روس یوکرین جنگ عالمی مفادات اور معیشت

روسی قیادت کے نزدیک جنگ کا مقصد ولادیمیر زلنسکی کو حکومت کو ختم کر کے اپنی من پسند حکومت کو لانا تھا

روسی قیادت کے نزدیک جنگ کا مقصد ولادیمیر زلنسکی کو حکومت کو ختم کر کے اپنی من پسند حکومت کو لانا تھا۔ فوٹو: فائل

روسی فوج نے یوکرین پر میزائل حملے کیے ہیں، جس میں چار افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔ یوکرین نے الزام عائد کیا ہے کہ روس نے میزائل حملوں میں ایک اسپتال کو بھی نشانہ بنایا جس میں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

یوکرین کے صدر ولود یمیرزی لنسکی برطانیہ کے غیر اعلانیہ دورے پر پہنچ گئے، جہاں برطانیہ نے یوکرین کو فضائی دفاعی میزائل اور ڈورنرز دینے کا اعلان کیا ہے۔ امریکا نے بھی یوکرین کو بھاری تعداد میں جنگی سازوسامان اور جدید اسلحہ فراہم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

دوسری جانب روسی صدر ولادی میر پوتن ، مغرب پر یوکرین کو '' مقامی تنازع سے عالمی محاذ آرائی'' میں تبدیل کرنے کا الزام عائد کرچکے ہیں۔

جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا اور سب سے زیادہ نقصان وہ اٹھاتے ہیں جو اس آگ کو بجھانے کے بجائے اس پر تیل ڈالتے ہیں۔ دنیا پر اس جنگ کے معاشی و سیاسی اثرات کا بہت حد تک تعلق اس کے جغرافیائی پھیلاؤ اور وقتی دورانیہ یا طوالت سے ہے۔

مثال کے طور پر کچھ یورپین ماہرین کے نزدیک یہ جنگ کم از کم پانچ سال تک جاری رہ سکتی ہے، اگر یہ جنگ مزید طول پکڑتی ہے تو نتیجہ میں تگڑے ممالک مزید امیر اور غریب ممالک مزید غریب ہو جائیں گے۔

پاکستان میں معاشی صورتحال عالمی مالیاتی فنڈ کی شرائط اور جنگ کے اثرات کی وجہ سے زیادہ گمبھیر نظر آتی ہے۔ ابھی دہشت گردی کے خلاف جنگ پوری طرح ختم نہیں ہوئی تھی کہ روس یوکرین جنگ شروع ہو گئی اور اس کے پہلے مرحلے میں ہی خوراک اور پٹرولیم کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جنگ اور اشیائے خوردنی اور پٹرولیم کی مہنگائی کے درمیان ارتباط یا باہمی تعلق کیا ہے۔

جنگوں کے لیے فوج، جنگی مشینری کے علاوہ بے پناہ سرمایہ درکار ہوتا ہے۔ فوج اور مشینری کئی سالوں میں دھیرے دھیرے تیار ہوتی رہتی ہے۔ جب جنگ شروع ہو جائے تو ایک اندازے کے مطابق افواج اور دیگر کے اخراجات میں سو گنا تک کا اضافہ ہو جاتا ہے۔

ان اخراجات کو پورا کرنے کے فریقین اپنی اپنی برآمدات کو مہنگا کر دیتے ہیں۔ اس کو ایک طرح کا جنگی ٹیکس بھی کہا جا سکتا ہے جسے پوری دنیا کے لوگ ادا کرتے ہیں۔

اس وقت دنیا میں خوراک (گندم، چاول، مکئی، خوردنی تیل وغیرہ) کے بڑے برآمد کنندگان کی لسٹ میں امریکا، جرمنی، برطانیہ، چین، جاپان، فرانس، ہالینڈ، کینیڈا، بیلجیم، اٹلی اور روس شامل ہیں، جب کہ پٹرولیم مصنوعات کے بڑے برآمد کنندگان میں سعودی عرب، روس، امریکا، کینیڈا، عراق، عرب امارات، نائجیریا، کویت، قازقستان اور ناروے شامل ہیں۔

