حکومت کب تک انھیں پالے گی
حکومت نج کاری نہ ہونے کی وجہ سے مسلسل نقصان اٹھا کر ان اداروں کو پال رہی ہے
ایک اخباری خبر کے مطابق حکومت کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ نقصان میں جانے والے سرکاری اداروں کی نج کاری پالیسی پر دوبارہ عمل شروع کرے،کیونکہ 2006 کے بعد سے اسٹیل ملز کی نج کاری روکے جانے کے بعد سے بند ہے جس کی وجہ سے 84 سرکاری اداروں کے مسلسل نقصان میں جانے کی وجہ سے قومی خزانے کو ایک ٹریلین روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔
حکومت نج کاری نہ ہونے کی وجہ سے مسلسل نقصان اٹھا کر ان اداروں کو پال رہی ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے فیصلے کے مطابق اسٹیل ملز کی نج کاری منسوخ ہونے کے بعد بیورو کریسی نج کاری میں دلچسپی نہیں لے رہی کیونکہ سیاسی محرکات بھی نج کاری رک جانے کی ایک اہم وجہ ہے جب بھی حکومت نے نج کاری کی کوشش کی اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے اپنی سیاست چمکانے کے لیے حکومتی فیصلوں کی مخالفت کی اور نج کاری روکنے کے لیے عدالتوں سے بھی رجوع کیا اور نجکاری شفاف نہ ہونے کے مبینہ الزامات لگا کر حکومت کو نجکاری نہیں کرنے دی اور حکومت مسلسل نقصان میں جانے والے سرکاری اداروں کو پال رہی ہے۔
پاکستان کا ایک اہم سرکاری ادارہ کراچی میں واقع اسٹیل ملز سالوں سے بند ہے اور ملازموں کو گھر بیٹھے وفاقی حکومت تنخواہیں دے رہی ہے جو باقاعدگی سے تو نہیں مل رہیں اور حکومت خصوصی طور پر اس سلسلے میں بڑی رقم مخصوص کرکے تنخواہ دیتی آ رہی ہے، جو ملازم ڈیوٹی پر نہیں آتے وہ متبادل ملازمت بھی حاصل کرچکے ہیں یا ذاتی کاروبار کرکے اپنے گھر چلا رہے ہیں۔
انھیں فارغ بھی نہیں کیا جا رہا جنھوں نے سالوں تک اسٹیل ملز میں ڈیوٹیاں دی ہیں اب وہ گھر بیٹھے ہیں جب کہ بڑی تعداد اسٹیل ملز کی مشینری، املاک اور دیگر سامان کی حفاظت کے لیے مامور ہے اور کرپٹ ملازم اسٹیل ملز کے سامان کی چوری میں بھی ملوث ہیں۔ متعدد چوریاں پکڑی بھی گئی ہیں اور مقدمات بھی درج ہوئے ہیں ،کروڑوں روپے کا سامان چوری ہو چکا ہے اور لوہے کی بند مشینری کو زنگ الگ لگ رہا ہے۔
اسٹیل ملز کو اس صورت حال پر پہنچانے اور بند کرانے میں سیاست کا بھی اہم کردار ہے اور اسٹیل ملز کے چیئرمین سمیت اعلیٰ افسروں اور ملازمین کی اکثریت کا بھی کردار ہے جنھوں نے اسٹیل ملز کو اس حال میں پہنچایا ہے۔ اسٹیل ملز کی یونینوں میں سیاسی عہدیداروں نے ملز کے بجائے اپنے سیاسی اور مالی مفادات کو ترجیح دی جس سے اسٹیل ملز میں نقصانات شروع ہوئے پیداوار پہلے متاثر پھر مکمل بند ہوئی اور اب تک اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔
ملازمین کو فارغ کرنے کی صورت میں اسٹیل ملز انتظامیہ ملازمین کو سرکاری طور پر ان کے واجبات ادا کرنے کی پابند ہے، جس کے لیے رقم موجود نہیں، اس لیے ملازمین کو فارغ نہیں کیا جاسکا اور وفاقی حکومت اپنے بجٹ سے رقم نکال کر کچھ نہ کچھ تنخواہیں دے رہی ہے اور بند اسٹیل ملز سفید ہاتھی کی طرح حکومت پر مستقل بوجھ بنا ہوا ہے۔اس وقت وفاقی حکومت کی ملکیت میں 212 ادارے شامل ہیں۔
