تمام ادارے متنازعہ
تمام اداروں کے متنازعہ ہونے سے بحران مزید شدید ہوتا جا رہا ہے
ملک انتشارکا شکار ہو رہا ہے، ہر ادارہ متنازعہ ہو رہا ہے۔ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی اپنی جماعت کے جنگجو کارکنوں کے دفاع میں سرگرم ہوگئے ہیں۔
صدر عارف علوی نے گزشتہ ہفتہ تحریک انصاف کے کارکنوں کے فوجی تنصیبات پر حملوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ '' عمران سے بدسلوکی کی بناء پر کارکن جذباتی ہوگئے تھے۔'' انھوں نے وزیر اعظم شہباز شریف کے نام ایک خط میں کہا ہے کہ عمران خان پر قاتلانہ حملہ کی وجہ سے ٹانگ زخمی ہونے کے باوجود سیکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے انھیں گھسیٹا گیا۔
یہ دردناک واقعہ مسلح افواج کی عمارتوں سمیت عوامی املاک پر ہجوم کے حملوں کے باعث تھا۔ ڈاکٹر عارف علوی نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ عوام کو احتجاج کا حق ہے مگر یہ احتجاج پر امن ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر عارف علوی کی طرح عمران خان نے سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کے جنگجوؤں کے پر تشدد حملوں کی مذمت کرنے سے انکار کیا۔ انھوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے ان ہنگاموں کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا۔ اس دور میں خواجہ آصف واحد سیاست دان ہیں جنھوں نے پولیس کی کارروائی پر عثمان ڈار کی والدہ سے معذرت کی۔
تحریک انصاف نے آئی ایس پی آر کے 10 مئی کے بیان کو مقبول سیاسی جماعت کے خلاف نفرت اور انتقام پر مبنی بیانیہ قرار دیا۔ پی ٹی آئی کے مرکزی میڈیا ڈپارٹمنٹ کے جوابی اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ 9مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے چیئرمین عمران خان کے اغواء کے بعد عوامی ردعمل کئی عوامل سے جڑا ہے۔ یوں گزشتہ ہفتہ سیاسی ہنگاموں میں 10 افراد جاں بحق ہوئے اور اب تک 1 ہزار کے قریب افراد کو گرفتار کیا گیا۔
حکام نے 9 مئی سے انٹرنیٹ پر پابندی لگا دی۔ اس پابندی کا مقصد لوگوں کے احتجاج اور پولیس کی کارروائی کو براہِ راست سوشل میڈیا پر وائرل ہونے سے روکنا تھا۔ انٹرنیٹ سروس بند ہونے سے ملک کو اسی کروڑ روپے کے قریب کا نقصان ہوا۔
برطانیہ اور امریکا نے عمران خان کی گرفتاری کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا مگر امریکی سینیٹ کی ایک اہم کمیٹی نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ انٹر نیٹ سروس فوری طور پر بحال کی جائے۔ سینیٹ کی خارجہ امورکی کمیٹی کا ایک بیان جو سرکاری سوشل میڈیا پر وائرل ہوا، میں کہا گیا ہے کہ حکومت پاکستان انٹرنیٹ سروس بحال کرے اور احتجاج کرنے والے افراد کے خلاف کارروائی نہ کی جائے۔
امریکی سینیٹروں نے امریکی حکومت سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ حکومت پاکستان سے پوچھا جائے کہ ملک میں عام انتخابات کب ہونگے؟ اس گھمبیر صورتحال میں پیپلز پارٹی کے چیئر پرسن بلاول بھٹو نے کراچی میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ کسی جماعت پر پابندی کے حق میں نہیں ہیں۔
