آئی ایل ٹی 20 پاکستانی پلیئرز کو شرکت کی اجازت دینے پر غور
پی سی بی کی تجویز پرپی ایس ایل فرنچائزز کی جانب سے مخالفت سامنے آ گئی
پی سی بی آئی ایل ٹی ٹوئنٹی کے دوسرے ایڈیشن میں کھلاڑیوں کو شرکت کی اجازت دینے پر غور کرنے لگا۔
اماراتی ایونٹ آئی ایل ٹی ٹوئنٹی کا پہلا ایڈیشن رواں برس کھیلا گیا مگر اس میں پاکستانی کرکٹرز کو شرکت کی اجازت نہیں ملی، لیگ میں کرکٹرز کا زیادہ سے زیادہ معاوضہ ساڑھے چار لاکھ ڈالر تھا مگر منتظمین نے شاہین شاہ آفریدی، بابر اعظم اور محمد رضوان کو 9لاکھ تک کی پیشکش کر دی تھی۔
تین سالہ معاہدے کے ساتھ کپتان بنانے کا بھی کہا گیا تھا، باقی رقم امیج رائٹ وغیرہ سے پوری ہوتی، فخر زمان،اعظم خان اور محمد حسنین سے بھی مختلف فرنچائزز نے رابطہ کیا، ان تمام سے یہ کہا کہ جب پی ایس ایل اور قومی ذمہ داریوں سے وقت ملے تب ہی لیگ کھیلنے کیلیے آئیں، اس کے باوجود پی سی بی نے کسی کو جانے کی اجازت نہ دی۔
یہ بھی پڑھیں: آئی ایل ٹی لیگ؛ اگلے ایڈیشن میں پاکستانی اسٹارز بھی جلوہ گر ہوں گے
اعظم خان کا تو معاہدہ بھی ہو گیا تھا، اس وقت کے چیئرمین رمیز راجہ نے کھلاڑیوں کو ریلیز کرنے کیلیے اماراتی بورڈ سے معاوضہ بھی طلب کیا تھا۔
بورڈ کے موجودہ سربراہ نجم سیٹھی آئی ایل ٹی ٹوئنٹی کے حوالے سے زیادہ سخت موقف نہیں رکھتے، گزشتہ دنوں پی ایس ایل گورننگ کونسل میٹنگ میں بھی انھوں نے کہا تھا کہ پاکستانی کھلاڑیوں کو اب روکنا ممکن نہیں ہوگا، وہ ایسوسی ایشن وغیرہ بنانے کا بھی سوچ رہے ہیں، ویسے بھی یو اے ای کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات ہیں، ہم ''کچھ دو اور کچھ لو'' کی بنیاد پر مذاکرات کر سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ٹی20 لیگز نے انٹرنیشنل کرکٹ کو دیوار سے لگادیا
اسی وقت یہ تجویز سامنے آئی تھی کہ پی ایس ایل کا آغاز دبئی سے کیا جائے تاکہ ایونٹ کی ہائپ بن سکے اور بڑے غیرملکی کرکٹرز بھی آئیں، البتہ پی ایس ایل فرنچائزز اس تجویز سے خوش نظر نہیں آتیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی کرکٹرز کو ریلیز کر کے آئی ایل ٹی ٹوئنٹی کو مضبوط کرنا اپنی لیگ کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہوگا،ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ انتظامیہ تین سال کیلیے پکی ہو گئی تو پاکستانی کرکٹرز اماراتی لیگ کھیلتے نظر آئیں گے۔
اماراتی ایونٹ آئی ایل ٹی ٹوئنٹی کا پہلا ایڈیشن رواں برس کھیلا گیا مگر اس میں پاکستانی کرکٹرز کو شرکت کی اجازت نہیں ملی، لیگ میں کرکٹرز کا زیادہ سے زیادہ معاوضہ ساڑھے چار لاکھ ڈالر تھا مگر منتظمین نے شاہین شاہ آفریدی، بابر اعظم اور محمد رضوان کو 9لاکھ تک کی پیشکش کر دی تھی۔
تین سالہ معاہدے کے ساتھ کپتان بنانے کا بھی کہا گیا تھا، باقی رقم امیج رائٹ وغیرہ سے پوری ہوتی، فخر زمان،اعظم خان اور محمد حسنین سے بھی مختلف فرنچائزز نے رابطہ کیا، ان تمام سے یہ کہا کہ جب پی ایس ایل اور قومی ذمہ داریوں سے وقت ملے تب ہی لیگ کھیلنے کیلیے آئیں، اس کے باوجود پی سی بی نے کسی کو جانے کی اجازت نہ دی۔
یہ بھی پڑھیں: آئی ایل ٹی لیگ؛ اگلے ایڈیشن میں پاکستانی اسٹارز بھی جلوہ گر ہوں گے
اعظم خان کا تو معاہدہ بھی ہو گیا تھا، اس وقت کے چیئرمین رمیز راجہ نے کھلاڑیوں کو ریلیز کرنے کیلیے اماراتی بورڈ سے معاوضہ بھی طلب کیا تھا۔
بورڈ کے موجودہ سربراہ نجم سیٹھی آئی ایل ٹی ٹوئنٹی کے حوالے سے زیادہ سخت موقف نہیں رکھتے، گزشتہ دنوں پی ایس ایل گورننگ کونسل میٹنگ میں بھی انھوں نے کہا تھا کہ پاکستانی کھلاڑیوں کو اب روکنا ممکن نہیں ہوگا، وہ ایسوسی ایشن وغیرہ بنانے کا بھی سوچ رہے ہیں، ویسے بھی یو اے ای کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات ہیں، ہم ''کچھ دو اور کچھ لو'' کی بنیاد پر مذاکرات کر سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ٹی20 لیگز نے انٹرنیشنل کرکٹ کو دیوار سے لگادیا
اسی وقت یہ تجویز سامنے آئی تھی کہ پی ایس ایل کا آغاز دبئی سے کیا جائے تاکہ ایونٹ کی ہائپ بن سکے اور بڑے غیرملکی کرکٹرز بھی آئیں، البتہ پی ایس ایل فرنچائزز اس تجویز سے خوش نظر نہیں آتیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی کرکٹرز کو ریلیز کر کے آئی ایل ٹی ٹوئنٹی کو مضبوط کرنا اپنی لیگ کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہوگا،ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ انتظامیہ تین سال کیلیے پکی ہو گئی تو پاکستانی کرکٹرز اماراتی لیگ کھیلتے نظر آئیں گے۔