جن میں تجارتی نوعیت کے 84 سرکاری ادارے بھی شامل ہیں اور مسلسل نقصان میں جا رہے ہیں مگر حکومت ان کی نجکاری نہیں کر رہی۔ لگتا ہے کہ ٹریٹ لیبرائزیشن اور ٹیکنالوجیکل ایڈوانسٹمنٹس میں متوازی ترقی کی وجہ سے نجکاری کی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی اور حکومت ہر ماہ مالی نقصان اٹھانے کو ترجیح دے رہی ہے جو قومی خزانے کے لیے بڑا نقصان ہے۔ سندھ حکومت نے اسٹیل ملز چلانے میں پہلے دلچسپی لی تھی مگر حقائق اور بڑے نقصانات کا علم ہونے پر پیچھے ہٹ گئی اور دوبارہ دلچسپی ظاہر ہی نہیں کی گئی۔
اسٹیل ملز میں نقصانات کی وجہ برسر اقتدار سیاسی جماعتوں کی حکومتیں بھی ہیں جنھوں نے ضرورت سے زیادہ سیاسی بھرتیاں کرکے اسٹیل ملز کو تباہ کرایا۔ 2006 میں اگر اسٹیل ملز کی نجکاری ہو جاتی تو 17 سالوں سے یہ ملز حکومت کے لیے مالی نقصانات کا باعث نہ بنتی اور چل رہی ہوتی لیکن اس وقت کے چیف جسٹس نے غیر ضروری مداخلت کرکے نجکاری نہیں ہونے دی تھی جس کی سزا ملک و قوم کو مل رہی ہے اور یہ صورت حال پیدا کرنے والوں کو کیا فکر ،ان کے معاملات زندگی تو چل رہے ہیں جب کہ ملز بند رہنے سے ملز ملازمین نجکاری نہ ہونے کی سزا بھگت رہے ہیں۔
اتحادی حکومت اگر نجکاری کرے گی تو پی ٹی آئی نے حکومتی فیصلوں کی مخالفت کرنی ہی ہے اگر حکومت خاموش رہتی ہے تو مالی خسارہ بڑھتا جائے گا مگر ملکی مفاد کی خاطر نجکاری پر مخالفت ترک نہیں کی جائے گی اور لگتا ہے کہ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا اور اپنی سیاست کی خاطر حقائق کے مطابق فیصلے ہوں گے نہ سرکاری اداروں کی نجکاری ہو سکے گی۔
حکومت نج کاری نہ ہونے کی وجہ سے مسلسل نقصان اٹھا کر ان اداروں کو پال رہی ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے فیصلے کے مطابق اسٹیل ملز کی نج کاری منسوخ ہونے کے بعد بیورو کریسی نج کاری میں دلچسپی نہیں لے رہی کیونکہ سیاسی محرکات بھی نج کاری رک جانے کی ایک اہم وجہ ہے جب بھی حکومت نے نج کاری کی کوشش کی اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے اپنی سیاست چمکانے کے لیے حکومتی فیصلوں کی مخالفت کی اور نج کاری روکنے کے لیے عدالتوں سے بھی رجوع کیا اور نجکاری شفاف نہ ہونے کے مبینہ الزامات لگا کر حکومت کو نجکاری نہیں کرنے دی اور حکومت مسلسل نقصان میں جانے والے سرکاری اداروں کو پال رہی ہے۔
پاکستان کا ایک اہم سرکاری ادارہ کراچی میں واقع اسٹیل ملز سالوں سے بند ہے اور ملازموں کو گھر بیٹھے وفاقی حکومت تنخواہیں دے رہی ہے جو باقاعدگی سے تو نہیں مل رہیں اور حکومت خصوصی طور پر اس سلسلے میں بڑی رقم مخصوص کرکے تنخواہ دیتی آ رہی ہے، جو ملازم ڈیوٹی پر نہیں آتے وہ متبادل ملازمت بھی حاصل کرچکے ہیں یا ذاتی کاروبار کرکے اپنے گھر چلا رہے ہیں۔
