انسانی سرمائے کی ترقی

پاکستان میں نوجوان ورک فورس کو اگر درست طریقے سے استعمال کیا جائے تو ترقی کی رفتار خاصی تیز ہو سکتی ہے

پاکستان میں نوجوان ورک فورس کو اگر درست طریقے سے استعمال کیا جائے تو ترقی کی رفتار خاصی تیز ہو سکتی ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں سیاسی اور معاشی بحران کس طرح عوام خصوصاً نوجوانوں پر اثر انداز ہورہا ہے، اس کی ایک جھلک اس اخباری خبر میں نظر آتی ہے۔

خبر میں بتایا گیا ہے کہ ورلڈ بینک کے زیر اہتمام تیار کی گئی ایک تازہ ترین رپورٹ میں پاکستان میں افرادی قوت کی حالت زار پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور فوری اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ خبر میں مزید بتایا گیا ہے کہ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں انسانی سرمائے کی حالت ہیومن کیپیٹل انڈیکس میں جنوبی ایشیائی اوسط 0.48 سے بھی کم ہے۔

رپورٹ میں خبر دار کیا گیا ہے ، اگر انسانی سرمائے کی حالت زار بہتر نہ بنائی گئی اور ہیومن کیپٹل کی گروتھ موجودہ شرح سے ہی جاری رہی تو پاکستان 2047 تک یعنی اگلے پچیس برس میں اپنی جی ڈی پی میں محض 18 فیصد تک ہی اضافہ کر سکے گا۔ پاکستان میں بچوں کی ابتدائی نشوونما کے اعدادوشمار بھی انتہائی تشویش ناک ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میںصرف 40 سے 59 فیصد بچے اپنے والدین کی رہنمائی میں ترقی کی درست راہ پر گامزن ہیں جب کہ درمیانی آمدنی والے ممالک میں یہ شرح75 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر کے 40 فی صد بچوں میں دل اور دیگر امراض کی وجہ سے اسٹنٹ ڈالنے پڑتے ہیں، جب کہ 18 فی صد بچے ضایع ہوجاتے ہیں یا کرادیے جاتے ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اس وقت اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد 20.3 ملین ہے۔ گزشتہ برس آنے والے سیلاب اور وبائی امراض سے بھی انسانی سرمائے کا ضیاع ہوا ہے۔ رپورٹ میں روشنی ڈالی گئی کہ پاکستان میں خواتین لیبر فورس کی شرکت کل لیبر فورس کے صرف 20 فیصد پر مشتمل ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں انسانی سرمائے کی حالت میں فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے پاکستان میں بڑے پیمانے پر سیلاب کی وجہ سے 80 لاکھ لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا۔

پاکستان میں اقتدار کے اسٹیک ہولڈرز کو اس رپورٹ کے اعدادوشمار کا اول تو پتہ ہی نہیں ہوگا، اگر پتہ ہوگا بھی انھیں اس پر کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ملک کے فہمیدہ حلقوں کے لیے بھی یہ اعدادوشمار حیران کردینے والے نہیں ہیں، اب خواص و عوام کا مائنڈ سیٹ ہی یہ ہے کہ پاکستان ترقی میں آگے نہیں بڑھ سکتا۔

اگر پچھلے پانچ برس سے جاری سیاسی رسہ کشی نے معیشت کے کس بل نکال دیے ہیں۔ریاست کے وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھانے والا طبقہ ہی ریاست کو نقصان پہنچانے پر تل گیا ہے۔اب سیاسی اور معاشی بحران سنگین تر ہوچکا ہے۔ایسے میں انسانی سرمائے کی ترقی پر توجہ کون دے گا۔

پاکستان میں ابھی تو سب سے اہم معاشی کام آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کرنا ہے ۔ گزشتہ روز کی ایک خبر میں اس حوالے سے بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف فنڈز کے حصول میں پاکستان کی حمایت جاری رکھے گا۔آئی ایم ایف کی ریذیڈنٹ نمایندہ ایسٹر پیریز نے اتوار کو کہا کہ نویں جائزے کے لیے ضروری بیرونی فنانسنگ میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔

چند دن قبل ایک خبر میں کہا گیا تھا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو 30 جون کی مدت کے بعد کی مالی ضروریات پورا کرنے کے لیے 8 ارب ڈالر کا بندوبست کرنے کاکہا ہے۔اس سے یہ تاثر پیدا ہوا جیسے کوئی نئی شرط عائد ہوئی ہے لیکن وزارت خزانہ کے اندرونی کاغذات سے پتہ چلتا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان سے 2 ارب ڈالر کا بندوبست کرنے کو کہا ہے۔

میڈیا کی خبر کے مطابق وزارت خزانہ کے ان کاغذات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 12 اپریل کو ہونے والی میٹنگ میں 2 ارب ڈالر جمع کرنے کا معاملہ اٹھایا گیا تھا تاہم آئی ایم ایف کے نمایندے کے بیان سے پتہ چلتا ہے کہ 2 ارب ڈالر کی اس اضافی رقم کا مطالبہ ۔


ادھرسعودی عرب نے پاکستان کو 2 ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔متحدہ عرب امارات نے تازہ قرضوں کی مد میں ملک کو ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔

آئی ایم ایف کے نمایندے نے اتوار کو کہا کہ آئی ایم ایف اپنے شراکت داروں کی طرف سے مناسب مالی اعانت حاصل کرنے کے لیے پاکستان کی بہترین ممکنہ مدد جاری رکھے گا۔ 9ویں جائزے کے دوران بات چیت کے دوران کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاملات خوش اسلوبی سے طے پاجائیں گے ۔ اب بھی پاکستان میں سیاسی استحکام پیدا ہو جاتا ہے تو معیشت کے اشاریے بہتری کی جانب شروع ہو جائیں گے۔

پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ انسانی سرمائے کی ترقی اور اس کا درست استعمال بھی اسی وقت ممکن ہے جب سیاسی استحکام ہو تاکہ سرکاری مشینری پوری توجہ اور سنجیدگی کے ساتھ اپنی قانونی ذمے داریاں ادا کرے۔ معیشت کی ترقی کا دارومدار حکومتی اداروں کی کارکردگی اور سیاسی استحکام کے ساتھ وابستہ ہے۔ جس ملک میں سیاسی عدم استحکام، گھیراؤ جلاؤ، انتشار اور ادارہ جاتی کھینچاتانی ہو گی، وہاں معیشت کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔

ملک میں مہنگائی اپنے عروج پر پہنچی ہوئی ہے۔ پاکستان کو ایک درآمدی منڈی میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں پام اورسویا بین آئل کی درآمد میں5 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ پاکستان بیورو برائے شماریات کے اعدادوشمارکے مطابق جولائی تا مارچ تک پام آئل کی درآمد کا حجم 2.62ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا ہے جوگزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 5 فیصد زیادہ ہے۔

اسٹیٹ بینک کے مطابق یورپ کے ممالک کے ساتھ پاکستان کی تجارت کے حجم میں جاری مالی سال کے دوران نمایاں اضافہ ریکارڈکیا گیا، رواں مالی سال کے پہلے9 ماہ میں جرمنی، اٹلی،ا سپین اور یورپ کے دیگرممالک کو پاکستانی برآمدات میں سالانہ بنیادوں پر15 فیصد اضافہ جب کہ ان ممالک سے درآمدات میں 49فیصدکی کمی ریکارڈکی گئی۔

اسی طرح ملک میں کاروں کی فروخت میں رواں مالی سال کے پہلے 10 ماہ میں سالانہ بنیادوں پر 54 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ جولائی سے اپریل تک کی مدت میں ملک میں 88 ہزار 620 کاروں کی فروخت ریکارڈ کی گئی جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلہ میں 54 فیصد کم ہے۔

گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 1 لاکھ 91 ہزار238 کاروں کی فروخت ریکارڈ کی گئی تھی۔ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی فروخت میں بھی28فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ۔ ٹریکٹرز کی فروخت میں 10ماہ کے دوران 47فیصد کمی آئی۔ ملک میں یوریا اور ڈی اے پی کی کھپت میں جاری کیلنڈر سال کے پہلے 4ماہ میں سالانہ بنیادوں پر کمی ریکارڈکی گئی ۔

پاکستان میں زرعی شعبے کی زبوں حالی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ٹریکٹرز کی فروخت میں کمی سے ظاہر ہوتا ہے کہ درمیانے درجے کے زمیندار بھی اپنے مالی معاملات کو ہینڈل نہیں کر پا رہے۔ بہرحال حکومت نے ڈالر کی ترسیل کو مستحکم رکھنے کے لیے جو درآمدی پالیسی بنائی ہے، اس کے اثرات خاصے مثبت ہیں۔ اس پالیسی میں مزید اصلاحات کی جائیں تو خاصا زرمبادلہ بچ سکتا ہے۔

پاکستان میں کاسمیٹکس، لیکوڈ دودھ، دہی، پنیر، مکھن، شہد، جیم، کیچپ، گولیاں ٹافیاں، چاکلیٹ حتیٰ کہ مشروبات تک درآمد کیے جاتے ہیں۔ یہ ایسی درآمدات ہیں کہ جن پر پابندی بھی عائد کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ یہ امراء کے چونچلے ہیں، اس سے عام آدمی کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی طرح بلیوں اور کتوں وغیرہ کی خوراک بھی بیرون ملک سے درآمد کی جاتی ہیں۔ یہ بھی امراء کے چونچلے ہیں۔

اگر درآمدی پالیسی کو ملکی معیشت کی ترقی کے اصول پر تیار کیا جائے تو پاکستان میں ان اشیاء کی کوئی کمی نہیں ہے۔ پاکستان کی معیشت کو اگر ترقی کے راستے پر ڈالنا ہے تو پھر درآمدی پالیسی، تجارتی پالیسی اور زرعی پالیسی ملکی مفادات اور ضروریات کو مدنظر رکھ کر بنائی جائے۔

پاکستان میں نوجوان ورک فورس کو اگر درست طریقے سے استعمال کیا جائے تو ترقی کی رفتار خاصی تیز ہو سکتی ہے۔ پاکستان پر آبادی کا بوجھ یقینا بہت زیادہ ہے لیکن اگر نوجوان طبقے کی طرف توجہ دی جائے، انھیں ہنرمند بنایا جائے، لیبر فورس کی کارکردگی اور صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے انھیں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے، مثلاً تعمیراتی صنعت میں یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کو بھی مشینی تربیت دی جائے، ٹھیکیداروں کو پابند کیاجائے کہ وہ مزدوروں اور مستریوں کو مشینی تربیت دیں۔ اس سے ایک تو ان کی جسمانی طاقت برقرار رہے گی اور انھیں کام کرنے میں آسانی ہو گی۔ اس طریقے سے لیبر فورس کی کارکردگی اور صلاحیت میں بے پناہ ہو جائے گا۔
Load Next Story