آرمی ایکٹ لاگو ہوگا یا نہیں
ابھی تک اس میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آرہی
9مئی کے واقعات کا مقدمہ ملٹری کورٹس میں چلانے کا اعلان ہو گیا ہے۔ لیکن ابھی تک اس میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آرہی۔
لوگ گرفتار بھی ہوئے ہیں۔ مقدمات درج بھی ہوئے ہیں۔ لیکن ابھی تک آرمی ایکٹ کے تحت ایف آئی آرز اور اس کے تحت ٹرائل میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آرہی۔ جو گرفتار بھی ہوئے ہیں۔
ان کو بھی دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج مقدمات میں ہی گرفتار کیا گیا ہے اور دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں میں ہی پیش کیا جا رہا ہے۔
جب یہ کہا جا رہا ہے کہ منصوبہ سازوں اور ہینڈلرز کا علم ہے تو سوال یہ ہے کہ انھیں گرفتار کیوں نہیں کیا جا رہا ہے، صرف کارکن پکڑے جا رہے ہیں۔
کور کمانڈر کے گھر سے مور لے جانے والا بھی گرفتار ہو گیا ہے۔ کرنل شیر خان کا مجسمہ توڑنے والا بھی گرفتار ہو گیا ہے اور گرفتاریاں بھی ہو رہی ہیں۔ لیکن کوئی بڑی گرفتاری نہیں ہوئی ہے، اگر یہ کہا جا رہا ہے کہ ہمیں سب پتہ ہے تو پھر سامنے کیوں نہیں لایا جا رہا ہے؟
مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت کیسے چلائے جائیں گے؟ آئینی اور قانونی پوزیشن کیا ہے؟ کیا یہ ممکن بھی ہے کہ نہیں؟ حکومت کی کیا پوزیشن ہے؟ کیا آرمی ایکٹ کے تحت سویلین کا ٹرائل ممکن ہے؟ عام آدمی ان سب سوالوں کا جواب جاننا چاہتا ہے۔
ایک طر ف شور مچا ہوا ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے، دوسری طرف رائے ہے کہ یہ ممکن ہے۔ ایک طرف رائے ہے کہ سویلین عدالتیں اس کے خلاف حکم امتناعی دے دیں گی، دوسری طرف رائے ہے کہ سویلین عدالتیں آرمی ایکٹ تحت ملٹری کورٹس میں چلنے والے ٹرائل میں مداخلت نہیں کر سکتیں۔ ایک طرف دلیل ہے کہ دیکھیں! جب آئین میں ترمیم کر کے دہشت گردوں کے لیے خصوصی ملٹری کورٹس بنائی گئی تھیں۔
ان مقدمات کی اپیل بھی بعد میں سویلین ہائی کورٹس میں آئی تھیں۔ اس طرح اگر اب بھی آرمی ایکٹ کے تحت کوئی عدالت سزا دے گی، تب بھی اپیل ہائی کورٹ میں آئے گی اور وہاں جیسے پہلے تمام سزائیں ختم ہوئی ہیں، اب بھی سزائیں ختم ہو جائیں گی۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا ان مقدمات کو آرمی ایکٹ کے تحت چلانے کے لیے کسی نئی قانون سازی کی ضررورت ہو گی؟ کیا کابینہ کی منظوری کی ضرورت ہے یا کسی منظوری کی کوئی ضرورت نہیں، بہت ابہام ہے۔ 9مئی کے بعد تحریک انصاف دباؤ میں نظرا ٓرہی ہے۔اطلاعات یہی ہیں کہ عمران خان سب کو تسلی دے رہے ہیں کہ دو ہفتے کے بعد دباؤ کم ہو جائے گا۔ ہمیں صرف دو ہفتے گزارنا ہیں۔
وہ کہہ رہے ہیں کچھ نہیں ہوگا۔ ہمیں ہمت قائم رکھنی ہے۔ اسی لیے وہ معافی بھی نہیں مانگ رہے۔ وقت گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شاید عمران خان کو اندازہ ہے جیسے جیسے وقت گزرے گا دبا ؤ کم ہوگا۔ چیزیں نارمل ہوںگی اور پھر انھیں دوبارہ کھیلنے کا موقع مل جائے گا۔ اس لیے وہ وقت گزارنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کچھ نہ ہو اور وقت گزر جائے۔
