کورکمانڈرز کانفرنس کا اعلامیہ
لوگوں نے جمہوریت کی بحالی کے لیے خود کو آگ بھی لگائی ہے۔ لیکن کبھی فوجی تنصیبات کو نشانہ نہیں بنایا گیا
عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک میں جو کچھ ہوا، اس کے بعد پاک فوج کی جانب سے باقاعدہ ردعمل کور کمانڈر کانفرنس کے اعلامیہ میں آیا ہے۔ اس سے پہلے سب باتیں ذاریع سے تھیں تاہم اب جو کچھ اعلامیہ میں آگیا ہے، وہ پاک فوج کا باقاعدہ رد عمل ہے۔
یہ قیاس آرائیاں کافی دن سے جاری تھیں کہ 9مئی کے واقعات کے مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت ملٹری کورٹس میں چلائے جائیں گے، لیکن حتمی اعلان کور کمانڈر کانفرنس کے اعلامیہ میں کیا گیا ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ کور کمانڈر کانفرنس میں جو فیصلے ہوئے ہیں نیشنل سکیو رٹی کمیٹی ،حکومت اور پارلیمان اس کے ساتھ کھڑے ہوںگے۔
نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کابینہ اور پارلیمان ان فیصلوں کے توثیق کر دے گی۔ بلکہ ان پر عمل کی راہ میں اگر کوئی قانونی رکاوٹیں ہوںگی تو وہ بھی دور کر دی جائیں گی۔ اس لیے اس اعلامیہ کو حکومت اور پارلیمان کی حمایت حاصل ہے، اس میں کوئی ابہام نہیں۔
کور کمانڈرز کانفرنس کے اعلامیہ میں سیاسی شرپسندوں کی جانب سے کی گئی جلاؤ گھیراؤ اور فوجی تنصیبات پر حملوں کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی گئی ہے، لیکن بات اگر مذمت تک رہتی تو کوئی خبر نہیں تھی۔ تا ہم بات آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ تک جا پہنچی ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ آرمی کے رینک اینڈ فائل میں عسکری تنصیبات کے نقصانات اور جلاؤ گھیراؤ پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والے افراد کو پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل کے ذریعے انصاف کے کٹہرے میں لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ فوج کے پاس ناقابلِ تردید شواہد کے ساتھ افواجِ پاکستان پر ان حملوں کے منصوبہ سازوں، اُکسانے والوں اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے والے تمام مجرموں کی تفصیل وجود ہے۔
کورکمانڈر کانفرنس کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ کور کمانڈر کانفرنس میں گزشتہ دنوں کے دوران امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا جسے ایک سیاسی جماعت کی قیادت نے محض اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا۔ کسی بھی حلقے کی جانب سے قیامِ امن و امان کے لیے رکاوٹ ڈالنے والوں سے آ ہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔
اعلامیہ کے مطابق کانفرنس میں بریفنگ کے دوران فورم کو آگاہ کیا گیا کہ شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی، تاریخی عمارتوں کو نذرِ آتش کرنے اور فوجی تنصیبات کی توڑ پھوڑ پر مشتمل ایک مربوط منصوبے پر عمل درآمد کرایا گیا تاکہ ادارے کی بدنامی ہو سکے جب کہ یہ سارا عمل ایک ذاتی سیاسی ایجنڈے کے حصول کے لیے تھا۔اعلامیہ کے مطابق آرمی چیف نے اس سارے معاملے پر فوجی فارمیشنز کی جانب سے تحمل اور پختہ ردِ عمل کو سراہا تا ہم یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسی بھی ایجنڈے کے تحت فوجی تنصیبات اور مقامات پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ آیندہ کوئی رعایت نہیں کی جائے گی۔ مطلب تحمل کا مظاہرہ اس کے بعد نہیں کیا جائے گا۔
