’’ گڈ ۔ٹو۔ سی ۔یو‘‘
ایک مخصوص بنچ نے بہت زیادہ مقدمات سنے اور فیصلے دیتے ہیں‘ اسی وجہ سے شکوک و شبہات نے جنم لیا
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی جانب سے عمران خان کو گڈ ٹو سی یو کہنے پر ایک سیاسی تنازعہ پیدا ہوا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے سیاسی تنازعہ پیدا ہونے کے بعد ایک اور مقدمے میں ایک وکیل کو گڈ ٹو سی یو کہتے ہوئے کہا ہے کہ میں تو سب کو جو بھی میری عدالت میںپیش ہوتا ہے اس کو ایسے ہی خوش آمدید کہتا ہوں۔
میں سب کو عزت دیتا ہوں۔ اس میں تنازعہ پیدا کرنے والی کوئی بات نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اعتراض کرنیوالوں کا اعتراض درست ہے یا محترم چیف جسٹس کی وضاحت درست ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا چیف جسٹس پاکستان اپنی عدالت میں پیش ہونے والے کسی ملزم کو گڈ ٹو سی یو کہہ سکتے ہیں؟ کیا کسی وکیل کو گڈ ٹو سی یو کہنا اور ایک ملزم کو گڈ ٹو سی یو کہنا ایک ہی بات ہے؟ یہ بھی توجیح پیش کی جا رہی ہے کہ اس سے پہلے جو سیاستدان چیف جسٹس پاکستان کی عدالت میں پیش ہوئے ہیں' چیف جسٹس ان سب کے ساتھ عزت اور احترام سے پیش آئے ہیں۔
لیکن بلاول بھٹو، سراج الحق سمیت دیگر سیاستدان جب چیف جسٹس پاکستان کی عدالت میں پیش ہوئے تو وہ کوئی ملزم نہیں تھے۔ نہ ہی وہ ضمانت حاصل کرنے کے لیے آئے تھے جب کہ عمران خان عدالت کے سامنے بطور ملزم تھے' اس لیے موازنہ درست نہیں ہے۔ بلاول بھٹو ایک آئینی درخواست میں پیش ہوئے تھے' سراج الحق عدالت کی معاونت کے لیے پیش ہوئے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی عدالتوں میں سارے ملزمان کو جج صاحبان ''گڈ ٹو سی یو'' کہہ کر پکارتے ہیں۔ میں نے پہلے بھی کئی بار لکھا ہے کہ عدالتی نظام کی بنیاد یکساں نظام انصاف پر قائم ہے۔ ہمارے عدالتی نظام کی بنیاد یہی ہے کہ گورے کو کالے پر، امیر کو غریب پر، اہم کو غیر اہم پر اور مقبول کو غیر مقبول پر کوئی ترجیح نہیں ہوگی۔
اس لیے کوئی معزز جج عمران خان کے ساتھ کسی بھی قسم کا ترجیحی سلوک نہیں کر سکتا۔ ان کا ترجیحی سلوک نظام انصاف کے بنیادی اصول یکساں نظام انصاف کی نفی ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج میاں گل حسن نے بھی آئی جی پنجاب کو دیکھ کر کہا ہے کہ ''گڈ ٹو سی یو'' یہ تو ایسے ہی لگتا ہے کہ جیسے سیاسی جماعت کے کارکن اپنے لیڈر کی غلطی کو جائز قرار دینے کے لیے وہ غلطی خود کرنے لگتے ہیں تا کہ اس کو جائز قرار دیا جا سکے۔
جب ملزم کو گڈ ٹو سی یو کہنے کی پاکستان کی عدالتوں میں کوئی روایت موجود نہیں۔ پھر عمران خان کو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے۔ اس لیے بہتر تو یہی تھا کہ وضاحت پیش کرنے کے بجائے چیف جسٹس اس کو اپنی غلطی مان لیتے۔ جج اگر اپنے ملزم کو پسند کرتا ہے تو اسے اس کا کیس نہیں سننا چاہیے۔
ججز کو اپنی پسند نا پسند کو انصاف پر حاوی نہیں کرنا چاہیے۔ اسی لیے ججز کو اپنے جاننے والوں کے کیس سننے سے منع کیا گیا۔اس لیے دوستوں کے کیس سننے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ یہ مانا جاتا ہے کہ آپ کو جن سے محبت ہوتی ہے آپ ان سے انصاف نہیں کر سکتے۔ اس لیے اگر چیف جسٹس پاکستان کی عمران خان کے لیے پسندیدگی ہے تو یہ کوئی بری بات نہیں۔ بس انھیں ان کا کیس نہیں سننا چاہیے۔ یہی انصاف کی بنیادی روح ہے۔
