نہ کرنے کہ شرط پر انھوں نے بتایا کہ ہمارے پاس اسکول چھوڑنے والے صرف ان طلبہ کا ریکارڈ ہوتا ہے جو ہم سے "ٹی سی" ٹرانسفر سرٹیفیکیٹ کا تقاضہ کرتے ہیں تاہم بہت سے طلبہ ایسے بھی ہوتے ہیں جو دوران تعلیم ہی اسکول چھوڑ جاتے ہیں اور ٹی سی بھی نہیں مانگتے ایسے طلبہ کا ریکارڈ نہیں رہتا۔
ایک سوال پر صدر معلم کا کہنا تھا کہ اس سال ایسے کئی طلبہ اسکول چھوڑ گئے جو سیلابی صورتحال کے سبب اندرون سندھ کے شہروں سے کراچی آئے تھے تاہم اب ان کے والدین کا کہنا ہے کہ کراچی کی مہنگائی کے سبب وہ یہاں مزید نہیں رہ سکتے لہذا اپنے خاندانوں کے ساتھ واپس جارہے ہیں۔
کراچی کے سرکاری اسکولوں میں طلبہ کی انرولمنٹ کم ہورہی ہے اور گزشتہ و حالیہ اسکول شماری کے تقابلی جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ اسکولوں سے 65ہزاربچے ڈراپ آئوٹ ہوگئے ہیں جبکہ non viable ناقابل استعمال اسکولوں کے بند کیے جانے اوراسے ریکارڈ سے خارج کرنے کے بعد کراچی میں 1914سرکاری اسکول رہ گئے ہیں جس میں سے 1749فعال ہیں اورکراچی کے تمام اضلاع کے سرکاری اسکولوں کی مجموعی انرولمنٹ 3لاکھ 95ہزار522ہے اورکل 1914سرکاری اسکولوں میں سے 657اسکول پینے کے پانی،542بجلی،380بیت الخلا، 1588 تجربہ گاہوں ،1710لائبریری اور1528کمپیوٹرلیب کی سہولیات سے محروم ہیں جبکہ 21اسکول شیلٹر لس یا چھتوں کے بغیر ہیں۔
اس بات کا انکشاف محکمہ اسکول ایجوکیشن کی جانب سے آخری بار سال 2021/22میں کرائی گئی اسکول شماری school censusاورگزشتہ اسکول شماری 2019کے تقابلی جائزے میں ہواہے تاہم اسکول شماری کی یہ رپورٹ ابھی مخفی ہے اورمحکمہ اسکول ایجوکیشن کی جانب سے اسے تاحال جاری نہیں کیاگیا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ اسکول شماری 2019 کے مطابق کراچی کے سرکاری اسکولوں کی گزشتہ انرولمنٹ 4لاکھ 59بتائی گئی تھی جومحکمہ اسکول ایجوکیشن کے ذیلی ادارے ریفارم سپورٹ یونٹ کی جاری کردہ رپورٹ میں بھی موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مہنگائی کی وجہ سے اسکولوں میں بچوں کا ڈراپ آؤٹ بڑھ گیا
علاوہ ازیں وزیرتعلیم سندھ کے قریبی ذرائع سے موصولہ اسکول شماری کی ہ2021/22کی حالیہ مخفی رکھی گئی رپورٹ کے مطابق کراچی کے سرکاری اسکولوں میں 395522کل انرولمنٹ میں سے 1لاکھ 86ہزار938بوائز جبکہ 2 لاکھ 8ہزار584گرلزہیں۔
رپورٹ کے مطابق کراچی کے سرکاری تعلیمی اداروں میں (students/class room ratio)یاطلبہ کلاس رومز تناسب 33،اسٹوڈینٹس/ٹیچر ریشو 27، اسٹوڈینٹ /اسکول ریشو207اورٹیچر/اسکول ریشو8ہے یعنی اوسطاًایک کلاس روم میں 33طلبہ ہوتے ہیں 27طلبہ کوپڑھانے کے لیے ایک استاد ہے اوسطاًہراسکول میں 207طلبہ اورہر اسکول میں 8اساتذہ ہیں اورکل 14855اساتذہ کراچی کے سرکاری اسکولوں میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
سب سے خراب اسکول /ٹیچرریشوضلع کیماڑی میں ہے جہاں اوسطاًہراسکول میں 5اساتذہ موجودہیں جبکہ اساتذہ کایہ تناسب ضلع جنوبی کے اسکولوں میں 14کی اوسط سے ہے اس طرح ٹیچر/اسٹوڈینٹ ریشوکے حوالے سے ضلع کیماڑی اورضلع غربی کا تناسب 36ہے جبکہ کراچی شرقی میں ٹیچر/اسٹوڈینٹ ریشو 21ہے جوبظاہرسب سے بہترہے
اس رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ بند اسکول ضلع ملیر میں ہیں جن کی تعداد90ہے جبکہ سب سے زیادہ فعال 525اسکول بھی اسی ضلع میں ہیںملیر کے سرکاری تعلیمی اداروں میں سے 302میں پینے کاپانی موجود ہے 313میں بجلی،420میں بیت الخلا،43میں سائنس لیبس جبکہ 204میں لائبریری ہیں
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں دو کروڑ 30 لاکھ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں، وزیر تعلیم