کور کمانڈر ز نے بیرونی طور پر سپانسر شدہ اور اندرونی سہولت یافتہ عناصر کے منظم پروپیگنڈہ پر بھی شدید تشویش کا اظہارکیا۔ کہا گیا ہے کہ شرمناک پروپیگنڈہ کا مقصد مسلح افواج اور پاکستان کی عوام کے درمیان خلیج جب کہ مسلح افواج کے رینک اینڈ فائل کے اندر دراڑ پیدا کرنا ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ دُشمن قوتوں کے شیطانی پروپیگنڈہ کو عوام کی حمایت سے شکست دی جائے گی۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا پاک فوج ان مقدمات کو آرمی ایکٹ کے تحت چلانے میں کامیاب ہوگی؟ کیا ہماری عدلیہ اس کی راہ میں رکاوٹ بنے گی؟ کیا جب تحریک انصاف کے رہنماؤں بالخصوص عمران خان کو آرمی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا جائے گاتو انھیں ضمانت دے دی جائے گی۔
کیا عدلیہ ملٹری کورٹس کی کارروائی کے خلاف حکم امتناعی جاری کر دے گی؟ کیا تحریک انصاف کی ان مقدمات کو آرمی ایکٹ کے تحت درج کرنے اور ملٹری کورٹس میں ٹرائل کو روکنے کی استد عا منظور کی جائے گی؟ کیا عدلیہ خاموش رہے گی؟ کیا عدلیہ کوئی رول ادا کرے گی؟ میں سمجھتا ہوں یہ اہم سوالات ہیں۔ جن کا جواب سب جاننا چاہتے ہیں۔
کیا چیف جسٹس پاکستان نے جیسے عمران خان کو نیب کی حراست سے رہا کیا ہے، ویسے ہی عمران خان کو حراست سے بھی رہا کرائیں گے۔ کیا عدالتیں عمران خان کو جیسے اب ضمانتیں دے رہی ہیں کیا، آرمی ایکٹ کے مقدمات میں بھی ایسے ہی ضمانتیں دی جائیں گے۔ یہی سوال تحریک انصاف کی دیگر قیادت کے لیے بھی ہیں۔
پہلا سوال یہ ہے کہ کیا عدلیہ قانون اور آئین کے تحت ایسا کر سکتی ہے؟ ایک عمومی رائے یہی ہے کہ ملٹری کورٹس کے معاملات میں سول عدالتیں مداخلت نہیں کرتی ہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ دلیل ہے کہ ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل نہیں ہو سکتا۔ لیکن پھر ایسی مثالیں بھی سامنے آجاتی ہیں جہاں سویلین کو ملٹری کورٹس میں ٹرائل کیا گیا ہے۔ تب تو ہماری عدالتوں نے مداخلت نہیں کی ۔ اب کیوں کریں گی۔ کیا مداخلت صرف عمران خان کے لیے ہی ہے۔
تحر یک انصاف کی قیادت عجیب منطق پیش کر رہی ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم تو وہاں کھڑے لوگوں کو روک رہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ آپ وہاں موجود ہی کیوں تھے؟ آپ نے فوجی تنصیبات کے سامنے احتجاج کا منصوبہ ہی کیوں بنایا؟ یہ کیاپلاننگ تھی کہ فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا جائے گا، آپ کی وہاں موجودگی ہی یہ ثابت کرتی ہے کہ آپ فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانا چاہتے تھے۔
جب آپ اپنے مظاہرین کو وہاں لے گئے تو پھر آپ نے ان کو کھلی چھٹی دے دی اور آپ لوگ کھڑے ہو کر تماشہ دیکھتے رہے۔ بعدازاں جو آڈیوز سامنے آئی ہیں، وہ بتا رہی ہیں کہ آپ کو دکھ نہیں تھا بلکہ آپ اس کو اپنی فتح کے طور پر پیش کر رہے تھے۔ آپ کے لیڈر فخر سے بتا رہے تھے کہ ہم نے کور کمانڈر کے گھر کو آگ لگا دی ہے۔ سامان لوٹ لیاہے۔
فوج کے سیاسی کردار پر احتجاج ہوتے رہے ہیں۔ فوج کے دور آمریت میں بھی جمہوریت کی بحالی کے لیے احتجاج ہوتے رہے ہیں۔ فوجی آمریت کے خلاف بڑی بڑی تحریکیں چلی ہیں۔ لوگوں نے جمہوریت کی بحالی کے لیے خود کو آگ بھی لگائی ہے۔ لیکن کبھی فوجی تنصیبات کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔
کبھی جی ایچ کیو کا گیٹ نہیں توڑ ا گیا۔ کبھی حساس اداروں کے دفاتر کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔ یہ احتجاج کی کون سے شکل تھی جو تحریک انصاف کرنے چلی تھی۔ کیا عوا م اور فوج کو لڑانے کی کوشش تھی جو ناکام ہو گئی۔ اس لیے میری رائے میں اس پر سخت ایکشن ہونا چاہیے۔ کیونکہ اگر آج کوئی ا یکشن نہ ہوا تو کل کسی اور کو بھی یہ جرات ہوگی۔ ویسے ہی پہلے بھی یہ موازنہ ہورہا ہے کہ چھوٹے صوبے کے ڈومیسائل میں فرق نہیں ہونا چاہیے۔
