ہم مصطفوی ہیں

ہم ایک ملک، ایک دین، ایک کتاب اور ایک رسول کو ماننے والے ایک دوسرے کی جان، مال اور عزت کے دشمن کیوں بن گئے ہیں؟

ان سارے حالات و واقعات میں سب سے زیادہ نقصان عام آدمی کا ہوتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

فروری 1974 میں پاکستان کے شہر لاہور میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ اس وقت پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی اور لاہور ان کی سیاست کا قلعہ تھا۔ اس کانفرنس میں او آئی سی کے ممبران ممالک کے وفود نے شرکت کی اور اس وقت مسلم ممالک کے جن اعلیٰ پائے کے رہنماوں نے شرکت کرکے باطل کی صفوں میں خوف کی لہر دوڑا دی تھی ان میں پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو تو میزبان تھے، ان کے علاوہ سعودی عرب سے شاہ فیصل، فلسطین کی آزادی کے رہنما یاسر عرفات، مصر کے صدر انور السادات، لیبیا کے صدر معمر قذافی وغیرہ شامل تھے۔

اس وقت ہمارا مقصد نہ تو اس کانفرنس کی روداد سنانا ہے اور نہ ہی اس پر تبصرہ کرنا ہے، بلکہ وہ کانفرنس اس وقت ہمیں اس ترانے کی وجہ سے یاد آئی ہے جس نے مسلمانوں کے دلوں کر گرما کر رکھ دیا تھا اور باطل قوتوں کے دلوں میں مسلم قوت کے اکٹھا ہونے سے خوف کی لہر دوڑا دی تھی۔ وہ ترانہ اس کانفرنس کے بعد آج تک جب بھی ٹی وی یا جلسوں وغیرہ میں نشر ہوتا ہے، ہمارا بدن محبت اور اتفاق کی ایک جھرجھری ضرور لیتا ہے۔ اگرچہ تھوڑی دیر بعد وہ کیفیت قائم نہیں رہتی لیکن ترانے میں جب ''ہم مصطفوی ہیں، مصطفوی ہیں'' کا مقام آتا ہے تو ایک بار ہر دل ضرور اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ہم ایک ہیں کیوں کہ ہم ایک اللہ، ایک کتاب کو ماننے والے ہیں اور ہمارے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی ایک ہیں۔

کسی شاعر نے کہا ہے کہ ''یاد ماضی عذاب ہے یا رب، چھین لے مجھ سے حافظہ میرا''۔ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ اس شاعر نے کس دکھ درد بھرے ماضی سے نجات کےلیے اپنے قلم سے ایسے الفاظ تخلیق کیے مگر دل لگتی بات ہی ہے کہ اپنے ملک خداداد پاکستان میں پچھلے کچھ عرصے سے برپا ہونے والے حالات و واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر میرا دل بھی اب اس شاعر کی کیفیت کو سمجھنے کی پوزیشن میں آچکا ہے۔

اس بات میں دو رائے نہیں کہ کسی بھی معاشرے اور ملک میں جہاں لوگوں کی ایک کثیر تعداد بستی ہو، وہاں سارے انسان کسی ایک رائے کے تابع نہیں کیے جاسکتے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہماری رائے کے مخالف لوگوں کی نیت میں کھوٹ ہو، کیونکہ ابھی تک ایسا کوئی آلہ ایجاد نہیں ہوا جو ایک انسان کے اندر کے جذبات یعنی نیت کو دوسرے شخص پر آشکار کرسکے اور یہ بھی اللہ کی ایک نعمت ہے کہ ہم ایک دوسرے پر شک تو کرسکتے ہیں لیکن کسی کی نیت کو کسی آلے سے یقین کے لیول تک ناپ نہیں سکتے۔ اگر ایسا ممکن ہوتا اور ہم سب ایک دوسرے کے بارے میں دلوں کے حال معلوم کرلیتے تو ہمیں ایک دوسرے سے گھن آتی۔ اس حوالے سے پنجابی زبان میں کہیں بڑا اچھا فقرہ پڑھنے کو ملا ''جے دل پڑھے جاندے، سارے ہی پھڑے جاندے'' یعنی اگر ہم ایک دوسرے کے بارے میں سب کچھ پڑھ لیں تو سارے ہی پکڑے جائیں گے اور سب کی نیت اور جھوٹی محبتیں ظاہر ہوجاتیں۔ اس لیے کچھ باتوں کا علم انسان کو نہ دینا بھی اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔

ہمارا ملک بھی دنیا کے بڑے ممالک میں شامل ہے جہاں تقریباً 23 کروڑ لوگ بستے ہیں، جو زبان، علاقے، تعلیم، علم و عقل اور معلومات کے مختلف درجات اور گروپس میں بٹے ہوئے ہیں۔ لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ کسی بھی معاملے اور پالیسی پر سب کی ایک رائے ہو کیوں کہ بعض اوقات ایک ہی کام کو مثبت طریقے سے کرنے کے بھی ایک سے زیادہ طریقے موجود ہوتے ہیں اور ہر ایک شخص اس کام کو اپنے طریقے سے کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا طریقہ آپ کے طریقے سے مختلف ہوسکتا ہے مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم اسے اپنا دشمن سمجھنا شروع کردیں کہ اس نے میرے مخالف کام کیوں کیا۔