ان کا بیانیہ ہے کہ پی ٹی آئی کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ سیاسی جماعت بن کر چلنا چاہتی ہے یا شرپسند تنظیم۔ بلاول بھٹو زرداری نے ایک اور معقول بات کی کہ انھیں کسی سیاست دان کی گرفتاری پر کوئی خوشی نہیں ہوتی، اگرچہ عدالتیں عمران خان اور ان کے حامیوں کی داد رسی کے لیے دن رات تیار رہتی ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے عدالت میں عمران خان کو خوش آمدید کہنے، فوری ضمانت پر رہائی کا حکم دینے اور پھر اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے تمام مقدمات میں عمران خان کی ضمانت قبول کرنے کے فیصلوں سے عدالت پر عدم اعتماد بڑھتا جا رہا ہے۔
ایک وکیل کا کہنا ہے کہ گوادر کے جماعت اسلامی کے رہنما مولانا ہدایت الرحمٰن چھ ماہ سے ضمانت کا انتظار کر رہے ہیں مگر کسی کو ہدایت الرحمٰن کی گرفتاری نظر نہیں آتی۔ اس صورتحال میں پی ڈی ایم کو سپریم کورٹ کے سامنے مظاہرہ کا فیصلہ کرنا پڑا ہے۔ قومی اسمبلی نے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے خلاف ریفرنس پیش کرنے کی قرار داد منظور کر لی ہے، اگر صدر نے اس ریفرنس کو منظور نہ کیا تو صورتحال کسی اور سمت جائے گی۔
کچھ صحافیوں کا کہنا ہے کہ عمران خان سابق فوجی افسران کا پروجیکٹ تھا جو اب اختتام کو پہنچ رہا ہے مگر سیاسی تاریخ کے طالب علموں کا کہنا ہے کہ کوئی سیاسی رویہ اگر کسی بھی وجہ سے تقویت پا جائے۔ اس کو عوام کے ایک حصہ کی حمایت حاصل ہو جائے تو پھر یہ سیاسی رویہ محض امتناعی قوانین اور انتظامی اقدامات سے ختم نہیں ہوتا۔
عمران خان نے اس خوف کا اظہارکیا ہے کہ تحریک انصاف پر پابندی عائد کی جا رہی ہے اور انھیں بغاوت کے الزام میں گرفتار کر کے دس سال تک قید رکھا جائے گا۔ عمران خان کے اس خوف میں کتنی حقیقت ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر ماضی میں سیاسی جماعتوں پر پابندی کے منفی اثرات برآمد ہوئے۔
تحریک انصاف کی بنیادی طاقت نوجوان ہیں جن میں سے بیشتر کا تعلق شہروں سے ہے۔ یہ نوجوان جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں نافذ نصاب کو پڑھ کر جوان ہوئے ہیں اور سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے پیغامات کی بناء پر عمران کا تصور ایک مافوق الفطرت شخصیت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی میں انھیں عمران خان ہی مسیحا نظر آتا ہے۔
یورپ اور امریکا میں آباد پاکستانی جو ہر سیاست دان کو کرپٹ سمجھتے ہیں اور ان کے نزدیک سب سے ایماندار شخص عمران خان ہے۔ یہ لوگ عمران خان کے ملک میں جنت بنانے کے دعوؤں پر یقین رکھتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ بہت سارے لبرل عمران خان کے قدامت پرستانہ رویہ کے باوجود ان کو ہیرو جانتے ہیں۔ عمران خان کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد کا تعلق خیبر پختون خوا سے ہے۔
یہ لوگ طالبان کے نظام کو حقیقی اسلامی نظام سمجھتے ہیں اور عمران خان کے طالبان کی حمایت کی بناء پر ان کی حمایت کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ایک جنگجو گروپ بھی شامل ہیں جو اب بھی عمران خان کے امریکی مخالف بیانیہ پر یقین رکھتے ہیں۔
ان لوگوں نے مختلف شہروں میں تشدد کی کارروائیوں میں حصہ لیا تھا، مگر انسانی حقوق کے کارکنوں کے لیے یہ خبر تشویش کا باعث ہے کہ فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث افراد کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلائے جائیں گے، اگر واقعی ایسا ہوا تو آئین میں درج انسانی حقوق کا باب کہیں کھو جائے گا اور مستقبل میں پبلک اسپیس اور کم ہوجائے گی۔