یہ قیاس آرائیاں کافی دن سے جاری تھیں کہ 9مئی کے واقعات کے مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت ملٹری کورٹس میں چلائے جائیں گے، لیکن حتمی اعلان کور کمانڈر کانفرنس کے اعلامیہ میں کیا گیا ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ کور کمانڈر کانفرنس میں جو فیصلے ہوئے ہیں نیشنل سکیو رٹی کمیٹی ،حکومت اور پارلیمان اس کے ساتھ کھڑے ہوںگے۔
نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کابینہ اور پارلیمان ان فیصلوں کے توثیق کر دے گی۔ بلکہ ان پر عمل کی راہ میں اگر کوئی قانونی رکاوٹیں ہوںگی تو وہ بھی دور کر دی جائیں گی۔ اس لیے اس اعلامیہ کو حکومت اور پارلیمان کی حمایت حاصل ہے، اس میں کوئی ابہام نہیں۔
کور کمانڈرز کانفرنس کے اعلامیہ میں سیاسی شرپسندوں کی جانب سے کی گئی جلاؤ گھیراؤ اور فوجی تنصیبات پر حملوں کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی گئی ہے، لیکن بات اگر مذمت تک رہتی تو کوئی خبر نہیں تھی۔ تا ہم بات آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ تک جا پہنچی ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ آرمی کے رینک اینڈ فائل میں عسکری تنصیبات کے نقصانات اور جلاؤ گھیراؤ پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والے افراد کو پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل کے ذریعے انصاف کے کٹہرے میں لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ فوج کے پاس ناقابلِ تردید شواہد کے ساتھ افواجِ پاکستان پر ان حملوں کے منصوبہ سازوں، اُکسانے والوں اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے والے تمام مجرموں کی تفصیل وجود ہے۔
کورکمانڈر کانفرنس کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ کور کمانڈر کانفرنس میں گزشتہ دنوں کے دوران امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا جسے ایک سیاسی جماعت کی قیادت نے محض اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا۔ کسی بھی حلقے کی جانب سے قیامِ امن و امان کے لیے رکاوٹ ڈالنے والوں سے آ ہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔
اعلامیہ کے مطابق کانفرنس میں بریفنگ کے دوران فورم کو آگاہ کیا گیا کہ شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی، تاریخی عمارتوں کو نذرِ آتش کرنے اور فوجی تنصیبات کی توڑ پھوڑ پر مشتمل ایک مربوط منصوبے پر عمل درآمد کرایا گیا تاکہ ادارے کی بدنامی ہو سکے جب کہ یہ سارا عمل ایک ذاتی سیاسی ایجنڈے کے حصول کے لیے تھا۔اعلامیہ کے مطابق آرمی چیف نے اس سارے معاملے پر فوجی فارمیشنز کی جانب سے تحمل اور پختہ ردِ عمل کو سراہا تا ہم یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسی بھی ایجنڈے کے تحت فوجی تنصیبات اور مقامات پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ آیندہ کوئی رعایت نہیں کی جائے گی۔ مطلب تحمل کا مظاہرہ اس کے بعد نہیں کیا جائے گا۔
