خرگوش اور کچھوے کی کہانی
ہمیں ربِ کریم نے قدرتی وسائل کا خزانہ عطا کیا ہے لیکن ہم اُس سے استفادہ کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں نہیں مار رہے
پاکستان کیوں اور کیسے معرضِ وجود میں آیا تھا اور اِس کی منزل کیا ہے؟ یہ سوال ہر پاکستانی کے ذہن میں گردش کرتا رہتا ہے۔ آخر کوئی بھی چیز بلا وجہ کیوں اور کس مقصد کے لیے ہوتی ہے ؟
پاکستان کا قیام بھی ایک سوچ کی پیداوار ہے۔ جواب یہ ہے کہ غیر منقسم ہندوستان میں بہت سی قومیں رہا کرتی تھیں جس میں ہندو، مسلمان، سِکھ اور عیسائی شامل ہیں۔ برصغیر میں مسلمانوں کی حکومت تھی۔ اِس طویل دور کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ حکمراں کی آنکھوں میں کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا گیا۔
صرف یہی نہیں بلکہ اِس پورے عرصہ میں ہندوؤں کو ترجیح دی گئی جس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ شہنشاہ کے نو رتنوں میں بیر بَل کو وزیرِ اعظم کا درجہ حاصل تھا۔ حد تو یہ ہے شہنشاہ اورنگزیب جیسے کٹر مسلمان حکمراں کی کابینہ میں ٹوڈر مَل کو وزیرِ مالیات کا درجہ حاصل تھا۔
یہ تھی مسلم حکمرانوں کی مختصر کہانی۔ پھر جب ہندوستان آزاد ہوا تو انتہا پسند ہندوؤں نے ایک جماعت کی بنیاد رکھی جس کا مقصد مسلمانوں پر تشدد کرکے انھیں بھارت چھوڑ کر جانے پر مجبور کرنا تھا۔ ایک وقت وہ بھی تھا کہ جب پاکستان کی معیشت تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی اور جس پر سب لوگ حیران تھے۔ یہ برق رفتار ترقی 1950 سے 1960 تک جاری رہی۔
یہ سانپ سیڑھی کا کھیل تھا۔ اِس کے بعد زوال کا دور شروع ہوا اور سست رفتاری نے وطنِ عزیز کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ یہ سلسلہ 1980کی دہائی تک چلتا رہا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ زوال پذیری کا یہ دور رُکنے کے بجائے پلٹ کر کیوں نہیں آیا ، اگر غور کیا جائے تو اِس زوال کے اسباب واضح ہوجائیں گے جس میں سیاستدان ، سیاسی جماعتیں، اسٹیبلشمنٹ، مارشل لا اور بیرونی دباؤ کا بڑھنا ہے۔ افسوس کہ اِس طرف کسی نے بھی کوئی توجہ ہی نہیں دی اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ معیشت سنبھلنے کے بجائے بگڑتی ہی چلی گئی۔
آج وطنِ عزیز کا حال جو ہم دیکھ رہے ہیں اِسی کا شاخسانہ ہے۔ اِس کے لیے کسی ایک حکومت کو ذمے دار ٹھہرانا سراسر زیادتی اور بے انصافی ہوگی۔ بقول مصطفیٰ زیدی :
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
اِس بد ترین گناہ میں سب کے سب شامل ہیں۔ مفاد پرستی اور وطنِ عزیز کی قسمت سے کھیلنا اور لوٹ مار کر کے اپنے گھر بنانا اور سجانا ہر ایک کا رویہ رہا۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
آخر ہم اوپر اٹھنے کے بجائے پستی کی طرف کس وجہ سے جارہے ہیں ؟ اِس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو اور سیاسی قائدین کو اِس سے کوئی غرض نہیں کہ وطنِ عزیز کا حشر روز بروز پستی کی جانب کیوں جارہا ہے اور اِس رُجحان کو روکنے کے لیے کیا تدبیر کی جائے؟ ہر کسی کو محض اپنی اپنی پڑی ہوئی تھی۔ تمام لوگ مالِ غنیمت سمجھ کر اپنا اپنا حصہ سمیٹنے میں مصروف رہے۔
سول سوسائٹی کے بار بار اصرار کے باوجود کسی بھی حکومت نے ایک مدت سے اِس جانب توجہ نہیں دی اور ہر حکومت نے '' جیسا ہے چلنے دو '' کا رویہ اختیار کیا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے ، جو کرنے کے کام ہیں وہ کوئی حکومت نہیں کرتی اور جو نہ کرنے کے کام ہیں وہ جلد از جلد ہوجاتے ہیں۔
سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمیں ربِ کریم نے قدرتی وسائل کا خزانہ عطا کیا ہے لیکن ہم اُس سے استفادہ کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں نہیں مار رہے۔ ہمارے پاس افرادی قوت کا خزانہ موجود ہے لیکن اُس کے باوجود ہم بے وسیلہ اور کم وسیلہ ملکوں کے مقابلہ میں بھی کچھوے کی رفتار سے چل رہے ہیں۔ یہ کہانی خرگوش اور کچھوے کی کہانی ہے۔