یہ بھی درست ہے کہ سویلین عدالتوں نے اتنے بڑے واقعات میں بھی ضمانتوں میں کافی نرمی دکھائی ہے۔ اتنے بڑے واقعات کے بعد عدالتوں نے حکومت کا ساتھ نہیں دیا۔ سب کو رہائی ملی ہے۔
یہ احساس نہیں کیا گیا کہ اتنے بڑے واقعات ہوئے ہیں، حکومت کے پاس امن و امان بحال کرنے کے لیے تحریک انصاف کے لوگوں کو نقص امن میں بند کرنے کے سوا کیا آپشن تھی۔ یہ کوئی عام صورتحال نہیں تھی۔ لیکن پھر بھی عدالتوں نے اتنے بڑے واقعات کے بعد بھی تحریک انصاف کو غیر معمولی انصاف دیا ہے۔ اس لیے اس کے بعد تو آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلانے کا مزید جواز بھی پیدا ہوگیا ہے۔ کیونکہ عام عدالتوں سے سزائیں ممکن نہیں ہیں۔
ایک دلیل یہ بھی دی جا رہی ہے کہ جب ٹرمپ کے حامیوں نے کیپٹل ہل پر حملہ کیا تھا تو ان کے مقدمات بھی عام سویلین عدالتوں میں چلے تھے۔ لیکن یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ عدالتوں نے کتنی جلدی سزائیں سنائیں۔ کیا ہماری عدالتیں ان ملزمان کو اتنی جلدی سزائیں دینے کے لیے تیار ہیں۔
کیا چیف جسٹس نے ان واقعات پر کوئی افسوس کا اظہار کیا ہے۔ کیا انھوں نے کہا ہے کہ ان مقدمات کو جلد نبٹانے کے لیے کوئی حکمت عملی بنائی جائے گی۔ کیا چیف جسٹس نے واقعات کی سنگینی کا احساس کیا ہے۔ آپ دیکھیں جب قصور میں ایک بچی کا ریپ ہوا تھا تو اس کے ملزم کو سزا دینے کے لیے ٹرائل چند دن میں مکمل کیا گیا۔ بلکہ اس کی اپیل کا فیصلہ بھی چند دن میں کیا گیا۔
کیا چیف جسٹس یہ اعلان نہیں کر سکتے تھے کہ یہ ایک قومی سانحہ ہے لہذا ان مقدمات کی روزانہ سماعت ہوگی اور دنوں میں معاملے کو نبٹایا جائے گا۔ لیکن ہمیں چیف جسٹس کی طرف سے ایسا کوئی اعلان نہیں ملا ہے۔ جس نے آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلانے کو مزید جواز فراہم کیا ہے۔ کیونکہ یہ تو سب کو معلوم ہے پاکستان کی عدالتوں میں مقدمات کئی سال نہیں بلکہ کئی دہائیاں چلتے ہیں۔ پھر ضمانتیں بھی مل جاتی ہیں۔
میری رائے میں اول تو آرمی ایکٹ کی بات اتنی جلدی کرنی نہیں چاہیے تھی۔ اگر اب کر دی گئی ہے تو تاخیر کا نقصان ہوگا۔
ہر گزرتا دن ملزمان کو زندگی دے رہا ہے۔ فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے کے ملزمان آج بچ گئے تو پھر اس اعلان کی بھی کوئی اہمیت نہیں رہے گی کہ ہم دوبارہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ جب یہ بچ جائیں گے تو دوبارہ حملہ بھی ہوگا۔ اگر آج تمام ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچا دیا جاتا ہے تو پھر دوبارہ کسی کو یہ ہمت نہیں ہوگی۔ آج بچ گئے تو حوصلہ ملے گا۔ جیسے ہر جرم میں ہوتا ہے۔ جب ملزم بچ جاتا ہے تو دوبارہ جرم کرتا ہے۔
عمران خان سب کو یہی تسلی دے رہے ہیں کہ معاملہ ٹھنڈا ہوگا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ وہ تو اپنے ساتھیوں کو یہ تک کہہ رہے ہیں کہ جون میں پنجاب میں انتخابات کی تیاری رکھیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ اور چیف جسٹس پاکستان جون میں انتخابات کا حکم دے دیں گے۔
اس لیے فکر کی کوئی بات نہیں۔ جب انتخابات کا اعلان ہو جائے گا تو یہ معاملہ خودہی پیچھے چلا جائے گا۔ آپ دیکھیں وہ اتنے بڑے واقعہ کے بعد بھی مریدکے میں جلسہ کرنا چاہتے ہیں۔ تا کہ عوام کی توجہ 9مئی سے پنجاب میں انتخابات کی طرف موڑی جا سکے۔ فیصلہ اب ریاست نے کرناہے، اگر آج ان کو معافی دی گئی اور نرمی برتی گئی تو کل کسی کو بھی روکنے کا کوئی جواز نہیں رہے گا۔