روس یوکرین جنگ کے پس منظر میں انھیں مذکورہ ممالک کی اکثریت ہی متحرک نظر آئے گی۔ جنگ کے حوالے سے منظم پروپیگنڈا کیا گیا چونکہ یوکرین دنیا کی فوڈ باسکٹ تھا، اس لیے خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر تھا، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یوکرین گندم برآمد کرنے والا 5 واں بڑا ملک ہے لیکن خوراک کی برآمد کے لحاظ سے وہ دنیا کا 38 واں ملک ہے۔

یوکرین کی گندم دنیا تک شاید پہنچی یا نہ پہنچی مگر گندم کے دوسرے برآمد کنندگان ممالک خوب مال کما رہے ہیں۔ جنگ کی شروعات سے ہی عالمی میڈیا میں کچھ اس طرح کی خبریں شایع ہوئیں کہ پوری دنیا کو پٹرولیم شاید روس ہی برآمد کر رہا تھا اور جنگ کی وجہ سے پٹرول مہنگا ہو گیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی کل پٹرولیم برآمدات میں روسی حصہ صرف 13 % ہے باقی ماندہ برآمد ماسوائے ایک آدھ ملک کے امریکی اور یورپی کمپنیوں کے ہاتھ میں ہے۔ روس یوکرین جنگ کی آڑ میں تیل کی تجارت سے کمایا جانے وال منافع ہمارے اندازوں سے بھی کہیں زیادہ ہے۔


خوراک اور ایندھن دو ایسی چیزیں ہیں جن کی مہنگائی سے دنیا کی ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے اس طرح سامراج کے ہاتھ دنیا کے ہر امیر و غریب کی جیبوں تک پہنچ جاتے ہیں۔

مغربی ممالک کو منطقی اور حقیقت پسندانہ نقطہ نظر سے بحران سے نمٹنا چاہیے۔ انھیں جنگ کے شعلوں کو ہوا دینے کے بجائے امن کے لیے کام کرنا چاہیے جس کے اثرات میدان جنگ سے کہیں زیادہ خود یورپی ممالک اور وہاں کی برادریوں تک پھیل رہے ہیں جس سے شہریوں کے تحفظ اور سیکیورٹی کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ کئی ترقی پذیر ممالک پیدا شدہ جنگی صورتِ حال میں براہ راست شامل نہیں لیکن اس کے اثرات کا سامنا کررہے ہیں۔

مشرقی یورپ میں جنم لینے والا یہ تنازع جنوبی ایشیا میں پاکستان کی معیشت کو بھی متاثر کررہا ہے۔ جنگ شروع ہونے سے قبل ہی کورونا وائر س کی وبا اور روس یوکرین کشیدگی کے باعث یورپ میں جاری توانائی کے بحران کی وجہ سے کئی دیگر ممالک کی طرح پاکستان کو ایل این جی کی سپلائی میں کمی کا سامنا تھا۔

اس کی وجہ سے پاکستان کو بجلی کی طلب پوری کرنے کے لیے ڈیزل پر انحصار کرنا پڑ رہا تھا جس کے سبب رواں سال میں سات سال کے دوران ملک میں ڈیزل سے بجلی کی پیداوار کی شرح بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی۔ ڈیزل کے استعمال کی وجہ سے پاکستان میں بجلی کی پیداواری قیمت میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔

بجلی کے نرخوں میں اضافے کی بنیادی وجہ فرنس آئل، ہائی اسپیڈ ڈیزل، کوئلے اور ایل این جی کی قیمت میں اضافہ ہے۔ عالمی ماہرین کا بھی خیال ہے کہ روس اور یوکرین کی جنگ کی وجہ سے طلب میں کمی کے باوجود آیندہ چند ماہ تک ایل این جی کی قیمتیں بلند سطح پر رہنے کا امکان ہے۔

