طبقاتی نظام
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ طبقاتی نظام جس سے نوے فیصد لوگ نفرت کرتے ہیں
دنیا ہزاروں سال سے معاشی ناانصافیوں اور طبقاتی مظالم کا شکار ہے اس دوران بعض (نیک لوگوں) اور عوام کے ہمدردوں نے بڑی قربانیاں دیں بڑی کوششیں کیں لیکن ظالمانہ نظام کو ختم نہ کرسکے۔
موجودہ دنیا طبقات میں بٹی ہوئی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ طبقاتی نظام جس سے نوے فیصد لوگ نفرت کرتے ہیں، وہ عوام کے لیے عذاب بنا ہوا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ایک طبقہ جو معاشی وسائل پر قابض ہے وہ اپنی طبقاتی طاقت کی بنیاد پر لاکھوں کروڑوں لوگوں پر حاوی ہے۔
اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ ایک چھوٹا سا طبقہ دنیا کے وسائل پر قابض ہونے کی وجہ سے دنیا کا مالک بنا ہوا ہے۔ ظلم کے اس نظام کی حفاظت مزدوروں، کسانوں اور غریب طبقات کے ذریعے کی جاتی ہے۔ دنیا کی آبادی کا 80 فیصد سے زائد عوام بنیادی ضرورتوں سے محروم ہے۔
دنیا میں اس ظالمانہ نظام کو تبدیل کرنے کے لیے انفرادی اور اجتماعی طور پر بڑی قربانیاں دیں لیکن اس نظام کے محافظ اس قدر مضبوط اور طاقتور ہیں کہ وہ ہمیشہ اس لڑائی میں کامیاب رہے، سرمایہ داری نظام کی حفاظت کا کام غریب عوام سے لیا جاتا ہے۔
مارکس نے اور ناانصافیوں کے خلاف لڑنے والوں نے بے حد کوششیں کیں لیکن چونکہ اس نظام کے محافظ اس قدر طاقتور ہیں کہ وہ ہر مخالف کو نیست و نابود کرتے ہیں اور جیساکہ ہم نے نشان دہی کی کہ اس نظام حفاظت کا کام غریب عوام سے ہی لیا جاتا ہے حیرت کی بات یہ ہے کہ ظلم سہنے والوں کی تعداد ظلم کرنے والوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے لیکن ان کی مجبوری یہ ہے کہ وہ طاقتور طبقے کے قبضے سے نکل ہی نہیں پاتے۔
ان کے گرد ایسا جال بن دیا گیا ہے کہ وہ اس سے نکلنے کی جتنی کوشش کرتے ہیں اتنا ہی زیادہ اور جکڑے جاتے ہیں ویسے تو پورے مجبور طبقے کو ہی غلام بنا دیا گیا ہے لیکن دیہاڑی دار طبقے کو اس قدر جکڑ کے رکھ دیا ہے کہ وہ اپنے کسی حق کے حوالے سے آواز تک نہیں اٹھا سکتے۔
ان طاقتوروں نے مزدوروں کی اجتماعی طاقت کو توڑنے کے لیے انھیں مختلف حوالوں سے تقسیم کر کے رکھ دیا ہے جیسے کہ ہم نے حوالہ دیا ہے کہ مزدوروں کی طاقت کو توڑنے کے لیے انھیں مختلف حوالوں سے خاص طور پر زبان، رنگ، نسل کے حوالے سے ایک دوسرے سے اس قدر دور کردیا ہے کہ ان کی یونٹی اب انتہائی مشکل ہے۔
ٹیکسٹائل ملز کے مزدوروں میں بہت یونٹی ہے، اس لیے انھیں اپنی یونٹی کی وجہ سے کچھ مراعات مل جاتی ہیں، اس میں بدقسمتی یہ ہے کہ وائٹ کالر مزدور طبقہ مالکان کی حمایت کرتا ہے، اسی کے نتیجے میں مزدور نہ صرف تقسیم ہو جاتے ہیں بلکہ ان کی طاقت بھی ٹوٹ جاتی ہے۔ وہ مزدور جو حققوق مانگتے ہیں انھیں یا تو ملازمتوں سے نکال دیا جاتا ہے یا طرح طرح سے پریشان کیا جاتا ہے۔
حیرت ہے کہ پچھلے تین چار سال میں نئی نئی مزدور تنظیمیں بنیں لیکن ان پر اتنا پریشر ہے کہ وہ اپنی یونین نہیں بنا سکتے۔ مجھے اس موقع پر 1986 کا زمانہ یاد آتا ہے جب مالکان مزدوروں کے پیچھے پیچھے پھرتے تھے۔ مالکان کی سیاست کا مرکزی کردار وہ مزدور ہوتے ہیں جو مالکان کے پینل پر ہوتے ہیں، ان کا کام مالکان کی پالیسیوں کو مزدوروں میں مقبول بنانا ہوتا ہے جس کا بھرپور معاوضہ انھیں دیا جاتا ہے۔
آج کل کی صورت حال میں ایک طرح سے جمود طاری ہے، قانون کا دباؤ تو ہوتا ہی ہے لیکن اس کے علاوہ مختلف ہتھکنڈوںکے ذریعے مزدوروں کو دبا کر رکھا جاتا ہے۔