ٹائرز کی اسمگلنگ سے قومی خزانے کو 40ارب روپے سالانہ کا نقصان
چھ ماہ کے دوران ٹائرز کی اسمگلنگ میں غیرمعمولی اضافے نے مقامی صنعت کو بری طرح متاثر کیا ہے، حسین قلی خان
ٹائرز کی اسمگلنگ میں اضافے سے مقامی صنعت بحران کا شکار ہوگئی ہے،افغانستان کے راستہ ٹائرز کی اسمگلنگ سے قومی خزانے کو 40 ارب روپے سالانہ کا نقصان پہنچ رہا ہے۔
گندھارا ٹائر کے سی ای او حسین قلی خان کے مطابق ٹائر کی مقامی صنعت کو دہرے مسائل کا سامنا ہے جن میں ایک اہم مسئلہ ایل سی نہ کھلنے کی وجہ سے ہونےو الی خام مال کی قلت ہے۔ ٹائر کی صنعت کے لیے زیادہ تر خام مال منظور شدہ ذرائع سے درآمد کیا جاتا ہے مگر ہم مقامی سطح پر بہت زیادہ ویلیو ایڈیشن کرکے ملک کے لیے زرمبادلہ بچانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
مقامی صنعت کا دوسرا سب سے بڑا مسئلہ اسمگل شدہ ٹائرز کی بھرمار ہے جن میں چھوٹی گاڑیوں اور کاروں کے ٹائرز کی اسمگلنگ سرفہرست ہے۔ حسین قلی خان نے کہا کہ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں ٹائرز کی درآمد میں 47فیصد کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹائرز کی دستیابی میں اس کمی کو بڑے پیمانے پر ہونے والی اسمگلنگ نے پورا کیا۔
پسنجر کاروں کے (ایچ ایس کوڈ 4011.1000) کے حامل ٹائرز کی درآمد میں گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 55 فیصد کی نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی۔
حسین قلی خان نے کہا کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران ٹائرز کی اسمگلنگ میں غیرمعمولی اضافے نے مقامی صنعت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ زیادہ تر اسمگل شدہ ٹائرز غیرمعیاری ہیں جو شہر میں کھلے عام فروخت کیے جارہے ہیں لیکن بدقسمتی سے کم قیمت ہونے کی وجہ سے خریدار نتائج کی پروا کیے بغیر یہ سستے غیرمعیار ٹائرز خرید رہے ہیں۔
سی ای او گندھارا ٹائرز کا کہنا ہے کہ بعض تخمینوں کے مطابق صرف ٹائرز کی اسمگلنگ سے قومی خزانے کو سالانہ 40ارب روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے جس سے ٹائرز کی مقامی صنعت بھی بری طرح متاثر ہورہی ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ رواں مالی سال کسٹم کلکٹریٹ انفورسمنٹ نے کراچی کی مارکیٹ سے 54 کروڑ روپے مالیت کے 55 ہزار ٹائرز قبضے میں لیے ہیں۔ افغانستان میں ٹائروں کی کھپت پاکستان کے مقابلے میں ایک تہائی ہے۔
حکومت کو افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے درآمد ہونے والے ٹائرز کے ڈیٹا کا معائنہ کرکے اس سہولت پر ازسرنو غور کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ کیا اس سہولت کے تحت درآمد ہونے والے ٹائرز افغانستان میں چلنے والی گاڑیوں سے مطابقت رکھتے ہیں۔
افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت آنے والے ٹائرز کراچی میں ان لوڈ کیے جاتے ہیں یا پھر افغانستان سے واپس پاکستان اسمگل کردیے جاتے ہیں۔ کسٹم حکام کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ افغان ٹرانزٹ کی سہولت کا غلط استعمال بند کیا جائے۔
حسین قلی خان نے مزید کہا کہ اسمگلنگ سے قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس ادا کرنے والی مقامی صنعت کو کاروبار کے یکساں مواقع مہیا کیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ مارکیٹ میں دستیاب ٹائرز کے اسٹاک کی جانچ پڑتال کی جائے اور اس بات کی تحقیق کی جائے کہ ٹائرز ٹیکس ادا کرکے درآمد کیے گئے ہیں یا نہیں اور غیرقانونی اسٹاک قبضے میں لے لیا جائے۔
