اعتدال کچھ تناؤ
ٹی وی کے سرکاری دانشوروں کے ذریعے بھی جمہوریت کی بالادستی کے ریکارڈ بجائے گئے ۔۔۔
میاں صاحب کے کچھ محترم وزراء تو اس قدر آگے بڑھ گئے کہ ہمارے چیف آف اسٹاف کو کہنا پڑا کہ ''فوج اپنے ادارے کے وقار کا ہر قیمت پر تحفظ کرے گی'' چیف آف آرمی اسٹاف کے اس انتباہ کے بعد حکومتی حلقوں میں اس قدر کھلبلی مچی کہ وزیر اعظم کو بار بار اپنے نزدیکی رفقا سے ملاقات کرنی پڑی اور اس نئی صورت حال پر غور کرنا پڑا۔ میڈیا میں حکومت اور فوج کے درمیان اختلافات کی خبریں تواتر کے ساتھ چلنے لگیں اگرچہ حکومتی حلقوں کی طرف سے بار بار تردید کی جاتی رہی کہ حکومت اور فوج کے درمیان کوئی اختلاف رائے نہیں ہے اور دونوں ایک صفحے پر ہیں لیکن درحقیقت ایسا نہ تھا اختلاف پیدا ہوگئے تھے وہ بھی اس لیے کہ حکومتی خواجگان بلاوجہ کے فوج کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے اور اس نیک کام کے لیے بندوق مشرف کے کندھے پر رکھی جا رہی تھی۔
صورتحال جب زیادہ سنجیدہ ہونے لگی اور چہ میگوئیاں بڑھنے لگیں تو ہمارے وزیر داخلہ نے تسلیم کیا کہ حکومت اور فوج کے درمیان ''کچھ تناؤ'' پیدا ہو گیا ہے جسے جلد دور کر لیا جائے گا۔ وزیر اعظم نے اپنے وزراء کو فوج کے خلاف بیان بازی سے روک دیا۔ چیف آف آرمی اسٹاف سے دوستانہ ملاقاتیں کیں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا اور مسئلے کو بڑی حد تک حل کر لیا گیا ۔ چیف آف آرمی اسٹاف نے وزیر اعظم کو کاکول کی تقریب میں مدعو کر کے اچھا پیغام دے دیا۔ یوں یہ معاملہ بگڑتے بگڑتے سنور گیا۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ نواز شریف 1999ء کے حادثے کو بھلا نہیں پائے۔ان کی کوشش ہے کہ آیندہ اس قسم کے امکانات کو روکنے کے لیے جو کچھ کیا جا سکتا ہے کر لیا جائے۔ ہمارے سابق صدر آصف علی زرداری کی نواز شریف سے ہنگامی ملاقات کا مقصد بھی یہی ظاہر کرنا تھا کہ اگر خدانخواستہ کوئی آسمانی سلطانی ہو گئی تو پیپلز پارٹی نواز شریف کا ساتھ دے گی۔ زرداری صاحب نے بھی بڑے واضح طور پر کہا کہ ہم جمہوریت کے تحفظ کے لیے میاں صاحب کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ٹی وی کے سرکاری دانشوروں کے ذریعے بھی جمہوریت کی بالادستی کے ریکارڈ بجائے گئے حتیٰ کہ عدلیہ نے بھی فرمایا کہ آئین اور قانون کی بالادستی کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کی جائے گی۔ان سارے بیانات پیغامات ملاقاتوں کا واحد مقصد یہ پیغام دینا تھا کہ جمہوریت کے دفاع کے لیے ہم سب متحد ہیں۔ اس سارے فسانے میں جس بات کا ذکر نہ تھا وہ تھے عوام۔ عوام جمہوریت کے وارث اور حقیقی رکھوالے ہیں انھیں ہمیشہ اس کھیل سے دور رکھا گیا ہماری جمہوریت میں عوام کو جو ذمے داری سونپی گئی ہے عوام کو جو کردار دیا گیا ہے وہ صرف ووٹ کی پرچی کا استعمال ہے۔ اس کے بعد عوام کو گمنامی کے اندھیرے میں دھکیل دیا جاتا ہے۔
