آوازہ امریکی مفادات کا محافظ

سعودی چین دوستی اور اس میں چین کے کردار کا عمومی طور پر خیر مقدم کیا گیا

آوازہ ؛ ڈاکٹر فاروق عادل؛ روزمانہ ایکسپریس

کیا پاکستان میں قانون اور آئین باہم ٹکرا چکے ہیں یا اس بریک ڈان کا سبب کچھ اور بھی ہے؟ سوال ایک ہے اور مفروضے بے شمار لیکن سچ یہ ہے کہ نہ بات سمجھ میں آ رہی ہے اور نہ جھگڑا ختم ہونے میں آ رہا ہے۔ اس اندھیرے میں روشنی کہاں سے ملے؟ ہمارے دائیں بائیں دکھائی دینے والے سب کردار تو الجھے ہوئے ہیں اور اس قدر مصروف ہیں کہ لگتا ہے کہ وہ خود ہی سے بے خبر ہیں۔ پھر یہ الجھن کیسے سلجھے؟ بزرگ کہتے ہیں کہ جب ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے اور کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو ٹھہر جائیے اور لحظہ سانس لے کر بات کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔

چند ہفتے قبل مشرق وسطی میں چین کے تعلق سے جو ڈرامائی تبدیلی رونما ہوئی، اس میں ہمارے لیے اطمینان کے بہت سے پہلو تھے۔ ہمارے پہلو میں موجود ایران اور عزیز از جان سعودی عرب کے درمیان دہائیوں پرانے اختلافات ختم ہو جائیں اور وہ باہم شہر و شکر دکھائی دیں تو پاکستان سے زیادہ خوش اور کون ہو گا لیکن کیا پڑوس سے آنے والے ٹھنڈی ہوا کے اس جھونکے میں ہی ہمارے لیے کچھ چنگاری پوشیدہ ہے؟ یہ سوال اتنا سیدھا نہیں۔

چین کے تعاون کے ساتھ ایران سعودی دوستی دو طرح کے پہلو رکھتی ہے۔ اول، خطے میں ترقی اور خوش حالی کی نوید اور دوم، ایک عالمی کشمکش کے اثرات جس کے تحت ہماری داخلی سیاست تہہ و بالا ہو جائے جس کے اثرات ہمارے سامنے ہیں۔

سعودی چین دوستی اور اس میں چین کے کردار کا عمومی طور پر خیر مقدم کیا گیا۔ ایسا ہونا ہی چاہیے تھا کیوں کہ اس کا مطلب یہ تھا کہ باہم دست و گریباں دنیا میں دانش مندی جگہ پا رہی ہے اور ایک دوسرے کے لیے گنجائش پیدا کر کے آگے بڑھنے کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں سعودی ایران تعلقات کی بحالی اور اس میں چین کا کردار سامنے آیا تو اس ایک ہی مطلب تھا کہ دنیا سرد جنگ کے زمانے سے نکل آئی ہے اور اب ایک نئے دور کا آغاز ہو تا ہے۔

یہ نیا دور کیسا ہو گا اور کیا نتائج لائے گا؟ اسے سمجھنے کے لیے ذہن میں پہلے سے موجود تصورات ایک کچھ دیر کے لیے محو کر کے نئے حالات کو سمجھنا چاہیے۔ اس نقطۂ نظر کے مطابق نئے حالات یہ ہیں کہ ماضی کی تزویراتی گروہ بندی کو بھول کر ترقی اور خوش حالی کے لیے آگے بڑھئے۔ یہاں پھر ایک اور سوال کہ آگے بڑھنے کا مطلب کیا ہے؟


آگے بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کرہ ارض کی بہت سی اہم طاقتوں نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ مستقبل ایشیا کا ہے۔ یہ وہی ایشیا ہے جس کے قلب سے اقتصادی راہ داری گزرے گی جوایک خطہ ایک شاہراہ ( ون بیلٹ ون روڈ) سے منسلک کر کے پوری دنیا کو اس سے منسلک کرنے کا خواب دیکھا گیا ہے یا دیکھا جا رہا ہے۔ دنیا کو اس راہ پر گامزن کرنے کا ایک مطلب یہ سمجھا جا رہا تھا کہ اس کے ذریعے وہ طاقتیں جو دنیا کی بیشتر دولت پر قابض ہیں، ان سے اپنا وصول کر کے اپنے لوگوں کی غربت کا خاتمہ کیا جائے۔