کور کمانڈر ز نے بیرونی طور پر سپانسر شدہ اور اندرونی سہولت یافتہ عناصر کے منظم پروپیگنڈہ پر بھی شدید تشویش کا اظہارکیا۔ کہا گیا ہے کہ شرمناک پروپیگنڈہ کا مقصد مسلح افواج اور پاکستان کی عوام کے درمیان خلیج جب کہ مسلح افواج کے رینک اینڈ فائل کے اندر دراڑ پیدا کرنا ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ دُشمن قوتوں کے شیطانی پروپیگنڈہ کو عوام کی حمایت سے شکست دی جائے گی۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا پاک فوج ان مقدمات کو آرمی ایکٹ کے تحت چلانے میں کامیاب ہوگی؟ کیا ہماری عدلیہ اس کی راہ میں رکاوٹ بنے گی؟ کیا جب تحریک انصاف کے رہنماؤں بالخصوص عمران خان کو آرمی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا جائے گاتو انھیں ضمانت دے دی جائے گی۔
کیا عدلیہ ملٹری کورٹس کی کارروائی کے خلاف حکم امتناعی جاری کر دے گی؟ کیا تحریک انصاف کی ان مقدمات کو آرمی ایکٹ کے تحت درج کرنے اور ملٹری کورٹس میں ٹرائل کو روکنے کی استد عا منظور کی جائے گی؟ کیا عدلیہ خاموش رہے گی؟ کیا عدلیہ کوئی رول ادا کرے گی؟ میں سمجھتا ہوں یہ اہم سوالات ہیں۔ جن کا جواب سب جاننا چاہتے ہیں۔
کیا چیف جسٹس پاکستان نے جیسے عمران خان کو نیب کی حراست سے رہا کیا ہے، ویسے ہی عمران خان کو حراست سے بھی رہا کرائیں گے۔ کیا عدالتیں عمران خان کو جیسے اب ضمانتیں دے رہی ہیں کیا، آرمی ایکٹ کے مقدمات میں بھی ایسے ہی ضمانتیں دی جائیں گے۔ یہی سوال تحریک انصاف کی دیگر قیادت کے لیے بھی ہیں۔
پہلا سوال یہ ہے کہ کیا عدلیہ قانون اور آئین کے تحت ایسا کر سکتی ہے؟ ایک عمومی رائے یہی ہے کہ ملٹری کورٹس کے معاملات میں سول عدالتیں مداخلت نہیں کرتی ہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ دلیل ہے کہ ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل نہیں ہو سکتا۔ لیکن پھر ایسی مثالیں بھی سامنے آجاتی ہیں جہاں سویلین کو ملٹری کورٹس میں ٹرائل کیا گیا ہے۔ تب تو ہماری عدالتوں نے مداخلت نہیں کی ۔ اب کیوں کریں گی۔ کیا مداخلت صرف عمران خان کے لیے ہی ہے۔
تحر یک انصاف کی قیادت عجیب منطق پیش کر رہی ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم تو وہاں کھڑے لوگوں کو روک رہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ آپ وہاں موجود ہی کیوں تھے؟ آپ نے فوجی تنصیبات کے سامنے احتجاج کا منصوبہ ہی کیوں بنایا؟ یہ کیاپلاننگ تھی کہ فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا جائے گا، آپ کی وہاں موجودگی ہی یہ ثابت کرتی ہے کہ آپ فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانا چاہتے تھے۔
جب آپ اپنے مظاہرین کو وہاں لے گئے تو پھر آپ نے ان کو کھلی چھٹی دے دی اور آپ لوگ کھڑے ہو کر تماشہ دیکھتے رہے۔ بعدازاں جو آڈیوز سامنے آئی ہیں، وہ بتا رہی ہیں کہ آپ کو دکھ نہیں تھا بلکہ آپ اس کو اپنی فتح کے طور پر پیش کر رہے تھے۔ آپ کے لیڈر فخر سے بتا رہے تھے کہ ہم نے کور کمانڈر کے گھر کو آگ لگا دی ہے۔ سامان لوٹ لیاہے۔
فوج کے سیاسی کردار پر احتجاج ہوتے رہے ہیں۔ فوج کے دور آمریت میں بھی جمہوریت کی بحالی کے لیے احتجاج ہوتے رہے ہیں۔ فوجی آمریت کے خلاف بڑی بڑی تحریکیں چلی ہیں۔ لوگوں نے جمہوریت کی بحالی کے لیے خود کو آگ بھی لگائی ہے۔ لیکن کبھی فوجی تنصیبات کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔
کبھی جی ایچ کیو کا گیٹ نہیں توڑ ا گیا۔ کبھی حساس اداروں کے دفاتر کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔ یہ احتجاج کی کون سے شکل تھی جو تحریک انصاف کرنے چلی تھی۔ کیا عوا م اور فوج کو لڑانے کی کوشش تھی جو ناکام ہو گئی۔ اس لیے میری رائے میں اس پر سخت ایکشن ہونا چاہیے۔ کیونکہ اگر آج کوئی ا یکشن نہ ہوا تو کل کسی اور کو بھی یہ جرات ہوگی۔ ویسے ہی پہلے بھی یہ موازنہ ہورہا ہے کہ چھوٹے صوبے کے ڈومیسائل میں فرق نہیں ہونا چاہیے۔