"ایکسپریس " نے جب کراچی کے سرکاری اسکولوں کی مذکورہ صورتحال پر سیکریٹری محکمہ اسکول ایجوکیشن غلام اکبر لغاری سے دریافت کیا تو انھوں نے مذکورہ صورتحال کو تسلیم کیا سیکریٹری ایجوکیشن کا کہنا تھا کہ "ہمارے بجٹ کا 85 فیصد حصہ محکمے کے تدریسی و غیر تدریسی ملازمین کی تنخواہوں میں خرچ ہوجاتا ہے باقی 16 فیصد میں مختلف پروجیکٹ کی گرانٹ بھی شامل ہوتی ہے۔
اسی محدود بجٹ میں ہم اسکولوں کو سہولیات دیتے ہیں جن اسکولوں کے بارے میں رپورٹ ہوتی ہے کہ وہاں صورتحال زیادہ ابتر ہے وہاں پہلے کام کراتے ہیں ہم پورے سندھ کے اسکولوں میں فنڈز کو مساوی طور پر تقسیم کرتے ہیں سیکریٹری محکمہ اسکول ایجوکیشن کا مزید کہنا تھا کہ اسکولوں کی اس صورتحال سے ہم آگاہ ہیں تاہم بجٹ کی کمی سے مشکلات ہیں۔
دوسری جانب اسکول شماری رپورٹ کے مطابق کراچی سینٹرل میں فعال 338سرکاری اسکولوں میں سے 285میں پینے کا پانی 300 میں بجلی،313میں بیت الخلا،82میں سائنس لیب اور60میں لائبریریزہیں، کراچی ایسٹ کے 169سرکاری اسکولوں میں سے 151میں پینے کا پانی، 155میں بجلی،157میں بیت الخلا،42میں سائنس لیبس اور23میں لائبریریز ہیں، کیماڑی کے 201فعال سرکاری اسکولوں میں سے 115میں پینے کا پانی، 155میں بجلی،169بیت الخلا،23میں لیبس اور17میں لائبریریزہیں۔
کورنگی کے 219 سرکاری اسکولوں میں 178میں پینے کا پانی، 195 میں بجلی،206میں بیت الخلا،69میں سائنس لیبس اور35میں لائبریریز ہیں، ضلع سائوتھ میں فعال 132سرکاری اسکولوں میں سے 126میں پینے کاپانی، 129میں بجلی،129میں بیت الخلا،51میں سائنس لیبس،36میں لائبریری موجود ہیں جبکہ ویسٹ کے 165 فعال سرکاری اسکولوں میں سے 100میں پینے کاپانی،125میں بجلی،140میں بیت الخلا،16میں سائنس لیبس جبکہ 7میں لائبریریز ہیں۔
واضح رہے کہ سب سے زیادہ 84686طلبہ ضلع وسطی کیسرکاری اسکولوں میں پڑھتے ہیں جبکہ سب سے کم 37348طلبہ ضلع غربی کے سرکاری اسکولوں میں جاتے ہیں کورنگی میں 74ہزار،ملیر میں 66983،جنوبی میں 46530،کیماڑی میں 39ہزاراورشرقی میں 46ہزارطلبہ سرکاری اسکولوں میں زیرتعلیم ہیں
سرکاری اسکولوں میں سہولیات کے فقدان کے بارے میں طلبہ کی رائے
کراچی کے سرکاری اسکولوں میں سہولیات کے فقدان کے حوالے سے جب طلبہ کے خیالات جاننے کی کوشش کی تو گورنمنٹ بوائز ابراہیم علی بھائی اسکول فیڈرل بی ایریا کے پانچویں جماعت کے طالب علم علی حسن کا کہنا تھا کہ ان کے اسکول میں کھیلنے کے لیے پلے گراونڈ نہیں ہے پلے گراونڈ میں عمارتی ملبہ اور کچرا پڑا ہوا ہے ہم کہاں کھیلیں۔
اسی جماعت کے ایک طالب کامران کا کہنا تھا کہ ہم ٹوٹی ہوئی ڈسک پر بیٹھتے ہیں آج یہیں بیٹھ کر امتحان بھی دے رہے ہیں ایک اور طالب علم نسیم کا کہنا تھا کہ اسکول کے بیت الخلاء اس قابل نہیں کہ ہم وہاں جائیں واش روم کے دروازے ہیں نہیں اور اگر ہیں تو ٹوٹے ہوئے ہیں جبکہ واش روم میں اس قدر گندگی ہے کہ انھیں استعمال نہیں کیا جاسکتا"
ڈراپ آئوٹ پر اسکول پرنسپل کی رائے
علاوہ ازیں ملیر کے ایک سرکاری اسکول کے صدر معلم سے جب اسکولوں میں طلبہ ڈراپ آئوٹ کے ریکارڈ کے حوالے سے "ایکسپریس" نے دریافت کیا تو نام ظاہر نہ کرنے کہ شرط پر انھوں نے بتایا کہ ہمارے پاس اسکول چھوڑنے والے صرف ان طلبہ کا ریکارڈ ہوتا ہے جو ہم سے "ٹی سی" ٹرانسفر سرٹیفیکیٹ کا تقاضہ کرتے ہیں تاہم بہت سے طلبہ ایسے بھی ہوتے ہیں جو دوران تعلیم ہی اسکول چھوڑ جاتے ہیں اور ٹی سی بھی نہیں مانگتے ایسے طلبہ کا ریکارڈ نہیں رہتا۔
ایک سوال پر صدر معلم کا کہنا تھا کہ اس سال ایسے کئی طلبہ اسکول چھوڑ گئے جو سیلابی صورتحال کے سبب اندرون سندھ کے شہروں سے کراچی آئے تھے تاہم اب ان کے والدین کا کہنا ہے کہ کراچی کی مہنگائی کے سبب وہ یہاں مزید نہیں رہ سکتے لہذا اپنے خاندانوں کے ساتھ واپس جارہے ہیں۔