ایسے افراد کے خلاف دہشت گردی کی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ تمام اداروں کے متنازعہ ہونے سے بحران مزید شدید ہوتا جا رہا ہے۔ اس پر آشوب صورتحال میں مصالحت کرانے والا کوئی نہیں اور یہ اس ملک کا المیہ ہے۔
صدر عارف علوی نے گزشتہ ہفتہ تحریک انصاف کے کارکنوں کے فوجی تنصیبات پر حملوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ '' عمران سے بدسلوکی کی بناء پر کارکن جذباتی ہوگئے تھے۔'' انھوں نے وزیر اعظم شہباز شریف کے نام ایک خط میں کہا ہے کہ عمران خان پر قاتلانہ حملہ کی وجہ سے ٹانگ زخمی ہونے کے باوجود سیکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے انھیں گھسیٹا گیا۔
یہ دردناک واقعہ مسلح افواج کی عمارتوں سمیت عوامی املاک پر ہجوم کے حملوں کے باعث تھا۔ ڈاکٹر عارف علوی نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ عوام کو احتجاج کا حق ہے مگر یہ احتجاج پر امن ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر عارف علوی کی طرح عمران خان نے سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کے جنگجوؤں کے پر تشدد حملوں کی مذمت کرنے سے انکار کیا۔ انھوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے ان ہنگاموں کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا۔ اس دور میں خواجہ آصف واحد سیاست دان ہیں جنھوں نے پولیس کی کارروائی پر عثمان ڈار کی والدہ سے معذرت کی۔
تحریک انصاف نے آئی ایس پی آر کے 10 مئی کے بیان کو مقبول سیاسی جماعت کے خلاف نفرت اور انتقام پر مبنی بیانیہ قرار دیا۔ پی ٹی آئی کے مرکزی میڈیا ڈپارٹمنٹ کے جوابی اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ 9مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے چیئرمین عمران خان کے اغواء کے بعد عوامی ردعمل کئی عوامل سے جڑا ہے۔ یوں گزشتہ ہفتہ سیاسی ہنگاموں میں 10 افراد جاں بحق ہوئے اور اب تک 1 ہزار کے قریب افراد کو گرفتار کیا گیا۔
حکام نے 9 مئی سے انٹرنیٹ پر پابندی لگا دی۔ اس پابندی کا مقصد لوگوں کے احتجاج اور پولیس کی کارروائی کو براہِ راست سوشل میڈیا پر وائرل ہونے سے روکنا تھا۔ انٹرنیٹ سروس بند ہونے سے ملک کو اسی کروڑ روپے کے قریب کا نقصان ہوا۔
برطانیہ اور امریکا نے عمران خان کی گرفتاری کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا مگر امریکی سینیٹ کی ایک اہم کمیٹی نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ انٹر نیٹ سروس فوری طور پر بحال کی جائے۔ سینیٹ کی خارجہ امورکی کمیٹی کا ایک بیان جو سرکاری سوشل میڈیا پر وائرل ہوا، میں کہا گیا ہے کہ حکومت پاکستان انٹرنیٹ سروس بحال کرے اور احتجاج کرنے والے افراد کے خلاف کارروائی نہ کی جائے۔
امریکی سینیٹروں نے امریکی حکومت سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ حکومت پاکستان سے پوچھا جائے کہ ملک میں عام انتخابات کب ہونگے؟ اس گھمبیر صورتحال میں پیپلز پارٹی کے چیئر پرسن بلاول بھٹو نے کراچی میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ کسی جماعت پر پابندی کے حق میں نہیں ہیں۔
ان کا بیانیہ ہے کہ پی ٹی آئی کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ سیاسی جماعت بن کر چلنا چاہتی ہے یا شرپسند تنظیم۔ بلاول بھٹو زرداری نے ایک اور معقول بات کی کہ انھیں کسی سیاست دان کی گرفتاری پر کوئی خوشی نہیں ہوتی، اگرچہ عدالتیں عمران خان اور ان کے حامیوں کی داد رسی کے لیے دن رات تیار رہتی ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے عدالت میں عمران خان کو خوش آمدید کہنے، فوری ضمانت پر رہائی کا حکم دینے اور پھر اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے تمام مقدمات میں عمران خان کی ضمانت قبول کرنے کے فیصلوں سے عدالت پر عدم اعتماد بڑھتا جا رہا ہے۔
