بااختیار میئر وقت کی ضرورت

سندھ اسمبلی نے بلدیاتی قانون میں ترمیم کے ذریعہ غیر منتخب افراد کو میئر کے انتخاب کے لیے اہل قرار دیا ہے

tauceeph@gmail.com

سندھ میں ایک سال کے طویل عرصہ کے بعد بلدیاتی اداروں کے انتخابات کے تمام مراحل آخرکار مکمل ہوگئے۔

سندھ میں دو مرحلوں میں انتخابات ہوئے۔ پہلے مرحلہ میں شہید بے نظیر آباد، لاڑکانہ، سکھر اور جیکب آباد ڈویژن وغیرہ میں انتخابات ہوئے۔ طویل عدالتی لڑائی کے بعد دوسرے مرحلہ میں حیدرآباد اور کراچی ڈویژن میں انتخابات مکمل ہوئے مگر پھر جن نشستوں پر انتخابات مختلف وجوہات کی بناء پر ملتوی ہوئے تھے۔

اب 7 مئی کو یہ ضمنی انتخابات بھی ہوگئے۔اگرچہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے پیپلز پارٹی کی حکومت پر دھاندلی کے الزامات لگائے۔ کراچی کے علاقہ نیو کراچی میں دو تنظیموں کے کارکنان میں تصادم ہوا مگر اب صورتحال یہ ہے کہ کوئی بھی جماعت کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکی۔ اب الیکشن کمیشن کو مخصوص نشستوں پر انتخابات کرانے ہیں۔

بلدیاتی امور کے ایک رپورٹر نے لکھا ہے کہ مخصوص نشستوں میں سے 49 پیپلز پارٹی کو، 42 جماعت اسلامی کو، تحریک انصاف کو 20اور مسلم لیگ ن کو خواتین کی 2 نشستیں ملنے کے امکانات ہیں۔ یوں پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 144 اور جماعت اسلامی کے ارکان کی تعداد 127 ہوجائے گی جب کہ میئر کے انتخاب کے لیے 179 ووٹوں کی کم از کم حمایت ضروری ہے۔

پیپلز پارٹی کے ذرایع کہتے ہیں کہ ان کی جماعت جماعت اسلامی کے منڈیٹ کا احترام کرتی ہے ، جماعت اسلامی کو پیپلز پارٹی کے منڈیٹ کو بھی تسلیم کرنا چاہیے۔ واقعات کے تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے اپنا میئر لانے کا تہیہ کرلیا ہے اور جماعت اسلامی نے تحریک انصاف سے معاملات طے کرنے شروع کر دیے ہیں۔

سندھ کی حکومت کبھی بااختیار بلدیاتی اداروں کے حق میں نہیں رہی۔ جب پیپلز پارٹی نے متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ معاہدہ کیا تھا تو بااختیار بلدیاتی نظام کے قیام پر اتفاق ہوا تھا مگر پیپلز پارٹی معاہدے کرنے اور ان پر عملدرآمد نہ کرنے کی روایت کی امین ہے تو نتیجہ یہ نکلا کہ گزشتہ 15 برسوں تک نچلی سطح تک اختیار کا بلدیاتی نظام قائم نہ ہوا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شہری علاقوں میں ترقیاتی کام رک گئے۔

کراچی اور حیدرآباد میں کوڑے کے ڈھیر وجود میں آئے۔ سندھ کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں گندے پانی کی نکاسی کا نظام مفلوج ہوا۔ کراچی کے شہریوں میں احساس محرومی شدت اختیار کر گیا کہ سندھ سیکریٹریٹ اور بلدیاتی اداروں کی انتظامیہ میں سے شہری علاقوں کے افسر ناپید ہوئے۔

کراچی کی بیشتر آبادیوں میں پانی کی فراہمی معطل ہوئی۔ کراچی کی مضافاتی بستی بلدیہ ٹاؤن جس کی آبادی 10لاکھ کے قریب ہے کے مکین فریاد کرتے ہیں کہ ان کے علاقہ میں نلوں میں کبھی پانی آتا تھا اور اب یہ لوگ ٹینکر مافیا کے پانی کے لیے محتاج بن گئے ہیں۔ یہ صورتحال شہر کے بیشتر علاقوں میں پیدا ہوئی۔

کراچی کا پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام مکمل طور پر مفلوج ہوا، شہر میں بڑی بسیں نایاب ہوئیں۔ شہری چنگ چی پر سفر کرنے پر مجبور ہوئے۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بڑا بورڈ سے نمائش تک گرین لائن منصوبہ کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ یہ منصوبہ 7سال بعد مکمل ہوا تو کراچی کے شہریوں کو یہ شرف حاصل ہوا کہ عزت و وقار کے ساتھ محفوظ سفر بھی اس ملک میں ممکن ہے۔

حافظ نعیم، جماعت اسلامی کے قدامت پسند کلچر میں ایک لبرل رہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔انھوں نے جماعت اسلامی کی ماضی کی پالیسیوں سے انحراف کرتے ہوئے مذہبی امتیاز کے بغیر تین سال قبل اپنی مہم شروع کی۔ انھوں نے پہلے شہریوں کے شناختی کارڈ نہ ملنے کے مسئلہ کو اٹھایا، پھر کے الیکٹرک کے ستائے ہوئے عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے مظاہرے کیے۔