ہماری تقریباً تمام ہی منتخب حکومتیں فوج سے خوفزدہ ہی نہیں بلکہ انڈر پریشر رہیں، میاں نواز شریف کو یہ اعزاز دیا جا رہا ہے کہ وہ 66 سال کی اس روایت کو بدل کر اسٹیبلشمنٹ کو جمہوریت کے تابع کرنا چاہتے ہیں۔ جمہوری ملکوں میں فوج ہر جگہ منتخب حکومت کی تابع ہوتی ہے یہ ایک اصولی بات ہے لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہے جہاں ایک دو نہیں چار بار فوج نے سول حکومت میں مداخلت کی اس منفرد صورتحال پر حقیقت پسندانہ انداز میں غور کرنے اور اس کا تدارک کرنے کے بجائے فوج ہی کو اس صورتحال کا ذمے دار قرار دیا جاتا رہا۔ 1977ء کی غیر جمہوری تحریک کے دوران ہمارے سیاستدان کھلے عام فوج کو مداخلت کی دعوت دیتے رہے۔ جب ضیا الحق نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تو بھٹو کے خلاف اس جمہوری تحریک کے ہیروز انتہائی بے شرمی کے ساتھ ضیا الحق کی حکومت میں شامل ہو گئے اور ضیا الحق نے جن حضرات کو اپنا سیاسی وارث بنایا وہ آج اللہ کے فضل سے جمہوریت کے سب سے بڑے رکھوالے ہیں۔
ایوب خان نے سول حکومت کا تختہ الٹا تو عوام نے سکھ کا سانس کیوں لیا؟ کیونکہ عوام نوکر شاہی کی سازشانہ سیاست سے بیزار آ گئے تھے۔ 1977ء میں ضیا الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹا تو عوام نے چپ کا روزہ رکھ لیا کیونکہ بھٹو نے روٹی، کپڑا، مکان کا وعدہ پورا کیا تھا نہ مزدور کسان راج کا۔ ضیا الحق نے بھٹو کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا عوام گھروں میں بیٹھ کر خبریں سنتے رہے کیوں؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ بھٹو کا رشتہ عوام سے کٹ گیا تھا۔ نواز شریف کو دو بار حکومت سے بے دخل کیا گیا اور 1999ء میں نواز شریف کی حکومت کا مشرف نے تختہ الٹ دیا۔ عوام یہ تماشے خاموشی سے دیکھتے رہے، بے نظیر کو دو بار حکومت بدر کر دیا گیا عوام خاموش رہے، کیوں؟
یہی وہ کیوں ہے جس کا جواب تلاش کرنے کے بجائے ہماری حکومتیں فوج کو نکیل ڈالنے کی احمقانہ کوششیں کرتی نظر آتی ہیں۔ اگر عوام منتخب جمہوری حکومتوں کے پیچھے کھڑے ہو جاتے ہیں اور فوجی جنتا کو یہ احساس ہوتا ہے کہ عوام منتخب حکومتوں کے ساتھ ہیں تو پھر وہ کسی سول حکومت کا تختہ الٹنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے لیکن عوام کی طاقت کو نظرانداز کر کے عوام کو اپنا دشمن بنا کر کوئی فوج کو اپنے کنٹرول میں لانے کی کوشش کرتا ہے تو ہم اس کی سیاسی بصیرت پر فاتحہ ہی پڑھ سکتے ہیں داد نہیں دے سکتے۔ جہاں حقیقی معنوں میں جمہوریت ہوتی ہے عوام حکومتوں کے پیچھے کھڑے نظر آتے ہیں وہاں نہ کسی جنرل کو سول حکومت کا تختہ الٹنے کی ہمت ہوتی ہے نہ سول حکومت کے سر پر فوج کے خوف کا بھوت سوار رہتا ہے۔
سیاسی بصیرت کے حامل اور عوام کے مسائل حل کرنے میں مخلص سیاسی رہنماؤں کو کبھی فوج کا خوف نہیں رہتا کیونکہ وہ عوام کے خوف سے باخبر ہوتے ہیں۔ پاکستان میں 66 سالوں سے عوام لاوارثوں کی طرح جی رہے ہیں، مہنگائی ، بے روزگاری، غربت، بھوک، بیماری، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ، سر سے پاؤں تک اربوں کھربوں کی کرپشن میں جکڑے ہوئے عوام سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ''اس جمہوریت'' کو بچانے کے لیے آگے آئیں گے؟ فوج سے مت ڈریے عوام سے ڈریے کہ عوام ہی قوت کا اصل سرچشمہ ہیں۔ انھیں خوش رکھیے ان کے مسائل ایمانداری سے حل کیجیے پھر بے خوف ہو کر حکومت کیجیے کسی طرف سے آپ کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔ کاش ہمارے سیاستدان اس حقیقت کو سمجھتے۔