لوگ گرفتار بھی ہوئے ہیں۔ مقدمات درج بھی ہوئے ہیں۔ لیکن ابھی تک آرمی ایکٹ کے تحت ایف آئی آرز اور اس کے تحت ٹرائل میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آرہی۔ جو گرفتار بھی ہوئے ہیں۔
ان کو بھی دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج مقدمات میں ہی گرفتار کیا گیا ہے اور دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں میں ہی پیش کیا جا رہا ہے۔
جب یہ کہا جا رہا ہے کہ منصوبہ سازوں اور ہینڈلرز کا علم ہے تو سوال یہ ہے کہ انھیں گرفتار کیوں نہیں کیا جا رہا ہے، صرف کارکن پکڑے جا رہے ہیں۔
کور کمانڈر کے گھر سے مور لے جانے والا بھی گرفتار ہو گیا ہے۔ کرنل شیر خان کا مجسمہ توڑنے والا بھی گرفتار ہو گیا ہے اور گرفتاریاں بھی ہو رہی ہیں۔ لیکن کوئی بڑی گرفتاری نہیں ہوئی ہے، اگر یہ کہا جا رہا ہے کہ ہمیں سب پتہ ہے تو پھر سامنے کیوں نہیں لایا جا رہا ہے؟
مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت کیسے چلائے جائیں گے؟ آئینی اور قانونی پوزیشن کیا ہے؟ کیا یہ ممکن بھی ہے کہ نہیں؟ حکومت کی کیا پوزیشن ہے؟ کیا آرمی ایکٹ کے تحت سویلین کا ٹرائل ممکن ہے؟ عام آدمی ان سب سوالوں کا جواب جاننا چاہتا ہے۔
ایک طر ف شور مچا ہوا ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے، دوسری طرف رائے ہے کہ یہ ممکن ہے۔ ایک طرف رائے ہے کہ سویلین عدالتیں اس کے خلاف حکم امتناعی دے دیں گی، دوسری طرف رائے ہے کہ سویلین عدالتیں آرمی ایکٹ تحت ملٹری کورٹس میں چلنے والے ٹرائل میں مداخلت نہیں کر سکتیں۔ ایک طرف دلیل ہے کہ دیکھیں! جب آئین میں ترمیم کر کے دہشت گردوں کے لیے خصوصی ملٹری کورٹس بنائی گئی تھیں۔
ان مقدمات کی اپیل بھی بعد میں سویلین ہائی کورٹس میں آئی تھیں۔ اس طرح اگر اب بھی آرمی ایکٹ کے تحت کوئی عدالت سزا دے گی، تب بھی اپیل ہائی کورٹ میں آئے گی اور وہاں جیسے پہلے تمام سزائیں ختم ہوئی ہیں، اب بھی سزائیں ختم ہو جائیں گی۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا ان مقدمات کو آرمی ایکٹ کے تحت چلانے کے لیے کسی نئی قانون سازی کی ضررورت ہو گی؟ کیا کابینہ کی منظوری کی ضرورت ہے یا کسی منظوری کی کوئی ضرورت نہیں، بہت ابہام ہے۔ 9مئی کے بعد تحریک انصاف دباؤ میں نظرا ٓرہی ہے۔اطلاعات یہی ہیں کہ عمران خان سب کو تسلی دے رہے ہیں کہ دو ہفتے کے بعد دباؤ کم ہو جائے گا۔ ہمیں صرف دو ہفتے گزارنا ہیں۔
وہ کہہ رہے ہیں کچھ نہیں ہوگا۔ ہمیں ہمت قائم رکھنی ہے۔ اسی لیے وہ معافی بھی نہیں مانگ رہے۔ وقت گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شاید عمران خان کو اندازہ ہے جیسے جیسے وقت گزرے گا دبا ؤ کم ہوگا۔ چیزیں نارمل ہوںگی اور پھر انھیں دوبارہ کھیلنے کا موقع مل جائے گا۔ اس لیے وہ وقت گزارنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کچھ نہ ہو اور وقت گزر جائے۔
یہ بھی درست ہے کہ سویلین عدالتوں نے اتنے بڑے واقعات میں بھی ضمانتوں میں کافی نرمی دکھائی ہے۔ اتنے بڑے واقعات کے بعد عدالتوں نے حکومت کا ساتھ نہیں دیا۔ سب کو رہائی ملی ہے۔