پاکستان کا قیام بھی ایک سوچ کی پیداوار ہے۔ جواب یہ ہے کہ غیر منقسم ہندوستان میں بہت سی قومیں رہا کرتی تھیں جس میں ہندو، مسلمان، سِکھ اور عیسائی شامل ہیں۔ برصغیر میں مسلمانوں کی حکومت تھی۔ اِس طویل دور کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ حکمراں کی آنکھوں میں کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا گیا۔
صرف یہی نہیں بلکہ اِس پورے عرصہ میں ہندوؤں کو ترجیح دی گئی جس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ شہنشاہ کے نو رتنوں میں بیر بَل کو وزیرِ اعظم کا درجہ حاصل تھا۔ حد تو یہ ہے شہنشاہ اورنگزیب جیسے کٹر مسلمان حکمراں کی کابینہ میں ٹوڈر مَل کو وزیرِ مالیات کا درجہ حاصل تھا۔
یہ تھی مسلم حکمرانوں کی مختصر کہانی۔ پھر جب ہندوستان آزاد ہوا تو انتہا پسند ہندوؤں نے ایک جماعت کی بنیاد رکھی جس کا مقصد مسلمانوں پر تشدد کرکے انھیں بھارت چھوڑ کر جانے پر مجبور کرنا تھا۔ ایک وقت وہ بھی تھا کہ جب پاکستان کی معیشت تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی اور جس پر سب لوگ حیران تھے۔ یہ برق رفتار ترقی 1950 سے 1960 تک جاری رہی۔
یہ سانپ سیڑھی کا کھیل تھا۔ اِس کے بعد زوال کا دور شروع ہوا اور سست رفتاری نے وطنِ عزیز کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ یہ سلسلہ 1980کی دہائی تک چلتا رہا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ زوال پذیری کا یہ دور رُکنے کے بجائے پلٹ کر کیوں نہیں آیا ، اگر غور کیا جائے تو اِس زوال کے اسباب واضح ہوجائیں گے جس میں سیاستدان ، سیاسی جماعتیں، اسٹیبلشمنٹ، مارشل لا اور بیرونی دباؤ کا بڑھنا ہے۔ افسوس کہ اِس طرف کسی نے بھی کوئی توجہ ہی نہیں دی اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ معیشت سنبھلنے کے بجائے بگڑتی ہی چلی گئی۔
آج وطنِ عزیز کا حال جو ہم دیکھ رہے ہیں اِسی کا شاخسانہ ہے۔ اِس کے لیے کسی ایک حکومت کو ذمے دار ٹھہرانا سراسر زیادتی اور بے انصافی ہوگی۔ بقول مصطفیٰ زیدی :
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
اِس بد ترین گناہ میں سب کے سب شامل ہیں۔ مفاد پرستی اور وطنِ عزیز کی قسمت سے کھیلنا اور لوٹ مار کر کے اپنے گھر بنانا اور سجانا ہر ایک کا رویہ رہا۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
آخر ہم اوپر اٹھنے کے بجائے پستی کی طرف کس وجہ سے جارہے ہیں ؟ اِس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو اور سیاسی قائدین کو اِس سے کوئی غرض نہیں کہ وطنِ عزیز کا حشر روز بروز پستی کی جانب کیوں جارہا ہے اور اِس رُجحان کو روکنے کے لیے کیا تدبیر کی جائے؟ ہر کسی کو محض اپنی اپنی پڑی ہوئی تھی۔ تمام لوگ مالِ غنیمت سمجھ کر اپنا اپنا حصہ سمیٹنے میں مصروف رہے۔
سول سوسائٹی کے بار بار اصرار کے باوجود کسی بھی حکومت نے ایک مدت سے اِس جانب توجہ نہیں دی اور ہر حکومت نے '' جیسا ہے چلنے دو '' کا رویہ اختیار کیا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے ، جو کرنے کے کام ہیں وہ کوئی حکومت نہیں کرتی اور جو نہ کرنے کے کام ہیں وہ جلد از جلد ہوجاتے ہیں۔
سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمیں ربِ کریم نے قدرتی وسائل کا خزانہ عطا کیا ہے لیکن ہم اُس سے استفادہ کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں نہیں مار رہے۔ ہمارے پاس افرادی قوت کا خزانہ موجود ہے لیکن اُس کے باوجود ہم بے وسیلہ اور کم وسیلہ ملکوں کے مقابلہ میں بھی کچھوے کی رفتار سے چل رہے ہیں۔ یہ کہانی خرگوش اور کچھوے کی کہانی ہے۔