نایاب مرض میں مبتلا بچی ڈاکٹرز کی ناامیدی کے باوجود 29 سال ’جی‘ گئی
لوگ کچھ بھی کہیں، میری بیٹی جیسی بھی ہے میں اُس سے پیار کرتی ہوں اور میری زندگی اُس کے لیے وقف ہے، والدہ
برازیل میں خاتون کے ہاں پہلی بیٹی کی ولادت ہوئی جو ایک نایاب اور تکلیف دہ بیماری میں مبتلا ہے، اس مرض میں مریض کے سر کا سائز وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا اور دماغ ماؤف ہوتا رہتا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پیدائش کے وقت ڈاکٹروں نےگریزیلی کو چند ماہ کا مہمان بتایا تھا مگر گریزیلی 29 سال کی ہوگئی ہیں اور ان کا سر اب بھی سائز میں مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔ اس بیماری کی وجہ سے نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ گریزیلی نہ ہی سُن سکتی ہیں، نہ بول سکتی ہیں، نہ ہی دیکھنے قابل ہیں اور نہ ہی چلنے کے۔
گریزیلی Hydrocephalus کا شکار ہیں جس میں دماغ کے اندر بڑی مقدار میں سیال (fluid) جمع ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے عضو کا سائز بھی بڑھتا ہے اور اس پر دباؤ بھی۔
عام طور پر دماغ اور ریڑھ کی ہڈی میں سیال کی محدود مقدار ہوتی ہے جو دونوں اعضا کو گیلا رکھتی ہے۔ لیکن ہائیڈروسیفالس بیماری میں یہ سیال بہت زیادہ جمع ہوجاتا ہے جس سے بافتوں کو نقصان پہنچتا ہے اور دماغی افعال کے مسائل کا سبب بنتا ہے۔ سیال کے تیزی سے جمع ہونے کی وجہ سے مریض کا سر غیر معمولی طور پر پھول کر بڑا ہوجاتا ہے۔
والدہ نے بتایا کہ گریزیلی تینوں بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہے۔ مجھے اُسی وقت کچھ غلط ہونے خدشہ ہوگیا تھا جب حمل کے دوران میرے پیٹ میں درد ہوتا تھا۔ تکلیف اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ جب میں 8 ماہ کی حاملہ تھی انہیں بستر سے اٹھنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی تھی۔ بعد میں الٹراساؤنڈ میں انکشاف ہوا کہ میری بیٹی کا سر غیرمعمولی طور پر بڑا ہے جس کے بعد ڈاکٹروں نے بیماری کی تشخیص کی۔ ڈاکٹروں کو لگتا تھا دماغ میں سیال جمع ہونے کی وجہ سے میری بیٹی صرف چند ماہ تک زندہ رہے گی لیکن وہ 29 سال کی ہوگئی ہے۔
چونکہ گریزیلی خود کوئی کام کرنے قاصر ہیں، لہٰذا اُنہیں 24 گھنٹے نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے جس کیلئے ان کی والدہ کل وقتی نگراں ہیں۔ الویز کی ذمہ داریوں میں گریزیلی کو کھانا کھلانا، اُس کی صفائی وغیرہ کرنا اور نہلانا دھُلانا شامل ہے۔
الویز نے بتایا کہ جب گریزیلی پیدا ہوئی تو اس کے بڑے سر کی وجہ سے لوگ اس کا مسلسل مذاق اڑاتے تھے اور اُڑاتے ہیں لیکن مجھے اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ اہم بات یہ ہے کہ گریزیلی جیسی بھی ہے، میں، میرے اہل خانہ اور دوست گریزیلی سے ویسے ہی پیار کرتے ہیں۔ میں گریزیلی کے لیے وقف ہوں اور اس کی اچھی طرح دیکھ بھال کرکے مجھے خوشی ہوتی ہے۔ بالخصوص جب میں اس کی مسکراہٹ دیکھتی ہوں تو میری ساری محنت وصول ہوجاتی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پیدائش کے وقت ڈاکٹروں نےگریزیلی کو چند ماہ کا مہمان بتایا تھا مگر گریزیلی 29 سال کی ہوگئی ہیں اور ان کا سر اب بھی سائز میں مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔ اس بیماری کی وجہ سے نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ گریزیلی نہ ہی سُن سکتی ہیں، نہ بول سکتی ہیں، نہ ہی دیکھنے قابل ہیں اور نہ ہی چلنے کے۔
گریزیلی Hydrocephalus کا شکار ہیں جس میں دماغ کے اندر بڑی مقدار میں سیال (fluid) جمع ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے عضو کا سائز بھی بڑھتا ہے اور اس پر دباؤ بھی۔
عام طور پر دماغ اور ریڑھ کی ہڈی میں سیال کی محدود مقدار ہوتی ہے جو دونوں اعضا کو گیلا رکھتی ہے۔ لیکن ہائیڈروسیفالس بیماری میں یہ سیال بہت زیادہ جمع ہوجاتا ہے جس سے بافتوں کو نقصان پہنچتا ہے اور دماغی افعال کے مسائل کا سبب بنتا ہے۔ سیال کے تیزی سے جمع ہونے کی وجہ سے مریض کا سر غیر معمولی طور پر پھول کر بڑا ہوجاتا ہے۔
والدہ نے بتایا کہ گریزیلی تینوں بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہے۔ مجھے اُسی وقت کچھ غلط ہونے خدشہ ہوگیا تھا جب حمل کے دوران میرے پیٹ میں درد ہوتا تھا۔ تکلیف اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ جب میں 8 ماہ کی حاملہ تھی انہیں بستر سے اٹھنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی تھی۔ بعد میں الٹراساؤنڈ میں انکشاف ہوا کہ میری بیٹی کا سر غیرمعمولی طور پر بڑا ہے جس کے بعد ڈاکٹروں نے بیماری کی تشخیص کی۔ ڈاکٹروں کو لگتا تھا دماغ میں سیال جمع ہونے کی وجہ سے میری بیٹی صرف چند ماہ تک زندہ رہے گی لیکن وہ 29 سال کی ہوگئی ہے۔
چونکہ گریزیلی خود کوئی کام کرنے قاصر ہیں، لہٰذا اُنہیں 24 گھنٹے نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے جس کیلئے ان کی والدہ کل وقتی نگراں ہیں۔ الویز کی ذمہ داریوں میں گریزیلی کو کھانا کھلانا، اُس کی صفائی وغیرہ کرنا اور نہلانا دھُلانا شامل ہے۔
الویز نے بتایا کہ جب گریزیلی پیدا ہوئی تو اس کے بڑے سر کی وجہ سے لوگ اس کا مسلسل مذاق اڑاتے تھے اور اُڑاتے ہیں لیکن مجھے اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ اہم بات یہ ہے کہ گریزیلی جیسی بھی ہے، میں، میرے اہل خانہ اور دوست گریزیلی سے ویسے ہی پیار کرتے ہیں۔ میں گریزیلی کے لیے وقف ہوں اور اس کی اچھی طرح دیکھ بھال کرکے مجھے خوشی ہوتی ہے۔ بالخصوص جب میں اس کی مسکراہٹ دیکھتی ہوں تو میری ساری محنت وصول ہوجاتی ہے۔