ضمانتوں کے حوالے سے بھی یہی تنازعہ ہے،اگر تو عدلیہ کا سب سیاستدانوں کی ضمانتوں کے حوالے سے یکساں سلوک ہوتا تو آج کوئی سوال نہ کر رہا ہوتا۔ لیکن جب ایک فریق کی ضمانت سال سال نہیں ہوتی تھی اور آج دوسرے فریق کو تھوک میں ضمانتیں دی جا رہی ہیں تو تنازعہ تو کھڑا ہوگا۔
ضمانتوں پر بھی یکساں سلوک نہ ہونا مسئلہ کی بڑی وجہ ہے۔ نظام انصاف کو سوچنا چاہیے کہ ملک میں ضمانتوں کے حوالے سے یکساں نظام کیوں نہیں ہے۔ ایک کو فوری اور ایک کو دیر سے کیوں ملتی ہیں۔ ضمانتوں نے پاکستان کے سیاسی منظر نامے کا سیاسی توازن خراب کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے سیاسی بحران بھی نظر آرہا ہے۔
جج جب کیس سن رہا ہو تو اس کی کسی بھی فریق کے لیے نہ تو پسندیدگی اور نہ ہی کسی کے لیے نا پسندیدگی ہونی چاہیے۔ نہ تو کسی سے محبت اور نہ ہی کسی سے نفرت ہونی چاہیے۔ اگر یہ ہے تو کیس نہیں سننا چاہیے۔ اس کے کسی بھی فریق کے لیے کوئی جذبات نہیں ہونے چاہیے۔
وہ فریقین کے لیے اجنبی ہو اور فریقین اس کے لیے اجنبی ہوں۔ اسی لیے جج صاحبان کو سیاسی اور دیگر تقریبات سے دور رہنے کی ہدایت کی جاتی ہے تا کہ وہ کسی سے خاص تعلقات نہ بنا سکیں۔
آج عدلیہ میدان سیاست میں ایک فریق کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔ عدلیہ کے نام پر سیاست ہو رہی ہے۔ جیسے پہلے فوج اور اسٹبلشمنٹ کے نام پر سیاست ہوتی تھی۔ آج عدلیہ کے نام پر سیاست ہو رہی ہے۔ ایک سیاسی فریق چیف جسٹس پاکستان کا استعفیٰ مانگ رہا ہے اور چیف جسٹس کے خلاف ریلیاں نکال رہا ہے۔ جب کہ دوسرا فریق چیف جسٹس زندہ باد اور چیف جسٹس کے حق میں ریلیاں نکال رہا ہے۔
یہ کوئی ا چھی صورتحال نہیں ہے ۔یہ صورتحال کوئی ایک دن میں نہیں بنی ہے۔ بلکہ ایک سال میں آہستہ آہستہ صورتحال اس حد تک خراب ہوئی ہے کہ اب چیف جسٹس پر سیاست ہو رہی ہے۔ وہ ہی سیاست کا محور ہیں۔
سوال یہ ہے کہ چیف جسٹس کیسے اس صورتحال کو ختم کر سکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ انھیں خود کو سیاسی مقدمات سے دور کر لینا چاہیے اور سپریم کورٹ کے ان ججز کو سیاسی مقدمات دینا شروع کرنا چاہیے جنھوں نے اب تک سیاسی مقدمات نہیں سنے ہیں۔
ایک مخصوص بنچ نے بہت زیادہ مقدمات سنے اور فیصلے دیتے ہیں' اسی وجہ سے شکوک و شبہات نے جنم لیا۔ جن سینئر ججز نے ابھی تک کوئی سیاسی کیس نہیں سنا اب انھیں موقع دینے کا وقت آگیا ہے۔ چیف جسٹس اب جتنے سیاسی کیس سنیں گے اتنی ہی مشکل میں پھنستے جائیں گے۔ ان کی اور ان کے بنچ کی سوچ سب کے سامنے آگئی ہے۔ اس صورتحال کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ فل کورٹ بھی صورتحال کو بہتر کر سکتا ہے۔ لیکن وضاحتیں صورتحال کو بہتر نہیں کریں گی۔ بلکہ وضاحتیں صورتحال کو مزید خراب کریں گی۔
اگر چیف جسٹس نے عمران خان کو رہا بھی کرنا تھا تو عدالت بلانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ وہ کوئی مسنگ پرسن نہیں تھے۔
ان کی گرفتاری اور ریمانڈ ریکارڈ پر تھا۔ صرف رہائی کا حکم کافی تھا۔ سپریم کورٹ بلانا ایک رات کے لیے مہمان بنانا۔ گڈٹو سی یو کہنا سب یکساں انصاف کے اصول سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ سب غیر معمولی انصاف کی شکل ہیں، اسی لیے اعتراض ہے، اس صورتحال کو سمجھناہو گا۔