حافظ نعیم نے کورونا کی وباء کے دوران عیسائیوں اور ہندوؤں کی عبادت گاہوں پر بھی اسپرے کر کے اس تاثر کو دور کرنے کی کوشش کی کہ وہ کوئی مذہبی امتیاز رکھتے ہیں۔ حافظ نعیم نے اپنی انتخابی مہم میں اداکاروں، فنکاروں اور خواتین کو شامل کیا۔ وہ خود کسی چینل پرکوئی غزل گنگناتے ہوئے نظر آئے۔

کراچی کی شہری آبادی کی نمایندگی ایم کیو ایم کرتی رہی ہے مگر ایم کیو ایم کے بانی قائد کی ایک تقریر کے بعد حکومت نے ایم کیو ایم کی سرگرمیوں پر عملاً پابندی لگادی ہے ،ایم کیو ایم کی تنظیم بحران کا شکار ہوئی۔ پہلے تحریک انصاف نے ایم کیو ایم کی نشستوں پر قبضہ کیا پھر حافظ نعیم الرحمن نے ایم کیو ایم کے میدان سے باہر ہونے سے پیدا ہونے والی خلاء کو پورا کرنے کی کوشش کی۔

اب جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کے قائدین کی بصیرت کا امتحان شروع ہوچکا ہے۔ جماعت اسلامی اگر پیپلز پارٹی کے بجائے تحریک انصاف سے اتحاد کرتی ہے تو پھر جماعت اسلامی کی سندھ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے ایک سرد جنگ شروع ہوجائے گی، یوں جماعت اسلامی کا شہر کی ترقی کا نعرہ پسِ پشت چلا جائے گا۔

دوسری طرف پیپلز پارٹی جوڑ توڑ اور انتظامی ہتھکنڈوں کے ذریعہ اگر اکثریت حاصل کرلیتی ہے تو اس کا فائدہ تحریک انصاف کی مزاحمتی تحریک کو ہوگا۔ کراچی کے شہری پیپلز پارٹی کی حکومت سے مایوس ہیں۔ ان میں احساسِ محرومی مزید گہرا ہوجائے گا۔ نچلی سطح تک اختیار کے بلدیاتی اداروں کو ترقی کا راستہ جاننے والوں نے انڈیاکے معروف اخبار ہندوستان ٹائمز کی اس خبر کو دلچسپی اور حیرت سے پڑھا کہ بھارت میں انگریز دور کے کنٹونمنٹ ایریا کو ختم کر کے بلدیاتی اداروں میں شامل کردیا گیا ہے۔

بھارت کے معروف اخبار ہندوستان ٹائمز میں شایع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فوج نے کنٹونمنٹ ایریا کو میونسپل کارپوریشن اور میونسپلٹی میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلہ کے تحت سب سے پہلے ہماچل پردیش کے کنٹونمنٹ ایریا کا نام تبدیل کر کے یول رکھ دیا گیا ہے۔ حکومت کے اس فیصلہ سے سابقہ کنٹونمنٹ ایریاز میں آباد ہزاروں سویلین آبادی کا فائدہ ہوگا جنھیں بلدیاتی اداروں کے ترقیاتی کاموں سے مستفید ہونے کا موقع ملے گا۔

کراچی میں 6 کے قریب کنٹونمنٹ بورڈ ہیں، یہ بلدیہ کراچی کی حدود میں شامل نہیں ہیں۔ بلدیہ کراچی کی منتخب قیادت کی مدت گزشتہ سال ختم ہوگئی تھی۔ اب سندھ حکومت نے واٹر بورڈ کو کارپوریشن بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ کارپوریشن میئر کی نگرانی میں نہیں ہوگی بلکہ تجارتی بنیادوں پر چلے گی۔

سندھ اسمبلی نے بلدیاتی قانون میں ترمیم کے ذریعہ غیر منتخب افراد کو میئر کے انتخاب کے لیے اہل قرار دیا ہے۔ پیپلز پارٹی اپنے کسی اردو بولنے والے رہنما کو میئر کا عہدہ دینا چاہتی ہے۔

پیپلز پارٹی نے میئر کے اختیارات میں اضافہ اور شہری سہولتیں فراہم کرنے والے اداروں کو میئر کی تحویل میں دینے اور میئر کو بااختیار بنانے جیسے اہم معاملات پر جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اور مصطفی کمال کے ساتھ معاہدے کیے تھے۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس گلزار احمد نے بلدیاتی قانون کی بعض شقوں کو غیر آئینی قرار دیا تھا اور اس قانون میں ترمیم کا حکم دیا تھا مگر اب تک کچھ بھی نہ ہو پایا۔

پیپلز پارٹی کی قیادت اور اسلام آباد کے پالیسی ساز اداروں کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ ملک کا سب سے بڑا شہر اپنے انفرااسٹرکچر کے اعتبار سے پسماندہ اس لیے ہے کہ پورا شہر منتخب میئر اور میونسپلٹی کے کنٹرول میں نہیں ہے اور بلدیاتی اداروں کو مکمل اختیارات نہیں ہیں۔ یہی وقت ہے کہ اس تنازع سے قطع نظر کہ شہر کا میئر کس جماعت کا ہونا چاہیے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ بلدیہ کراچی کے دائرہ کار کو بڑھایا جائے، ایک ایسی بلدیہ قائم کی جائے جس کا دائرہ پورے شہر پر ہو، یوں منتخب بلدیاتی قیادت اختیارات کے ساتھ مکمل توجہ کراچی کو جدید شہر بنانے پر دے، یوں کراچی کی ترقی کا ثمر پورے ملک کو ملے گا۔
Load Next Story