ایک وکیل کا کہنا ہے کہ گوادر کے جماعت اسلامی کے رہنما مولانا ہدایت الرحمٰن چھ ماہ سے ضمانت کا انتظار کر رہے ہیں مگر کسی کو ہدایت الرحمٰن کی گرفتاری نظر نہیں آتی۔ اس صورتحال میں پی ڈی ایم کو سپریم کورٹ کے سامنے مظاہرہ کا فیصلہ کرنا پڑا ہے۔ قومی اسمبلی نے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے خلاف ریفرنس پیش کرنے کی قرار داد منظور کر لی ہے، اگر صدر نے اس ریفرنس کو منظور نہ کیا تو صورتحال کسی اور سمت جائے گی۔
کچھ صحافیوں کا کہنا ہے کہ عمران خان سابق فوجی افسران کا پروجیکٹ تھا جو اب اختتام کو پہنچ رہا ہے مگر سیاسی تاریخ کے طالب علموں کا کہنا ہے کہ کوئی سیاسی رویہ اگر کسی بھی وجہ سے تقویت پا جائے۔ اس کو عوام کے ایک حصہ کی حمایت حاصل ہو جائے تو پھر یہ سیاسی رویہ محض امتناعی قوانین اور انتظامی اقدامات سے ختم نہیں ہوتا۔
عمران خان نے اس خوف کا اظہارکیا ہے کہ تحریک انصاف پر پابندی عائد کی جا رہی ہے اور انھیں بغاوت کے الزام میں گرفتار کر کے دس سال تک قید رکھا جائے گا۔ عمران خان کے اس خوف میں کتنی حقیقت ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر ماضی میں سیاسی جماعتوں پر پابندی کے منفی اثرات برآمد ہوئے۔
تحریک انصاف کی بنیادی طاقت نوجوان ہیں جن میں سے بیشتر کا تعلق شہروں سے ہے۔ یہ نوجوان جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں نافذ نصاب کو پڑھ کر جوان ہوئے ہیں اور سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے پیغامات کی بناء پر عمران کا تصور ایک مافوق الفطرت شخصیت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی میں انھیں عمران خان ہی مسیحا نظر آتا ہے۔
یورپ اور امریکا میں آباد پاکستانی جو ہر سیاست دان کو کرپٹ سمجھتے ہیں اور ان کے نزدیک سب سے ایماندار شخص عمران خان ہے۔ یہ لوگ عمران خان کے ملک میں جنت بنانے کے دعوؤں پر یقین رکھتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ بہت سارے لبرل عمران خان کے قدامت پرستانہ رویہ کے باوجود ان کو ہیرو جانتے ہیں۔ عمران خان کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد کا تعلق خیبر پختون خوا سے ہے۔
یہ لوگ طالبان کے نظام کو حقیقی اسلامی نظام سمجھتے ہیں اور عمران خان کے طالبان کی حمایت کی بناء پر ان کی حمایت کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ایک جنگجو گروپ بھی شامل ہیں جو اب بھی عمران خان کے امریکی مخالف بیانیہ پر یقین رکھتے ہیں۔
ان لوگوں نے مختلف شہروں میں تشدد کی کارروائیوں میں حصہ لیا تھا، مگر انسانی حقوق کے کارکنوں کے لیے یہ خبر تشویش کا باعث ہے کہ فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث افراد کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلائے جائیں گے، اگر واقعی ایسا ہوا تو آئین میں درج انسانی حقوق کا باب کہیں کھو جائے گا اور مستقبل میں پبلک اسپیس اور کم ہوجائے گی۔
ایسے افراد کے خلاف دہشت گردی کی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ تمام اداروں کے متنازعہ ہونے سے بحران مزید شدید ہوتا جا رہا ہے۔ اس پر آشوب صورتحال میں مصالحت کرانے والا کوئی نہیں اور یہ اس ملک کا المیہ ہے۔