انھیں فارغ بھی نہیں کیا جا رہا جنھوں نے سالوں تک اسٹیل ملز میں ڈیوٹیاں دی ہیں اب وہ گھر بیٹھے ہیں جب کہ بڑی تعداد اسٹیل ملز کی مشینری، املاک اور دیگر سامان کی حفاظت کے لیے مامور ہے اور کرپٹ ملازم اسٹیل ملز کے سامان کی چوری میں بھی ملوث ہیں۔ متعدد چوریاں پکڑی بھی گئی ہیں اور مقدمات بھی درج ہوئے ہیں ،کروڑوں روپے کا سامان چوری ہو چکا ہے اور لوہے کی بند مشینری کو زنگ الگ لگ رہا ہے۔
اسٹیل ملز کو اس صورت حال پر پہنچانے اور بند کرانے میں سیاست کا بھی اہم کردار ہے اور اسٹیل ملز کے چیئرمین سمیت اعلیٰ افسروں اور ملازمین کی اکثریت کا بھی کردار ہے جنھوں نے اسٹیل ملز کو اس حال میں پہنچایا ہے۔ اسٹیل ملز کی یونینوں میں سیاسی عہدیداروں نے ملز کے بجائے اپنے سیاسی اور مالی مفادات کو ترجیح دی جس سے اسٹیل ملز میں نقصانات شروع ہوئے پیداوار پہلے متاثر پھر مکمل بند ہوئی اور اب تک اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔
ملازمین کو فارغ کرنے کی صورت میں اسٹیل ملز انتظامیہ ملازمین کو سرکاری طور پر ان کے واجبات ادا کرنے کی پابند ہے، جس کے لیے رقم موجود نہیں، اس لیے ملازمین کو فارغ نہیں کیا جاسکا اور وفاقی حکومت اپنے بجٹ سے رقم نکال کر کچھ نہ کچھ تنخواہیں دے رہی ہے اور بند اسٹیل ملز سفید ہاتھی کی طرح حکومت پر مستقل بوجھ بنا ہوا ہے۔اس وقت وفاقی حکومت کی ملکیت میں 212 ادارے شامل ہیں۔
جن میں تجارتی نوعیت کے 84 سرکاری ادارے بھی شامل ہیں اور مسلسل نقصان میں جا رہے ہیں مگر حکومت ان کی نجکاری نہیں کر رہی۔ لگتا ہے کہ ٹریٹ لیبرائزیشن اور ٹیکنالوجیکل ایڈوانسٹمنٹس میں متوازی ترقی کی وجہ سے نجکاری کی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی اور حکومت ہر ماہ مالی نقصان اٹھانے کو ترجیح دے رہی ہے جو قومی خزانے کے لیے بڑا نقصان ہے۔ سندھ حکومت نے اسٹیل ملز چلانے میں پہلے دلچسپی لی تھی مگر حقائق اور بڑے نقصانات کا علم ہونے پر پیچھے ہٹ گئی اور دوبارہ دلچسپی ظاہر ہی نہیں کی گئی۔
اسٹیل ملز میں نقصانات کی وجہ برسر اقتدار سیاسی جماعتوں کی حکومتیں بھی ہیں جنھوں نے ضرورت سے زیادہ سیاسی بھرتیاں کرکے اسٹیل ملز کو تباہ کرایا۔ 2006 میں اگر اسٹیل ملز کی نجکاری ہو جاتی تو 17 سالوں سے یہ ملز حکومت کے لیے مالی نقصانات کا باعث نہ بنتی اور چل رہی ہوتی لیکن اس وقت کے چیف جسٹس نے غیر ضروری مداخلت کرکے نجکاری نہیں ہونے دی تھی جس کی سزا ملک و قوم کو مل رہی ہے اور یہ صورت حال پیدا کرنے والوں کو کیا فکر ،ان کے معاملات زندگی تو چل رہے ہیں جب کہ ملز بند رہنے سے ملز ملازمین نجکاری نہ ہونے کی سزا بھگت رہے ہیں۔
اتحادی حکومت اگر نجکاری کرے گی تو پی ٹی آئی نے حکومتی فیصلوں کی مخالفت کرنی ہی ہے اگر حکومت خاموش رہتی ہے تو مالی خسارہ بڑھتا جائے گا مگر ملکی مفاد کی خاطر نجکاری پر مخالفت ترک نہیں کی جائے گی اور لگتا ہے کہ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا اور اپنی سیاست کی خاطر حقائق کے مطابق فیصلے ہوں گے نہ سرکاری اداروں کی نجکاری ہو سکے گی۔