یہ احساس نہیں کیا گیا کہ اتنے بڑے واقعات ہوئے ہیں، حکومت کے پاس امن و امان بحال کرنے کے لیے تحریک انصاف کے لوگوں کو نقص امن میں بند کرنے کے سوا کیا آپشن تھی۔ یہ کوئی عام صورتحال نہیں تھی۔ لیکن پھر بھی عدالتوں نے اتنے بڑے واقعات کے بعد بھی تحریک انصاف کو غیر معمولی انصاف دیا ہے۔ اس لیے اس کے بعد تو آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلانے کا مزید جواز بھی پیدا ہوگیا ہے۔ کیونکہ عام عدالتوں سے سزائیں ممکن نہیں ہیں۔
ایک دلیل یہ بھی دی جا رہی ہے کہ جب ٹرمپ کے حامیوں نے کیپٹل ہل پر حملہ کیا تھا تو ان کے مقدمات بھی عام سویلین عدالتوں میں چلے تھے۔ لیکن یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ عدالتوں نے کتنی جلدی سزائیں سنائیں۔ کیا ہماری عدالتیں ان ملزمان کو اتنی جلدی سزائیں دینے کے لیے تیار ہیں۔
کیا چیف جسٹس نے ان واقعات پر کوئی افسوس کا اظہار کیا ہے۔ کیا انھوں نے کہا ہے کہ ان مقدمات کو جلد نبٹانے کے لیے کوئی حکمت عملی بنائی جائے گی۔ کیا چیف جسٹس نے واقعات کی سنگینی کا احساس کیا ہے۔ آپ دیکھیں جب قصور میں ایک بچی کا ریپ ہوا تھا تو اس کے ملزم کو سزا دینے کے لیے ٹرائل چند دن میں مکمل کیا گیا۔ بلکہ اس کی اپیل کا فیصلہ بھی چند دن میں کیا گیا۔
کیا چیف جسٹس یہ اعلان نہیں کر سکتے تھے کہ یہ ایک قومی سانحہ ہے لہذا ان مقدمات کی روزانہ سماعت ہوگی اور دنوں میں معاملے کو نبٹایا جائے گا۔ لیکن ہمیں چیف جسٹس کی طرف سے ایسا کوئی اعلان نہیں ملا ہے۔ جس نے آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلانے کو مزید جواز فراہم کیا ہے۔ کیونکہ یہ تو سب کو معلوم ہے پاکستان کی عدالتوں میں مقدمات کئی سال نہیں بلکہ کئی دہائیاں چلتے ہیں۔ پھر ضمانتیں بھی مل جاتی ہیں۔
میری رائے میں اول تو آرمی ایکٹ کی بات اتنی جلدی کرنی نہیں چاہیے تھی۔ اگر اب کر دی گئی ہے تو تاخیر کا نقصان ہوگا۔
ہر گزرتا دن ملزمان کو زندگی دے رہا ہے۔ فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے کے ملزمان آج بچ گئے تو پھر اس اعلان کی بھی کوئی اہمیت نہیں رہے گی کہ ہم دوبارہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ جب یہ بچ جائیں گے تو دوبارہ حملہ بھی ہوگا۔ اگر آج تمام ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچا دیا جاتا ہے تو پھر دوبارہ کسی کو یہ ہمت نہیں ہوگی۔ آج بچ گئے تو حوصلہ ملے گا۔ جیسے ہر جرم میں ہوتا ہے۔ جب ملزم بچ جاتا ہے تو دوبارہ جرم کرتا ہے۔
عمران خان سب کو یہی تسلی دے رہے ہیں کہ معاملہ ٹھنڈا ہوگا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ وہ تو اپنے ساتھیوں کو یہ تک کہہ رہے ہیں کہ جون میں پنجاب میں انتخابات کی تیاری رکھیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ اور چیف جسٹس پاکستان جون میں انتخابات کا حکم دے دیں گے۔
اس لیے فکر کی کوئی بات نہیں۔ جب انتخابات کا اعلان ہو جائے گا تو یہ معاملہ خودہی پیچھے چلا جائے گا۔ آپ دیکھیں وہ اتنے بڑے واقعہ کے بعد بھی مریدکے میں جلسہ کرنا چاہتے ہیں۔ تا کہ عوام کی توجہ 9مئی سے پنجاب میں انتخابات کی طرف موڑی جا سکے۔ فیصلہ اب ریاست نے کرناہے، اگر آج ان کو معافی دی گئی اور نرمی برتی گئی تو کل کسی کو بھی روکنے کا کوئی جواز نہیں رہے گا۔