ان تمہیدی پیراگراف کی روشنی میں جب ہم اپنے ملک کے حالات کا پچھلے کچھ عرصے اور خاص کر گزشتہ ایک سال کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ کیا واقعی ''ہم مصطفوی ہیں؟''۔ ہم ایک ملک، ایک دین، ایک کتاب اور ایک رسول کو ماننے والے ایک دوسرے کی جان، مال اور عزت کے دشمن کیوں بن گئے ہیں۔ ہم تعلیم یافتہ ہوکر، ایڈوانسڈ ٹیکنالوجی سے آراستہ ہوکر بھی اپنی مخالف رائے کو برداشت کرنے سے قاصر کیوں ہیں؟ ملک میں موجود سیاسی اور مذہبی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کے بہکاوے میں آکر اتنے کیوں بھٹک چکے ہیں کہ اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کےلیے ہمیں نہ سرکاری اور پرائیویٹ املاک کے نقصان کی تکلیف ہوتی ہے اور نہ اپنے لوگوں کی جان، مال اور عزت کی پرواہ رہتی ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ جو میرا مخالف ہے اس کا سر اتارے بغیر، اس کے مال کو آگ لگانے اور اس کی عزت سے کھیلنے کے علاوہ کوئی دوسرا حل میرے پاس نہیں اور مجھے ہر صورت اپنے دشمن کو نیست و نابود کرکے چھوڑنا ہے؟

ہمارے ملک میں جب بھی کوئی شخص، گروہ یا جماعت احتجاج کے اپنے آئینی حق کو استعمال کرتے ہیں تو بیان ایسے دیتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور ایک گملا بھی نہیں ٹوٹا مگر ان کی ان حرکات اور دوسرے لوگوں کی زندگی اجیرن کرنے کی روش نے ملک کو تباہی کے دہانے لا کھڑا کیا ہے۔ ان سارے حالات و واقعات میں سب سے زیادہ نقصان عام آدمی کا ہوتا ہے، جس کا کاروبار زندگی ٹھپ ہوکر رہ جاتا ہے۔ دوسری طرف ملک جو پہلے ہی معاشی طور پر وینٹی لیٹر پر ہے اس کی ناک سے لگا آکسیجن کا پائپ کھینچنے کے مترادف ہے۔ مگر یہ بات کسی کی سمجھ میں آئے تب ناں۔

یہ بات ہم پہلے بھی کئی بار کرچکے ہیں کہ چونکہ ہمارے ملک میں سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی ایک لامتناہی تعداد ہے، جو ظاہر سی بات ہے کہ ایک دوسرے کے مخالف نظریات کے حامل ہیں اور المیہ یہ ہے کہ کچھ عرصہ سے ہم سب میں برداشت کا مادہ بھی یا تو ختم ہوچکا ہے یا بہت کم ہوچکا ہے، جس کی وجہ سے ہم ایک دوسرے کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سب پارٹیوں کے سب رہنما جب بھی کسی احتجاج کی کال دیتے ہیں تو الفاظ میں پرامن احتجاج ہی کہتے ہیں، لیکن عملی طور پر ہمارے ملک میں چاہے کوئی اکیلا شخص احتجاج کرے، گروہ کرے، سیاسی جماعت کرے یا مذہبی جماعت کرے، جب وہ احتجاج ختم ہوتا ہے تو ملک کو اربوں کھربوں کا نقصان ہوچکا ہوتا ہے اور یہ سارے صرف ایک بیان دیتے ہیں کہ ہمارا احتجاج پرامن تھا اور ایک گملا بھی نہیں ٹوٹا۔ اس کی تازہ ترین مثال ہمارے ملک میں ہونے والے پچھلے تقریباً ایک ہفتہ کے دوران کیا گیا پی ٹی آئی کا احتجاج ہے، جس میں بقول ان کی قیادت کے ایک گملا بھی نہیں ٹوٹا۔ لیکن حقیقت میں سارے ادارے ابھی نقصان کا تخمینہ بھی نہیں لگا پا رہے ہیں۔

یہ صورت حال صرف پی ٹی آئی کی نہیں بلکہ ہر جماعت کی ہے۔ ہاں اس بار اس میں ملک کے دفاعی اور عسکری اداروں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ لگتا ہے یہاں ان چیزوں کر روکنے والا اب کوئی بھی نہیں، نہ افراد، نہ جماعتیں اور نہ ہی عدلیہ۔ باقی رہے سیاسی قائدین، تو وہ وکٹری کا نشان بنا کر ساری چیزوں سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں اور اپنے کارکنوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جس کی بدولت ملک آج اس صورت حال کا شکار ہے۔ اللہ ہمارے ملک کی حفاظت کرے اور ہمارے افراد، گروہوں ،جماعتوں اور اداروں کو عقل اور ہدایت نصیب فرمائے۔ پاکستان زندہ باد۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔


Load Next Story