گندھارا ٹائر کے سی ای او حسین قلی خان کے مطابق ٹائر کی مقامی صنعت کو دہرے مسائل کا سامنا ہے جن میں ایک اہم مسئلہ ایل سی نہ کھلنے کی وجہ سے ہونےو الی خام مال کی قلت ہے۔ ٹائر کی صنعت کے لیے زیادہ تر خام مال منظور شدہ ذرائع سے درآمد کیا جاتا ہے مگر ہم مقامی سطح پر بہت زیادہ ویلیو ایڈیشن کرکے ملک کے لیے زرمبادلہ بچانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
مقامی صنعت کا دوسرا سب سے بڑا مسئلہ اسمگل شدہ ٹائرز کی بھرمار ہے جن میں چھوٹی گاڑیوں اور کاروں کے ٹائرز کی اسمگلنگ سرفہرست ہے۔ حسین قلی خان نے کہا کہ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں ٹائرز کی درآمد میں 47فیصد کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹائرز کی دستیابی میں اس کمی کو بڑے پیمانے پر ہونے والی اسمگلنگ نے پورا کیا۔
پسنجر کاروں کے (ایچ ایس کوڈ 4011.1000) کے حامل ٹائرز کی درآمد میں گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 55 فیصد کی نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی۔
حسین قلی خان نے کہا کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران ٹائرز کی اسمگلنگ میں غیرمعمولی اضافے نے مقامی صنعت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ زیادہ تر اسمگل شدہ ٹائرز غیرمعیاری ہیں جو شہر میں کھلے عام فروخت کیے جارہے ہیں لیکن بدقسمتی سے کم قیمت ہونے کی وجہ سے خریدار نتائج کی پروا کیے بغیر یہ سستے غیرمعیار ٹائرز خرید رہے ہیں۔
سی ای او گندھارا ٹائرز کا کہنا ہے کہ بعض تخمینوں کے مطابق صرف ٹائرز کی اسمگلنگ سے قومی خزانے کو سالانہ 40ارب روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے جس سے ٹائرز کی مقامی صنعت بھی بری طرح متاثر ہورہی ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ رواں مالی سال کسٹم کلکٹریٹ انفورسمنٹ نے کراچی کی مارکیٹ سے 54 کروڑ روپے مالیت کے 55 ہزار ٹائرز قبضے میں لیے ہیں۔ افغانستان میں ٹائروں کی کھپت پاکستان کے مقابلے میں ایک تہائی ہے۔
حکومت کو افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے درآمد ہونے والے ٹائرز کے ڈیٹا کا معائنہ کرکے اس سہولت پر ازسرنو غور کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ کیا اس سہولت کے تحت درآمد ہونے والے ٹائرز افغانستان میں چلنے والی گاڑیوں سے مطابقت رکھتے ہیں۔
افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت آنے والے ٹائرز کراچی میں ان لوڈ کیے جاتے ہیں یا پھر افغانستان سے واپس پاکستان اسمگل کردیے جاتے ہیں۔ کسٹم حکام کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ افغان ٹرانزٹ کی سہولت کا غلط استعمال بند کیا جائے۔
حسین قلی خان نے مزید کہا کہ اسمگلنگ سے قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس ادا کرنے والی مقامی صنعت کو کاروبار کے یکساں مواقع مہیا کیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ مارکیٹ میں دستیاب ٹائرز کے اسٹاک کی جانچ پڑتال کی جائے اور اس بات کی تحقیق کی جائے کہ ٹائرز ٹیکس ادا کرکے درآمد کیے گئے ہیں یا نہیں اور غیرقانونی اسٹاک قبضے میں لے لیا جائے۔