امریکا نے روس کے یوکرین پر حملے کے خلاف متحدہ محاذ کے قیام کا اشارہ دیتے ہوئے دوسری عالمی جنگ کی طرز کی '' قرضوں سے متعلق لیز '' کو دوبارہ بحال کرنے کی دستاویز پر دستخط کر دیے ہیں۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکی صدر جوبائیڈن نے اس ' لینڈ لیز' پروگرام کی بحالی کی دستاویز پر دستخط کیے ہیں۔ اس پروگرام کی مدد سے دوسری عالمی جنگ میں نازی جرمنی کو شکست دینے میں مدد ملی تھی۔ صدر جوبائیڈن کی جانب سے یہ دستخط ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب امریکی کانگریس روس کے خلاف جنگ کے لیے مزید اربوں ڈالر دینے کے لیے تیار ہے۔

صدر بائیڈن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ '' یہ امداد میدان جنگ میں یوکرین کی کامیابی کے لیے کافی اہم رہی ہے۔'' دوسری جانب یوکرین کے صدر نے ولادیمیر زیلنسکی نے ایسے موقع پر چند روز قبل جرمنی کا دورہ کیا ہے جب یوکرین روسی افواج کے خلاف جوابی کارروائی کی تیاریاں کر رہا ہے جن کا آغاز ممکنہ طور پر آیندہ چند دنوں میں کیا جائے گا۔

یوکرینی فوج اپنے جوانوں کو ٹریننگ فراہم کر رہی ہے اور مغربی ممالک کی جانب سے دیے گئے ہتھیار ذخیرہ کر رہی ہے جو تجزیہ کاروں کے خیال میں روس کے قبضے سے اپنے علاقے واپس لینے میں اہم ثابت ہوں گے۔ روس کے حملے کے بعد سے یوکرین کو ٹینک، راکٹ اور میزائل شکن سسٹم فراہم کرنے میں جرمنی پیش پیش رہا ہے۔

اسی دوران یوکرین کے حامی یورپی ممالک امریکا کی سیاسی، اخلاقی اور لاجسٹک مدد کے علاوہ یوکرین کو سامان حرب اور جدید فوجی ہتھیاروں کی فراہمی میں اضافہ کر کے کسی سمجھوتے کے بغیر اپنے غیر متزلزل عزم پر قائم ہیں۔

روسی قیادت کے نزدیک جنگ کا مقصد ولادیمیر زلنسکی کو حکومت کو ختم کر کے اپنی من پسند حکومت کو لانا تھا، مگر روسی قیادت اپنے اندازوں میں نا کام رہی اور محدود پیمانے کی سرحدی جنگ اب سوا برس سے جاری ہے۔

روس کا موقف ہے کہ یوکرینی جنگ کے خاتمے کے لیے امن مذاکرات صرف ایک '' نئے عالمی نظام '' کے تحت ہی ممکن ہو سکتے ہیں اور یہ ' نیو گلوبل آرڈر ' عالمی سطح پر امریکی برتری کے بغیر قائم کیا جانا چاہیے۔

اس جنگ میں امریکا کی قیادت میں مغربی دفاعی اتحاد کے رکن یورپی ممالک سمیت بہت سی ریاستیں یوکرین کی اخلاقی، سیاسی، مالی اور فوجی مدد کر رہی ہیں جب کہ یہ کوششیں بھی جاری ہیں کہ روس کو اس جنگ کے خاتمے کے لیے امن بات چیت شروع کرنی چاہیے۔

بلاشبہ ایک 'نیا عالمی نظام ' ایسا ہونا چاہیے، جس میں عالمی سطح پر کسی ایک سپر پاور کا غلبہ نہ ہو۔ اس جنگ سے متاثرین کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی ہے اور دسیوں لاکھ بے گناہ لوگ بے گھر ہو گئے ہیں اور اس تباہی کا کیا ہی ذکر کریں جو تمام توقعات سے تجاوز کر چکی ہے۔ عالمی برادری سے یہ مطالبہ کیا جاسکتا ہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان مفاہمت کے لیے مخلصانہ اور طویل مدتی کام کریں۔
Load Next Story