اس قسم کی حکمت عملی ظاہر ہے کہ تصادم اور انتشار کو جنم دیتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 2017 اور 2018 میں اقتدار سے محرومی کے بعد بعض غیر ملکی حلقے سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھ کر مسلم لیگی قیادت، خاص طور پر میاں محمد نواز شریف کو طعنے دیا کرتے تھے کہ اور بیٹھو اپنے دوستوں کی گود میں۔ اگر بعض قوتوں کا دکھ کا یہ واقعہ حقیقت تھا تو اس کا مطلب یہی تھا کہ پانچ سات برسوں کے الٹ پھیر کے بعد حالات کا دھارابدلا ہے اور اب اس دکھ کا مداوا ہو چکا ہے۔ عالمی سیاست اور خاص طور پر مفادات کے کھیل میں اسی طرح ہوتا ہے اور کل کے دشمن آج کے دوست ہو سکتے ہیں۔ مشرق وسطی میں آنے والی تبدیلی بظاہر اسی کا شاخسانہ دکھائی دیتی تھی۔

اس کاسبب یہ ہے کہ جب اتنے بڑے پیمانے پر سیاسی اور تزویراتی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں تو اس سے پہلے متحارب فریقوں اور ناراض ہمسایوں کو بھی اعتماد میں لے لیا جاتا ہے اور مفادات کا معاملہ اس طرح سلجھایا جاتا ہے کہ عام طور پر کسی کو کوئی شکایت نہیں رہتی۔ مشرق وسطیٰ میں رونما ہونے والی اس تبدیلی کو اسی تناظر میں دیکھا جا رہا تھا لیکن اس تبدیلی کے حقیقت بنتے ہی پاکستانی سیاست میں ایک دم بڑھ جانے والی کشیدگی ان تصورات اور مفروضوں کی تائید نہیں کرتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی بہت کچھ طے نہیں ہوا۔

چوں کہ ابھی۔ ہے کچھ طے نہیں ہوا، اسی لیے پاکستان کو صرف سیاسی اعتبار سے میدان جنگ نہیں بنا دیا گیا بلکہ اداروں کو بھی ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کر دیا گیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کو بھی خطرے میں ڈال دیا گیا ہے۔ اس کا ایک اور مطلب یہ ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف امریکی حکومت کا نشانہ بن کر اقتدار سے رخصت نہیں ہوئی بلکہ یہ سارا ڈرامہ امریکا کی ملی بھگت سے ہوا تاکہ امریکی مفادات کا تحفظ کیا جاسکے۔

اس تمہید کے بعد اب یہ کہنے میں کوئی ہرج نہیں ہے کہ موجودہ قومی اور علاقائی صورت حال میں عمران خان واحد سیاسی شخصیت ہیں جو یہاں امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ 2018 میں بھی انھوں نے یہی خدمت انجام دی، اب بھی وہ یہی کام کر رہے ہیں۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ ماضی میں ریاستی قوتیں ان کی پشت ٹا کھڑی ہوئی تھیں۔ ان سے یہ غلطی سرزد ہوئی لیکن بعد میں انھوں سے اسے تسلیم کیا۔ اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس غلطی کا احساس ادارہ جاتی سطح پر ہونے کے بعد سجدہ سہو کر لیا گیا لیکن اس کے باوجود بعض ایکٹر اپنے مفادات یا کسی مجبوری کی وجہ سے اپنے تعصبات پر راسخ ہیں اور پرانی دھڑے بندی چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہیں جس کی وجہ سے ملک آئینی بریک ڈان کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس بحران کاواحد حل یہ ہے کہ تمام فریق فروعی مطالبات اور بے جا ضد ختم کر کے آئین کے سامنے سر جھکا دیں۔ ایسا نہیں ہو گا تو پارلیمان عوامی قوت کے بل بوتے پر قومی مفادات کا تحفظ کرے گی اور باغیوں کو کیفر کردار تک پہنچائے گی۔
Load Next Story